ڈیوڈ کیرک: برطانوی پولیس کے اہلکار جو 20 برس تک خواتین کو ریپ کرتے اور انھیں اپنی ’طوائفیں‘ کہہ کر پکارتے رہے

برطانوی پولیس اہلکار ڈیوڈ کیرک 20 برس تک ایک سیریئل ریپسٹ رہے جو خواتین پر جنسی تشدد کر کے خوش ہوتے تھے۔ یہ سب کچھ انھوں نے پولیس یونیفارم کی آڑ میں کیا۔

برطانوی پولیس اہلکار ڈیوڈ کیرک 20 برس تک ایک سیریئل ریپسٹ رہا ہے جو جنسی تشدد کرتا تھا اور اس دوران نہ صرف وہ پولیس یونیفارم میں ملبوس رہا بلکہ کافی عرصے تک اس نے ایک بندوق بھی رکھی ہوئی تھی۔

اپنی نجی زندگی کے دوران وہ متاثرہ افراد کو کہتا تھا کہ ’تم میرے غلام ہو‘ اور پھر انھیں کنٹرول بھی کرتا تھا اور ان پر تشدد بھی کیا کرتا تھا اور ان کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک بھی کرتا تھا۔

کیرک متاثرہ افراد سے کہا کرتا تھا کہ ان پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا کیونکہ ان کی گواہی ایک پولیس والے کی گواہی کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتی۔

کیرک نے اب تک 12 متاثرہ افراد سے متعلق 49 الزامات کا اعتراف کیا ہے۔ اس کی جانب سے اعتراف جرم کے بعد میٹروپولیٹن پولیس کو یونیفارم میں موجود ایک مجرم کی شناخت نہ کر پانے پر معافی مانگنی پڑی ہے۔

کیرک اس وقت اپنے ’کارناموں‘ سے رکا جب ایک خاتون نے بالآخر اس کے خلاف رپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اکتوبر 2021 میں جب میٹروپولیٹن پولیس کے بدنامِ زمانہ افسر پی سی وین کوزینز کے بارے میں خبریں سامنے آئیں تو انھوں نے ہرٹفورڈشائر میں پولیس سے رابطہ کیا جہاں کیرک کی رہائش گاہ بھی ہے۔

خاتون کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کی ایک برس قبل کیرک سے ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر ملاقات ہوئی تھی۔ پہلی ملاقات میں کیرک نے خاتون کو پولیس وارنٹ دکھایا اور دعویٰ کیا کہ ان کی مقبول افراد سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن میں وزیرِ اعظم بھی شامل ہیں اور وہ اسلحہ چلانا جانتے ہیں۔ اس دوران اس نے اپنے پالتو سانپ کا بھی ذکر کیا۔

اس نے یہ بھی بتایا کہ انھیں ایک حکم کی تابع خاتون کی تلاش ہے۔ 

اس کے بعد ان کے ساتھ شراب نوشی کرنے کے بعد وہ انھیں ہوٹل کے کمرے میں لے گیا جہاں خاتون کے مطابق کیرک نے ان کا ریپ کیا۔ کیرک کو گرفتار کر کے ان کے خلاف فردِ جرم عائد کی جا چکی ہے۔

عدالت میں پہلی پیشی میں کیرک نے ان الزامات کی تردید کی لیکن کورٹ کیس میں مدعا الیہ ہونے کے باعث ان کا نام پبلک کر دیا گیا۔ پولیس افسر ایان مور جنھوں نے ان تحقیقات کی سربراہی کی بتاتے ہیں کہ پہلی متاثرہ خاتون کے سامنے آنے کے بعد دوسرے لوگ بھی آگے آئے۔

جب کیرک سے متاثر ہونے والوں نے انھیں بالآخر گرفتار پایا تو وہ وقت کے ساتھ سامنے آنے لگے۔ مور کہتے ہیں کہ ’تحقیقات تیزی سے آگے بڑھنے لگی۔‘

عدالت میں پہلی پیشی میں انھوں نے ان الزامات کی تردید کی لیکن کورٹ کیس میں مدعا الیہ ہونے کے باعث ان کا نام پبلک کر دیا گیا۔ پولیس افسر ایان مور جنھوں نے ان تحقیقات کی سربراہی کی بتاتے ہیں کہ پہلی متاثرہ خاتون کے سامنے آنے کے بعد دوسرے لوگ بھی آگے آئے۔

جب کیرک سے متاثر ہونے والوں نے انھیں بالآخر گرفتار پایا تو وہ وقت کے ساتھ سامنے آنے لگے۔ مور کہتے ہیں کہ ’تحقیقات تیزی سے آگے بڑھنے لگی۔‘

شکایت کرنے والی پہلی خاتون کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ متعدد خواتین کو یونیفارم کے پیچھے چھپے شیطان صفت انسان کو بے نقاب کرنے کا حوصلہ دینے والی ہیں۔

 میٹروپولیٹن پولیس کے بارے میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ کیرک کے بارے میں انھیں اور تین دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دی گئی تھی۔

