کراچی کی میئر شپ: جماعت اسلامی پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملائے گی یا تحریک انصاف سے؟

پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی، دونوں ہی اس وقت تک میئر شپ سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملائے گی یا پھر تحریک انصاف کے ساتھ۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج سامنے آنے کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں میئر کی سیٹ کے لیے سیاسی جوڑ توڑ اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی، دونوں ہی اس وقت تک میئر شپ سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی ہیں۔

ایسے میں جماعت اسلامی کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملائے گی یا پھر تحریک انصاف کے ساتھ۔

کراچی میں پارٹی پوزیشن

کراچی میں تقریبا ڈھائی سال کے بعد اتوار کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے جن میں الیکشن کمیشن کے مطابق ٹرن آؤٹ 20 فیصد تک رہا۔

پیر کو جاری کیے گئے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی 93 یونین کمیٹیوں سمیت پہلے، جماعت اسلامی 86 یوسیز کے ساتھ دوسرے جبکہ تحریک انصاف 40یوسیز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

مسلم لیگ ن کے پاس سات، جے یو آئی کے پاس 3، تحریک لبیک کے پاس 2، تین آزاد اور ایم کیو ایم حقیقی کو ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔

11 یونین کمیٹیوں پر امیدواروں کے انتقال کی وجہ سے انتخابات ملتوی کر دیے گئے تھے۔

کراچی میٹرو پولیٹن میں 246 عام نشستیں ہیں جبکہ خصوصی نشستوں میں 33 فیصد خواتین، 5 فیصد نوجوانوں، 5 فیصد مزدوروں، ایک فیصد معذوروں اور ایک فیصد نشستیں خواجہ سراؤں کے لیے مختص ہیں۔

میئر ہمارا ہو گا، پی پی اور جماعت اسلامی کا مؤقف

پاکستان
Getty Images

کراچی میں 1979 سے لیکر اب تک جماعت اسلامی کے تین منتخب میئر رہ چکے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے میئر رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے فہمیم الزمان اور مرتضیٰ وہاب ایڈمنسٹریٹر تو رہ چکے ہیں لیکن کبھی منتخب میئر نہیں رہے۔

کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے کئی ماہ قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اعلان کر چکے تھے کہ کراچی کا میئر جیالا یعنی ان کی جماعت سے ہو گا۔

الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت ہے تاہم یہ اکثریت اتنی واضح نہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ ’میئر شپ جماعت اسلامی کو دی جا رہی ہے یہ اطلاعات غلط ہیں، پی پی میئر شپ سے دستبردار نہیں ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی کے ساتھ بات چیت کرنے اور راستہ نکالنے کے لیے تیار ہیں۔‘

’ہم ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہیں اور امید ہے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ معاملات بہتر ہو جائیں گے۔‘

سعید غنی کا دعویٰ تھا کہ حکمران اتحادی پی ڈی ایم میں شامل جے یو آئی ، مسلم لیگ ن سمیت چھوٹی جماعتوں کو وہ ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی ’پہلے سے انڈرسٹینڈنگ ہے، کئی یوسیز میں مشترکہ امیدوار کھڑے کیے تھے، وہ میینج کر لیں گے۔‘

یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے ممکنہ اتحادیوں کی تعداد 16 بنتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کو مخصوص نشستوں میں بھی ایک بڑا حصہ ملنے کی امید ہے۔

’ہم میئر سے دستبردار کیوں ہوں؟‘

دوسری جانب جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ وہ کراچی کی اکثریتی جماعت ہیں۔

جماعت اسلامی اس وقت ریٹرننگ افسران کے دفتر کے باہر دھرنے بھی دیے ہوئے ہے کیونکہ تنظیم کا دعوی ہے کہ 10 یونین کمیٹیوں میں مبینہ طور پر نتائج تبدیل ہوئے۔

جماعت اسلامی کے میئر کے امیدوار حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پریزائیڈنگ افسران کے دستخطوں کے ساتھ کاغذات موجود ہیں، ’جو نشستیں ہم نے جیتی ہیں۔‘

