سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں عمران خان کو اٹک جیل میں ملنے والی سہولیات زیر بحث رہیں اور وکلا یہ تبصرہ کرتے رہے کہ وہاں پر ’دیسی گھی میں پکی دیسی مرغ‘، ’دیسی بکرے‘ اور’منرل واٹر‘ مل رہا ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ حانہ کے مقدمے میں دی گئی تین سال قید کی سزا کی معطلی کے بارے میں ان کی درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں تھی تو سب کو اور بالخصوص وکلا کو یقین ہو چلا تھا کہ آج عدالت چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے سزا معطل کر دے گی۔
یہ یقین مزید پختہ ہوگیا جب سماعت شروع ہونے سے قبل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منھ سے یہ نکل گیا کہ آج سزا کی معطلی سے متعلق درخواست پر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
دو رکنی بینچ کے سربراہ کے منھ سے یہ ریمارکس سنتے ہی الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر معزز عدالت نے آج ہی اس درخواست پر فیصلہ سنانے کا ذہن بنا رکھا ہے تو پھر میں دلائل نہیں دیتا اور بہتر ہے کہ عدالت مجرم عمران خان کی سزا کی معطلی کے بارے میں دائر درخواست پر فیصلہ سنا دے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کا مطلب تھا کہ دلائل سننے کے بعد اس درخواست پر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے جب دلائل دینا شروع کیے تو پھر دلائل دیتے ہی چلے گئے اور پی ٹی آئی کے وکلا جو کہ یہ ذہن بنا کر بیٹھے تھے کہ محض ایک ڈیڑھ گھنٹے میں الیکشن کمیشن کے وکیل اپنے دلائل مکمل کر لیں گے جس کے بعد تو انھیں جواب الجواب بھی دینے کی ضرورت نہیں ہوگی اور چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ عمران خان کی سزا کی معطلی کے بارے میں فیصلہ سنا دے گا اور عدالت کا یہ فیصلہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے کسی حد تک ریلیف کا باعث بنے گا۔
عمران خان کی دونوں بہنیں کمرۂ عدالت میں موجود تھیںپی ٹی آئی کے وکلا کی فرسٹریشن میں اس وقت اضافہ ہوا جب عدالت کے استفسار پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کی جانب سے دلائل کے دوران جو چھ نکات اٹھائے گئے تھے، وہ ان کا تفصیلی جواب دیں گے اور اس کے لیے انھیں مزید کچھ دن درکار ہوں گے۔
سردار لطیف کھوسہ جو عمران خان کی اس درخواست کی پیروی کر رہے ہیں، اُٹھ کر روسٹم پر آئے اور کہا کہ الیکشن کمشین کے وکیل جو دلائل دے رہے ہیں وہ فیصلے کے خلاف اپیل کے مرحلے پر آتے ہیں لیکن ان کی درخواست تو سزا کی معطلی کے بارے میں ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل اپنے دلائل میں اس بات پر زور دیتے رہے کہ الیکشن کمیشن سزا کی معطلی کے بارے میں دفاع کو نوٹس جاری کرے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے جب اپنے دلائل تین گھنٹے سے بھی زیادہ دے دیے توعدالت نے امجد پرویز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے تو ابھیسزا کی معطلی کا ہی معاملہ ہے تو آپ اپنے دلائل اس حد تک ہی رکھیں اور اپنے دلائل مکمل کریں۔
عدالتی حکم کے باوجود امجد پرویز نے مزید چالیس منٹ تک دلائل دیے تو عدالت نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ’اپنے دلائل مختصر کریں ورنہ کھوسہ صاحب دوبارہ آجائیں گے۔‘ عدالتی ریمارکس پر کمرۂ عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔
عدالت نے جب عمران خان کی درخواست پر سماعت مکمل کی تو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وکلا کی ایک بڑی تعداد جو اس وقت کمرۂ عدالت میں موجود تھی اپنی سیٹوں سے اُٹھ گئی تو چیف جسٹس نے اونچی آواز میں انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی سیٹوں پر بیٹھے رہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی دونوں بہنیں کمرۂ عدالت میں موجود تھیں اور انھوں نے اپنے بھائی سے اٹک جیل میں ملاقات کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور عدالت نے کہا تھا کہ وہ اس پر مناسب حکم جاری کرے گی۔
سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں عمران خان کو اٹک جیل میں ملنے والی سہولتوں کے بارے میں اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے جو رپورٹ جمع کروائی گئی ہے وہی زیر بحث رہی اور وکلا یہ تبصرہ کرتے رہے کہ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود بھی وہاں پر ’دیسی گھی میں پکی دیسی مرغ‘، ’دیسی بکرے‘ اور’منرل واٹر‘ پی رہے ہیں۔
عمران خان کی وکلا ٹیم میں شامل بیرسٹر گوہر خان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان مفت کا نہیں بلکہ اپنے پیسوں کا کھانا کھاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ گذشتہ ہفتے جب وہ عمران خان کو ملنے اٹک جیل گئے تھے تو انھوں نے جیل کی انتظامیہ کو ’35 ہزار روپے‘ دیے تھے اور یہ رقم انھیں عمران خان کی طرف سے گذشتہ ہفتے کھانے کی مد میں ادا کیے گئے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے عمران خان کی درخواست پر سماعت مکمل کی تو چیف جسٹس نے اُٹھتے ہوئے کہا کہ ’ویٹ فار آرڈر۔‘
یہ سننے کے بعد پی ٹی آئی کے تمام وکلا کمرۂ عدالت میں ہی موجود رہے کہ ابھی اس پر عدالتی حکم آجائے گا اور سزا معطل ہو جائے گی۔ لیکن عدالتی عملے نے وکلا کو بتایا کہ ان کی درخواست پر فیصلہ کل سنایا جائے گا۔