پروفیسر اسماعیل مشعل، جو کابل میں ایک نجی یونیورسٹی چلاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین کو جن پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ اب ان کی برداشت سے باہر ہو چکی ہیں۔
مشعلکا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر خاموش نہیں رہیں گے’میں لڑکیوں کے والدین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کا ہاتھ پکڑ کر انھیں سکول لے جائیں، چاہے سکول کے دروازے بند ہی کیوں نہ ہوں۔‘
پروفیسر اسماعیل مشعل، جو کابل میں ایک نجی یونیورسٹی چلاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین کو جن پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ اب ان کی برداشت سے باہر ہو چکی ہیں۔
نفیس لباس میں ملبوس دبلے پیلے مشعل، انحراف اور کھلے جذبات کا مرکب ہیں۔
مجھ سے بات کرتے ہوئے وہ اپنے آنسو روکنے کی کوشش کر رہے تھے جب انھوں نے کہا کہ ’اگر لڑکیوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے تب بھی انھیں ہر روز ایسا کرنا چاہیے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ مرد ہیں اور کم از کم یہ تو کر ہی سکتے ہیں۔‘
’میں جذباتی نہیں ہو رہا بلکہ یہ میری تکلیف ہے، مردوں کو کھڑا ہونا چاہیے اور افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا دفاع کرنا چاہیے۔‘
واضح رہے کہ دسمبر میں افغانستان میں طالبان کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اگلے نوٹس تک یونیورسٹیوں میں طالبات کو واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی-
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ وہ شرعی قوانین کے ساتھ ہم آہنگ اسلامی تعلیمی ماحول پیدا کر سکیں، جس میں نصاب میں تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔
پابندی کے اعلان کے کچھ ہی عرصہ بعد، پروفیسر مشعل اپنے تعلیمی ریکارڈز کو ٹیلی ویژن پر لائیو پھاڑ کر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ آج کے افغانستان میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر خاموش نہیں رہیں گے۔
پروفیسر مشعل کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس واحد طاقت میرا قلم ہے، چاہے وہ مجھے مار ڈالیں، چاہے وہ میرے ٹکڑے ہی کیوں نہ کر دیں، میں اب خاموش نہیں رہوں گا۔‘
پروفیسر مشعل کابل میں ایک نجی یونیورسٹی چلاتے تھے ان کا کہنا تھا کہ ’میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ خطرناک ہے۔ ہر صبح، میں اپنی ماں اور بیوی کو الوداع کہتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ شاید میں واپس نہ آؤں۔ لیکن میں دو کروڑ افغان خواتین اور لڑکیوں اور اپنے دو بچوں کے مستقبل کے لیے اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘
پروفیسر مشعل کی یونیورسٹی میں 450 طالبات زیر تعلیم تھیں اور انھوں نے جرنلزم، انجینئرنگ، اکنامکس اور کمپیوٹر سائنس کے کورسز کئے۔
طالبان کے وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ یہ ڈگریاں خواتین کو نہیں پڑھانی چاہئیں کیونکہ یہ اسلام اور افغان ثقافت کے خلاف ہیں۔
پروفیسر مشعل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ادارے کو صرف مرد طلبہ کے لیے کھلا رکھ سکتے تھے - لیکن اس کے بجائے انھوں نے اسے مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
انھوں نے کہا ’تعلیم یا تو سب کو دی جاتی ہے، یا کسی کو نہیں۔ جس دن میں نے اپنے ادارے کے دروازے بند کیے، مجھے بہت تکلیف ہوئی۔‘
’یہ لوگ ہماری لڑکیوں کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ میرے طلباء مجھے فون کرتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کب واپس جا سکیں گے۔‘
’میرے پاس ان کے لیے کوئی جواب نہیں ہے۔ میرے پاس اپنی 12 سالہ بیٹی کے لیے کوئی جواب نہیں ہے جو اگلے سال ہائی سکول نہیں جا سکے گی۔ وہ مجھ سے پوچھتی رہتی ہے کہ اس نے کیا جرم کیا ہے؟‘
ٹی وی پر آنے کے بعد انھیں دھمکیاں مل چکی ہیں۔ اس کے باوجود پروفیسر مشعل تقریباً روزانہ مقامی میڈیا پر نظر آتے ہیں۔
