پاکستان میں اس وقت مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے، غریب ہو یا امیر ہر شخص بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہے اور پوری کوشش کے باوجود گھر کا راشن پورا کرنا ناممکن ہوچکا ہے لیکن 1985 میں خوردنی اشیاء اتنی سستی تھیں کہ جن کا آج تصور بھی محال ہے۔
1985 کے ایک نرخنامے کے مطابق سیلا چاول ساڑھے سات روپے کلو، میدہ ساڑھے 3 روپے، سوجی ساڑھے 3 روپے، چنے کی دال 7 روپے، دال ماش 10، مسور 12، مونگ کی دال 8، سفید چنا ساڑھے چار، گھی ساڑھے 13 روپے کلو، دودھ 4 روپے لیٹر، دہی 6 روپے کلو، بڑا گوشت 11 روپے اور چھوٹا گوشت 24 روپے کلو تھا۔
اس زمانے میں چائے کا کپ ایک روپے، لسی 2 روپے، خاص کھویا 25 روپے کلو، سوہن حلوہ 16 روپے، فروٹ 20 روپےکلو، مکس مٹھائی 16 روپے، جلانے کی لکڑی 20 روپے من، مٹی کا تیل 3 روپے لیٹر، پکی ہوئی مچھلی 29 روپے کلو، برف کا پورا بلاک 35 روپے اور کولڈ ڈرنک 2 روپے کی ملتی تھی۔
آج پاکستان میں مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے، آج گھی اور پکوان تیل 600، کھلا دودھ 180، بڑا گوشت ایک ہزار، چھوٹا گوشت دو ہزار، مٹھائی 1200روپے کلو جبکہ دالیں اور سبزیاں بھی 250 سے 300 روپے سے کم نہیں ہیں۔
یہاں یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ 1985 کے دور میں عمومی طور پر تنخواہ 2 سے ڈھائی ہزار تک ہوتی تھی اور اس وقت بھی لوگ مہنگائی کا گلہ کرتے تھے جبکہ آج سرکاری طور پر 25 ہزار کم سے کم تنخواہ مقرر ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوچکا ہے۔