اسسٹنٹ کمشنر باربرا گرے نے کہا کہ میٹ پولیس کو ’اس پرتشدد رویے سے منسلک پیٹرن کی بہت پہلے شناخت کر لینی چاہیے تھی۔‘ انھوں نے کہا ایسا کرنے میں نااہلی کے باعث ہو سکتا ہے کہ کیرک کے ’متاثرین کی اذیت میں اضافہ ہوا ہو۔‘

david street
BBC

کیرک کی گھناؤنی حرکتوں سے متاثر ہونے والی اب تک کی سب سے پرانی متاثرہ خاتون نے بتایا ہے کہ ’انھیں سنہ 2003 جھوٹ کی بنیاد پر جیل میں ڈالا گیا، ریپ کیا گیا اور بندوق دکھا کر دھمکایا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب کیرک کا پولیس میں پروبیشنری وقت ختم ہونے کو تھا۔‘

اس کے بعد سے انھوں نے متعدد خواتین کو ریپ، جنسی تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بنایا۔ وہ انھیں اپنی ’طوائفیں‘ کہتے تھے۔

وہ کچھ خواتین کو یہ بتاتے تھے کہ کیا پہننا ہے، کہاں سونا ہے اور کیا کھانا ہے۔ کبھی کبھار وہ ان کے کھانے پر مکمل پابندی عائد کر دیتے تھے۔ ان میں سے کچھ پر تو انھوں نے دوسرے مردوں سے بات کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ کچھ پر وہ پیشاب بھی کیا کرتے تھے۔

ایک خاتون نے بتایا کہ کیرک نے انھیں بیلٹ سے مارا تھا، اور ایک نے بتایا کہ انھیں کیرک عام طور پر سیڑھیوں کے نیچے موجود ایک چھوٹی سی الماری میں قید کر لیتے تھے۔ پولیس افسر مور کا کہنا ہے کہ وہ خاتون وہیں رہتی تھیں اور ’خوفزدہ اور تضحیک کا سامنا کرتی رہتی تھیں اور پھر کیرک جب کہتے تھے اس وقت باہر آتی تھیں۔ میں نے اس الماری سے بڑے تو کتوں کے کریٹ دیکھے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کیرک خواتین سے رشتہ استوار کرتے تاکہ وہ ’ان کو کنٹرول کرنے اور تضحیک کا نشانہ بنا‘ سکیں۔ مور کہتے ہیں کہ ’وہ انھیں تضحیک کا نشانہ بنا کر خوش ہوتے تھے۔‘

کیرک کے ساتھ تین خواتین ایسے ہی ’کنٹرولنگ اور زبردستی‘ کے رشتے میں تھیں اور پولیس کا ماننا ہے کہ شاید ابھی مزید بھی ایسی خواتین موجود ہوں گی۔

ہرٹفورڈشائر کانسٹیبلری نے اپنی ویب سائٹ پر ایک سیکشن اس حوالے سے مختص کیا ہے جس سے لوگوں کو آن لائن رپورٹ کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور انھیں اس دوران پولیس کنٹرول روم میں یا جنرل آپریٹنگ سسٹم  میں بھی نہیں جانا پڑے گا۔

جنسی تشدد کے واقعات

بی بی سی نیوز نے ایک ایسی خاتون سے بھی بات کی ہے جو ڈیٹنگ سائٹ کے ذریعے کیرک سے ملی تھیں۔ انھوں نے اس خاتون پر حملہ نہیں کیا اور وہ اس مقدمے میں شامل خواتین میں سے نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ کبھی ڈیٹ پر نہیں گئے لیکن وہ ایک بار ان کے گھر ضرور گئی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ کس طرح اس نے ان پر ایسے پیغامات کی برسات کر دی جس نے ’واقعی مجھے سراسیمہ کر دیا۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ عجیب تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے کیونکہ وہ ایک پولیس افسر تھا اور میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ آپ پولیس افسر پر یقینا بھروسہ کر سکتے ہیں۔‘

کیرک نے اپنے پیغامات میں انھیں بتایا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ وہ ان سے محبت کرنے لگے ہیں اور ان پرالزام لگایا کہ انھوں نے انھیں محبت میں ’گرفتار‘ کیا ہے۔ وہ ایک ایسے آدمی کے جرائم کو سن کر حیران و پریشان ہو گئیں جسے وہ محض مضحکہ خیز اور عجیب سمجھتی تھیں۔

پولیس انٹرویوز کے دوران کیرک پر سکون نظر آئے اور یہ کہتے رہے کہ جنسی عمل رضامندی سے ہوا یا پھر ہوا ہی نہیں۔

