گدھے نے چیتے سے کہا: گھاس نیلی ہے۔
چیتے نے جواب دیا: نہیں، گھاس ہری ہے۔
بحث شروع ہوگئی اور دونوں نے فیصلہ کیا کہ معاملے کو جنگل کے بادشاہ شیر کی عدالت میں پیش کیا جائے۔
شیر اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا کہ گدھا حسِ معمول بلند آواز میں بولا بادشاہ سلامت کیا گھاس نیلی نہیں ہے؟
شیر نے کہا “سچ بات ہے گھاس تو نیلی ہوتی ہے۔
اب گدھے کو ہمت آگئی اور وہ بولا “بادشاہ سلامت یہ چیتا میری بات نہیں مانتا اور مجھ سے بحث کررہا ہے کہ گھاس نیلی نہیں بلکہ ہری ہے۔ اس کو سزا ملنی چاہئیے“
بادشاہ نے اعلان کیا “چیتے کو ٥ سال تک چپ رہنے کی سزا دی جاتی ہے“
گدھا خوشی سے اچھل پڑا اور “گھاس نیلی ہے“ گاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
چیتے نے سزا قبول کر لی، لیکن اس نے شیر سے پوچھا “جنگل کے بادشاہ آپ نے مجھے کیوں سزا دی ہے؟ کیا واقعی گھاس کا رنگ ہرا نہیں ہوتا؟
شیر نے جواب دیا ’’دراصل گھاس کا رنگ ہرا ہی ہے“
چیتے نے پوچھا"تو مجھے سزا کیوں دی جارہی ہے“
شیر نے کہا “ تمھاری سزا کا تعلق اس بات سے نہیں کہ گھاس ہری ہوتی ہے یا نیلی بلکہ تمھیں سزا اس بات کے لئے دی جارہی ہے کہ تم جیسا بہادر اور ذہین جانور گدھے سے بحث کر کے اپنا وقت ضائع کررہا ہے اور پھر احمقانہ سوال کر کے میرا بھی وقت برباد کرہا ہے۔
کسی احمق اور جنونی شخص سے بحث کرنا اپنا قیمتی وقت ضائع کرنا ہے کیوں کہ بیوقوف لوگ سچ کی تلاش میں نہیں بلکہ اپنے گھسے پٹے غلط نظریات کو ہر حال میں صحیح ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے آگے دنیا جہان کے ثبوت بھی لا کر رکھ دو رو بے سود ہے۔ اس لئے ان سے بحث کرنا صرف حماقت ہے۔