’جب ہمارے نمبر صحیح ہو جائیں گے تو پھر ہر کسی سے بات چیت ہو جائے گی۔ اگر ہم میئر شپ کی بات پر چلے جاتے ہیں تو پھر ہمارا دعویٰ ختم ہو جاتا ہے۔‘

حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ ’ایک اچھا ماحول بنانے اور کراچی کی ترقی کے لیے سندھ حکومت سے بات ہو گی، ان کے ساتھ مل کر کام ہو گا، اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن جو مینڈیٹ ملا ہے وہ فراہم کریں۔‘

’ہماری اکثریت ہے، میئر ہمارا بنے گا کیونکہ اگر ہم شہر کی نمبر ون جماعت ہیں تو پھر میئر سے دستبردار کیوں ہوں گے۔‘

تحریک انصاف کہاں کھڑی ہو گی؟

کراچی میں گزشتہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت تحریک انصاف بلدیاتی انتحابات میں تیسرے نمبر پر آئی ہے۔

اس وقت کے نتائج کے مطابق اس کے پاس یونین کمیٹیوں کی 40 نشستیں ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ پارٹی نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ کس جماعت کی حمایت کرنی ہے تاہم جماعت اسلامی کے میئر شپ کے امیدوار حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے غیر مشروط پیشکش کی ہے۔

’وہ دوست ہیں اور ان کے ساتھ رابطہ ہے۔ مستقبل میں بھی کراچی کی ترقی کے لیے ان کا تعاون چاہیے ہو گا کیونکہ وہ ایک بڑی جماعت ہے۔‘

’پاکستان پیپلز پارٹی یا کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ہم کسی اکثریتی جماعت کے ساتھ حکومت بنائیں تو پیپلز پارٹی ہمیں بلاک کر دے گی تو ہم عوام دشمنی نہیں کرنے دیں گے۔‘

’اگر وہ پہلے ایسے کر رہے تھے تو ان کو اب اصلاح کرنی پڑے گی۔ پہلے ان کے ساتھ اور لوگ ہوتے تھے، اب جماعت اسلامی ہے اس کو کس بنیاد پر عوام کے حق سے محروم کریں گے۔‘

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے کسی بھی امکان کو مسترد کیا ہے۔

صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ ’پہلے وہ خود کو ایک سیاسی جماعت اور اپنا ڈسپلین ثابت کریں، اس کے بعد وہ اپنی قیادت کو سفارش کریں گے، ان سے بھی بات چیت کی جائے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے ایم کیو ایم کا بائیکاٹ: شہر کے میئر کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں؟

اسٹیبلیشمنٹ کی ’خواہش‘ یا متحدہ کی سیاسی ضرورت: دھڑوں میں بٹی ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟

’جماعت کے بغیر مشکلات ہوں گی‘

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اگر جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ نہیں ملاتی تو اس کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ کراچی میں تحریک انصاف کے علاوہ اس وقت ایم کیو ایم بھی صوبائی حکومت کے خلاف سیاست کر رہی ہے۔

تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی کو جماعت اسلامی کو مطمئن کرنا ہو گا۔‘

’نتائج کے حوالے سے ان کا جو بھی دعویٰ ہے، صحیح یا غلط ان کو مطمئن کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر شاید جماعت اسلامی کے لیے پیشرفت مشکل ہو جائے۔‘

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں اتحاد ہو جاتا ہے تو پیپلز پارٹی کے لیے میئر منتخب کروانا مشکل ہو جائے گا۔

’اگر پیپلز پارٹی مینیج کر کے منتخب کروا بھی لیتی ہے تو اس کو تگڑی اپوزیشن ملے گی اور وہ نہیں چاہیں گے کہ ایسی تناؤ والی صورتحال پیدا ہو لہذا انھیں جماعت اسلامی سے بات کرنا ہو گی۔‘

’اگر جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ جاتی ہے تو وہ میئرشپ تو حاصل کر لیں گے لیکن اس طرح سے مؤثر میئر نہیں بن سکے گا۔‘

’ظاہر ہے کہ اس کو اپوزیشن کے میئر کے طور پر دیکھا جائے اور صوبائی حکومت سے بھی مسئلے مسائل ہوں گے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.