اور مہینوں تک ایسا لگتا رہا کہ ان کے متاثرین کو عدالت کی سماعتوں سے گزرنا پڑے گا کیونکہ کیرک الزامات سے انکار کرتے رہے تھے۔ پھر اچانک دسمبر سنہ 2022 میں انھوں نے زیادہ تر جرائم کا اعتراف کر لیا۔ اس کے باوجود فروری میں باقی الزامات کے لیے ان پر مقدمہ چلنا تھا لیکن اب ماہر ہیرا پھیری کرنے والے نے ان معاملوں میں بھی اپنے جرائم کو قبول کر لیا ہے۔

ان کی سزا نے پولیس کے سامنے بہت سے جواب طلب سنجیدہ سوالات چھوڑے ہیں۔

کیرک نے 26 سال کی عمر میں سنہ 2001 میں فوج میں کچھ دن کام کرنے کے بعد میٹ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ پچھلے سال دو بار ملوث ہونے کے باوجود وہ جانچ سے بچ گئے، تاہم ممکنہ جرائم کے سلسلے میں انھیں نہ تو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ان پر چوری سمیت، ایک سابق ساتھی کو شامل کرنے کے الزامات تھے لیکن انھوں نے اس کے ساتھ اب کسی قسم کے تعلق سے انکار کر دیا تھا۔

سنہ 2002 میں اپنے ایک سابق ساتھی پر حملہ کرنے اور ہراساں کرنے کے الزام کے بعد نئے بھرتی ہونے والے پولیس اہلکار کیرک کے خلاف ان کی اپنی فورس کے ذریعے تفتیش کی گئی۔ ان پر کوئی مجرمانہ الزامات عائد نہیں کیے گئے تھے اور ان کے معاملے کو میٹ کے ڈائریکٹوریٹ آف پروفیشنل سٹینڈرڈ کے حوالے نہیں کیا گیا۔

پی سی کیرک کے کریئر میں ان پر حملہ کرنے، ہراساں کرنے اور گھریلو زیادتیاں کرنے کے کئی الزامات لگے لیکن کسی بھی معاملے میں انھیں مجرمانہ قانونی چارہ جوئی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہ ہرٹفورڈ شائر، ہیمپشائر اور ٹیمز ویلی میں پولیس کے ریڈار (یعنی نگاہ میں) پر تھے۔

ان پر ایک الزام سنہ 2009 میں اس وقت لگایا گیا جب کیرک پارلیمنٹ کے ایوانوں، سرکاری دفاتر اور سفارتی مشنوں کی حفاظت کرنے والی مسلح ٹیموں کے رکن بنے تھے۔

سنہ 2017 میں وہ اپنی پولیس کی دوبارہ جانچ سے بھی بچ گئے۔ لیکن دو سال بعد ان پر ایک عورت کو گلے سے پکڑنے کا الزام لگایا گیا۔ ایک بار پھر ان پر کوئی مجرمانہ الزامات عائد نہیں کیے گئے۔ اور اگرچہ اس بار میٹ کو مطلع کیا گیا لیکن اس نے ان کی بدسلوکی کے خلاف عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

سنہ 2021 کے موسم گرما میں کیرک پر ریپ کا الزام لگایا گیا اور اسے ہرٹفورڈ شائر کانسٹیبلری نے گرفتار کر لیا تاہم میٹ نے انھیں محدود ڈیوٹی پر کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔

اگرچہ میٹ سارہ ایویرارڈ کے قتل کے بعد خواتین کے تحفظ کے لیے اپنے عہد کا عوامی طور پر اعلان کر رہا تھا لیکن اب اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے پیشہ ورانہ معیار کے محکمے نے ریپ کے ملزم ایک دوسرے افسر کے مکمل ریکارڈ کو چیک کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

’اعتماد کو ٹھیس‘

گرے نے کچھ ہی عرصہ پہلے محکمے کی سربراہی سنبھالی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں یقین نہیں آ رہا اور انھوں نے زور دیا کہ کیرک کو معطل کیا جانا چاہیے تھا اور اس کی پوری تحقیقات ہونی چاہیے تھی۔

یہ ریپ کیس آگے نہیں بڑھ سکا کیونکہ خاتون نے اپنی شکایت واپس لے لی۔ کیرک نوکری پر واپس آنے کی تیاریاں ہی کر رہے تھے جب انھیں دوبارہ ریپ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر فردِ جرم عائد ہوئی اور ان کا نام پبلک کیا گیا اور ان کا 17 برس تک جنسی تشدد کرنے کی ہولناک کہانی سامنے آ گئی۔

میٹ پولیس کی جانب سے پولیس پر نظر رکھنے والے ادارے سے کیرک کے بارے میں اس کے فیصلوں کا جائزہ لینے کی درخواست کی ہے۔ گرے کے مطابق یہ ایک ایسا کیس تھا جو ’متاثرہ خواتین کے لیے تکلیف دہ تھا، جنھیں ایک پولیس افسر کے ہاتھوں کرب سے گزرنا پڑا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ اس اعتماد اور حوصلے کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے جو ہم لندن میں موجود خواتین اور لڑکیوں سے حاصل کرنے کے لیے اتنی محنت کرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ دن پولیسنگ کے لیے ایک قدم پیچھے لینے جیسا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.