میں 1 سال سے پریشان تھا، کام ڈھونڈھ رہا تھا ۔۔ جیٹھا لال نے صرف 50 روپے میں کام کیوں کیا؟ وہ وقت جب اداکار نے اپنی زندگی کی مشکلات بتائی

image

تارک مہتا کا الٹا چشمہ ۔ ایک ایسا ڈرامہ جس کو دیکھ کر روتا ہوا بھی ہنس پڑے اور اپنی پریشانیوں کو بھول کر ہر کوئی جیٹھا لال کی مشکلات پر افسوس کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ جیٹھا لال ایک ایسا کردار جس کو ہر وقت مصیبتوں میں دیکھ کر لاکھوں لوگ ہنستے ہنستے اپنے غم بھول جاتے ہیں۔ اس ڈرامے کو صرف بچے ہی نہیں بلکہ بڑے، بوڑھے ہر عمر کے لوگ خوب پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ایسی سوسائٹی سے تعلق رکھتا ہے جہاں ہر فرد دوسرے کا ساتھ کھڑا رہتا ہے، کبھی بھی کوئی کسی کو اکیلا نہیں چھوڑتا اور سب کے ساتھ مل کر بڑی سے بڑی مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ جیٹھا لال کا اصل زندگی میں نام دلیپ جوشی ہے۔ یہ گُجراتی اداکار ہیں جو بھارت کی کئی بڑی فلموں میں کام کرچکے اور نہ جانے کتنے ہی چھوٹے بڑے سٹیج ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔

دلیپ جوشی نے اپنی زندگی کی مشکلات بتاتے ہوئے ماضی کے انٹرویو میں کہا کہ جب مجھے یہ ڈرامہ ملا اس سے ایک سال قبل تک میں نوکری کی تلاش میں تھا کہ مجھے کوئی کام مل جائے لیکن جو کردار میں کر رہا تھا وہ ڈرامہ بند ہوگیا تھا اور کئی جگہ مجھے کام نہیں دیا جا رہا تھا ، ایسا بھی وقت آیا کہ میں صرف اور صرف 50 روپے میں کردار کر رہا تھا اور اتنی محنت پر صرف 50 روپے لیتا تھا لیکن پھر یہ ڈرامہ مجھے آفر ہوا اور یہاں سے مجھے خُدا نے کامیابی کا راستہ دکھایا۔

جیٹھا لال یا پھر چمپک لال ان دونوں میں سے کوئی ایک کردار کرنے کو کہا گیا تو مجھے لگا کہ میں کوئی بھی ٹھیک سے نہیں کرسکوں گا لیکن ڈائریکٹر نے ہمت دلائی کہ میں جو کروں گا وہ ٹھیک کروں گا اور اس کے بعد میں نے اپنی زندگی میں ہار نہ مانی۔ اسی سیریل سے مجھے دنیا بھر میں جانا جانے لگا۔


About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.