وہ امید کر رہے ہیں کہ ان کی یہ کوشش ایک ملک گیر مہم کا باعث بنے گی۔ لیکن اس قدامت پسند معاشرے میں، اس بات کا کتنا امکان ہے کہ دوسرے مرد ان کے ساتھ آئیں گے؟
طالبان کی حکومت کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالفت کرتے ہیں لیکن وہ منظر عام پر نہیں آتے اور بات نہیں کرتے۔
یہ بھی پڑھیے
’اُس نے میرے منھ میں بندوق رکھ کر کہا اگر بکواس بند نہ کی تو گولی مار دوں گا‘
افغانستان میں طالبان کی حکومت کا ایک سال: 'میں اپنے سکول کی سب سے لائق طالبہ تھی'
افغانستان میں طالبان حکومت: ’مجھے ناپاک اور بے شرم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ تم امارتِ اسلامی کی توہین کر رہی ہو‘

حکمناموں کے ردعمل میں، ملک بھر میں اپنے حقوق کے لیے افغان خواتین سڑکوں پر نکلنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جہاں احتجاج کی قیادت بنیادی طور پر افغان خواتین کر رہی ہیں، وہیں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مرد طلباء اور پروفیسرز نے بھی اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بولنا شروع کر دیا ہے - یا تو اپنے فائنل امتحانات میں بیٹھنے سے انکار کر کے یا اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر۔
پروفیسر مشعل کا کہنا ہے کہ جب سے طالبان نے ملک پر قبضہ کیا ہے، تب سے خواتین کو محدود کرنے پر ان کی توجہ ان کی سمجھ سے باہر ہے۔
ان کا کہنا ہے ’اب بہت ہو گیا ان غریب عورتوں کو چھوڑ دو، ملک میں بہت بڑے ایسے مسائل ہیں جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں امن و امان نہیں ہے، یہ جنگل میں رہنے جیسا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی یونیورسٹی کی طالبات کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں جو ان فیصلوں سے دل شکستہ ہیں اور وہ ان کی ذہنی صحت کے بارے میں فکر مند ہیں۔
ان کی ایک طالبہ، شبنم، جو معاشیات کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں، کہتی ہیں کہ وہ اس دن کو کبھی نہیں بھولیں گی جب مسلح طالبان فوجی ان کے سکول پہنچے انھیں یہ بتانے کے لیے کہ یہ ان کی کلاس کا آخری دن ہو گا۔ معاشیات ان ڈگریوں میں سے ایک ہے جو طالبان کے مطابق خواتین کے لیے نامناسب ہیں۔
’ہم بہت خوفزدہ تھے اور بوجھل دل کے ساتھ یہ سوچتے ہوئے اپنی کلاس سے باہر نکلے کہ نہ جانے کب واپس جا سکیں گی، یا آئیں گے بھی یا نہیں۔ تب سے میں ٹھیک سے سو نہیں پائی۔ میری تین بہنیں اور کئی کزن ہیں اور وہ سب ایک جیسے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم پنجرے یا جیل میں قید ہیں۔ افغانستان خواتین کے لیے نہیں ہے۔‘
ایک اور طالبہ، شبانہ، جو صحافت کے پہلے سمسٹر میں تھیں، ایک اور ڈگری جسے طالبان نے مسترد کر دیا تھا، کہتی ہیں کہ وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں میں آنے والی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ میں ایک دن نیوز ریڈر، یا ایک اچھی رپورٹر بننے کی امید کر رہی تھی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خواب اب نامکمل رہے گا۔ جب تک میں اس ملک میں رہوں گی، مجھے نہیں لگتا کہ ہم واپس اپنے ملک کی یونیورسٹیوں میں جا پائیں گے۔‘
’ہم نے اپنے لباس پہننے کا طریقہ بدل دیا تھا، کلاس رومز کو لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کر دیا گیا تھا، ہم نے بالکل ویسا ہی کیا جیسا ہمیں بتایا گیا تھا۔ لیکن یہ بھی کافی نہیں تھا۔ ہمیں ڈر تھا کہ وہ ہمارے ساتھ ایسا کریں گے اور انھوں نے ایسا کیا۔‘
’میرے اور میری بہن کے لیے اب سب کچھ ناقابل یقین حد تک تاریک محسوس ہوتا ہے۔ ہم گھر میں پھنس گئے ہیں، رات دن میں بدل جاتی ہے اور یہ سب کچھ تاریک اور مایوس کن محسوس ہوتا ہے۔‘
انھوں نے پروفیسر مشعل کی جانب سے آواز اٹھائے جانے کی تعریف کی۔
’یہ ہمارے ملک کی خواتین اور لڑکیوں کے لیے بہت بے بسی اور مایوسی کا دور ہے۔ایسے مروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے جنھوں نے اس بارے میں بات کی ہو۔ ہمیں ان کی حفاظت کی فکر ہے لیکن ہم ان کی اس حمایت کے لیے بہت شکر گزار بھی ہیں۔‘