چین کی آبادی میں گذشتہ ساٹھ سالوں میں پہلی مرتبہ کمی، ’منفی آبادی کا دور‘

گذشتہ 60 سالوں میں پہلی مرتبہ چین کی آبادی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور قومی شرح پیدائش ریکارڈ کم ہو کر ہر 1,000 افراد کی آبادی میں سے صرف 6.77 ہو گئی ہے۔
علامتی تصویر
Getty Images
چین میں ون چائلڈ یعنی ایک بچہ پالیسی سات سال پہلے ختم کر دی گئی تھی

چین کی آبادی پچھلے 60 سالوں میں پہلی بار کم ہوئی ہے اور قومی شرح پیدائش ریکارڈ کم ہو کر ہر 1,000 افراد کی آبادی میں سے صرف 6.77 ہو گئی ہے۔2022 میں ملک کی آبادی - 1.4118 ارب تھی جو2021 سے اب تک 850,000 کم ہوگئی ہے۔کئی سالوں سے چین کی شرح پیدائش کم ہو رہی ہے، جس کی وجہ متعدد پالیسیاں ہیں جو اس رجحان کو کم کرنے میں مددکر رہی ہیں۔ ایک اہلکار کے مطابق ون چائلڈ یعنی ایک بچہ پالیسی کو ختم کرنے کے سات سال بعد، یہ ’منفی آبادی میں اضافے کے دور‘میں داخل ہو گئی ہے۔ منگل کو اعداد و شمار جاری کرنے والے چین کے قومی ادارہ شماریات کے مطابق، 2022 میں بھی چین کی شرح پیدائش 2021 کے مقابلے 7.52 کم تھی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں، امریکہ میں 2021 میں فی 1,000 افراد میں 11.06 اور برطانیہ میں 10.08 شرح پیدائش ریکارڈ کی گئی۔ اسی سال انڈیا میں شرح پیدائش، جو دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر چین کو پیچھے چھوڑنے کے لیے تیار ہے، 16.42 فیصد تھی۔چین میں گزشتہ سال پہلی بار شرح پیدائش سے شرح اموات کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ ملک میں 1976 کے بعد سے سب سے زیادہ شرح اموات ریکارڈ کی گئی - فی 1,000 افراد میں 7.37 فیصد اموات ہوئیں جو پچھلے سال 7.18 فیصد تھی۔قبل ازیں حکومتی اعداد و شمار نے آبادیاتی بحران کی نشاندہی کی تھی، جس سے آگے چل کر چین کی لیبر فورس کو کم ہو گی اور صحت کے نظام اور دیگر سماجی تحفظ کے اداروں کے اخراجات پر بوجھ بڑھے گا۔

علامتی تصویر
Getty Images
چین میں گزشتہ سال پہلی بار شرح پیدائش سے شرح اموات کی تعداد بھی بڑھ گئی

دس سال میں ایک بار ہونے والی مردم شماری کے 2021 کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کئی دہائیوں بعد چین کی آبادی سب سے کم رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ دیگر مشرقی ایشیائی ممالک جیسے جاپان اور جنوبی کوریا میں بھی آبادی سکڑ رہی ہے اور عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے پرنسپل ماہر معاشیات یو سو کہتے ہیں، ’یہ رجحان جاری رہے گا اور شاید کووڈ کے بعد مزید خراب ہو گیا ہے‘۔ سو ان ماہرین میں شامل ہیں جو توقع کرتے ہیں کہ 2023 تک چین کی آبادی مزید سُکڑ جائے گی۔انہوں نے مزید کہا، ’نوجوانوں میں بے روزگاری کی بڑھتی شرح اور آمدنی میں کمی شادی اور بچے کی پیدائش کے منصوبوں میں مزید تاخیر کر سکتی ہیں، جس سے نوزائیدہ بچوں کی تعداد میں کمی واقع ہو سکتی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ 2023 میں اموات کی شرح کووڈ کی وجہ سے اس سے پہلے کی شرح اموات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی۔ چین نے اپنی زیرو کووڈ پالیسی کو ترک کرنے کے بعد سے پچھلے مہینے کووڈ کیسز میں پھر اضافہ دیکھا ہے۔گزشتہ برسوں میں چین کی آبادی کے رجحانات کو بڑی حد تک ایک بچہ کی متنازع پالیسی نے تشکیل دیا ہے، جو کہ 1979 میں آبادی میں اضافے کو سست کرنے کے لیے متعارف کرائی گئی تھی۔ جن خاندانوں نے قواعد کی خلاف ورزی کی ان پر جرمانہ عائد کیا گیا اور بعض صورتوں میں لوگ ملازمتوں سے بھی محروم ہو گئے تھے۔

علامتی تصویر
Getty Images
چینایک ایسی ثقافت ہے جہاں تاریخی طور پر لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے

ایک ایسی ثقافت میں جہاں تاریخی طور پر لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے، وہاں اس پالیسی کی وجہ سے جبری اسقاط حمل میں اضافہ ہوا اور 1980 کی دہائی سے مبینہ طور پر جنسی تناسب بھی بدلا۔

 

اس پالیسی کو 2016 میں ختم کر دیا گیا تھا اور شادی شدہ جوڑوں کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ حالیہ برسوں میں، چینی حکومت نے دیگر مراعات کے ساتھ ساتھ، گرتی ہوئی شرح پیدائش کو ریورس کرنے یا کم از کم سست کرنے کے لیے ٹیکس میں چھوٹ اور حاملہ خواتین کی صحت کی بہتر دیکھ بھال کی پیش کش کی ہے۔

 

لیکن ان پالیسیوں کی وجہ سے شرح پیدائش میں اضافہ نہیں ہوا۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کی حوصلہ افزائی کرنے والی پالیسیوں میں بچوں کی دیکھ بھال کے بوجھ کو کم کرنے کی کوششوں پر توجہ نہیں دی گئی تھی، جیسا کہ کام کرنے والی ماؤں کے لیے زیادہ مدد یا تعلیم تک رسائی وغیرہ۔

 

اکتوبر 2022 میں، چینی صدر شی جن پنگ نے شرح پیدائش کو بڑھانے کو ترجیح دی۔ انھوں نے بیجنگ میں پانچ سال میں ایک بار ہونے والی کمیونسٹ پارٹی کانگریس میں کہا کہ ان کی حکومت ملک کی بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی کے پیشِ نظر ’ایک فعال قومی حکمت عملی پر عمل کرے گی‘۔

 

نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے سینٹر فار فیملی اینڈ پاپولیشن ریسرچ کے ڈائریکٹر بُساراوان ٹیراویچچائنن نے کہا کہ بچے پیدا کرنے کے لیے مراعات دینے کے علاوہ، چین کو خاندانوں اور کام کی جگہوں پر صنفی مساوات کو بھی بہتر بنانا چاہیے۔

 

انھوں نے مزید کہا کہ سکینڈینیوین ممالک نے یہ دکھا دیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے شرح پیدائش بہتر ہو سکتی ہے۔

 

سنگاپور کے سابق چیف شماریات دان پال چیونگ کے مطابق چین کے پاس آبادی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ’بہت زیادہ افرادی قوت‘ اور ’کافی وقت ‘ہے۔

 

انکا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے ابھی کوئی ہنگامی صورتِ حال نہیں ہے‘۔

 

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ محض شرح پیدائش بڑھانے سے چین کی سست رفتار ترقی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

 

ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پبلک پالیسی کے پروفیسر سٹیورٹ گیٹل باسٹن نے کہا کہ ’آبادی کو بڑھانے سے پیداواری صلاحیت میں بہتری یا اس کے گھریلو استعمال میں اضافہ نہیں ہو گا۔

زیادہ اہم یہ ہوگا کہ چین ان سٹرکچرل مسائل کو کیسے حل کریگا۔‘ 


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.