پاکستان اور انڈیا کے درمیان واقع ورکنگ باونڈی کے قریب باگڑیاں مقام نامی ایک گاؤں میں میٹھائی کی ایک ایسی دکان ہے جہاں پر گاہک کو ایک وقت میں ’ایک کلو گرام‘ سے زیادہ میٹھائی نہیں ملتی۔

کھانے پینے کے شوقین افراد ہمیشہ ایسی جگہوں کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں ان کی مرضی کی چیزیں ملیں، چاہے اس کے لیے انھیں کہیں بھی جانا پڑے کیونکہ ’شوق دا کوئی مول نہیں۔‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ کے گاؤں باگڑیاں مقام پر مٹھائی کی ایک ایسی دکان ہے جہاں پر گاہک کو ایک وقت میں ’ایک کلو گرام‘ سے زیادہ مٹھائی نہیں ملتی۔
لیکن اس کے باوجود کھانے پینے کے شوقین لوگ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ انھیں ایک کلو سے زیادہ مٹھائی نہیں ملنی، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور ناہموار راستوں سے ہوتے ہوئے یہاں برفی کھانے ضرور پہنچتے ہیں۔
باگڑیاں مقام گاؤں پاکستان اور انڈیا کے درمیان واقع ورکنگ باونڈی کے قریب زیرو لائن پر واقع ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہ علاقہ انڈین شہر گرداس پور کا حصہ ہوتا تھا اور شکر گڑھ گرداس پور کی تحصیل ہوتی تھی۔
مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات تو پُرامن ہیں لیکن جب دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ہوتی تھی تو باگڑیاں مقام اور اس کے قریبی علاقے میں انڈین فوج کی طرف سے مارٹر شیل پھینکے جاتے تھے۔ مگر کھانے کے شوقین افراد ان حالات میں بھی مٹھائی کھانے اس دکان پر جاتے تھے۔
دکان کے مالک محمد ریاض: ’جب سیز فائر ہوتا ہے تو میری برفی انڈین فوجیوں کو بطور تحفہ دی جاتی ہے‘اگر آپ تحصیل شکر گڑھ سے باگڑیاں گاؤں میں واقع مٹھائی کی اس دکان پر جانا چاہیں تو یہ راستہ بمشکل 20 کلومیٹر طویل ہے لیکن ٹوٹی پھوٹی اور تنگ سڑکوں کی وجہ سے آپ کو منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔
اس مقام سے انڈین ورکنگ باؤنڈی اور انڈیا کی حدود میں واقع گاؤں میں لگے ہوئے ٹاور بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
مٹھائی کی دکان کے مالک محمد ریاض اور ان کے چھوٹے بھائیوں نے یہ کاروبار سنبھالا ہوا ہے۔
محمد ریاض سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی اپنے کام پر لگ جاتے ہیں اور علی الصبح اٹھنے کے بعد بھینسوں کا دودھ خود دھوتے ہیں، جس کے بعد مٹھائی بنانے کا کام عملی طور پر شروع ہو جاتا ہے۔ اس دکان پر صرف برفی ہی تیار ہوتی ہے۔
بھینسوں کا دودھ دھونے کے بعد اس کو برفی کی شکل دینے کا زیادہ تر کام محمد ریاض خود کرتے ہیں۔
برفی کی تیاری کے دوران 40 کلو دودھ میں صرف ایک کلو چینی ڈالی جاتی ہے۔ پہلے اس دودھ کو اتنا پکایا جاتا ہے کہ چالیس کلو دودھ خشک ہو کر سات سے آٹھ کلو رہ جاتا ہے اور اس مرحلے پر اس میں چینی شامل کی جاتی ہے۔
محمد ریاض کا کہنا ہے کہ اس برفی کے لیے وہ صرف بھینس کا دودھ ہی استعمال کرتے ہیں کیونکہ ’گائے کے دودھ میں پیلاہٹ ہوتی ہے جس سے برفی کی رنگت میں فرق آ جاتا ہے۔‘
برفی بنانے کے لیے 40 کلو بھینس کے دودھ میں صرف ایک کلو چینی ڈالی جاتی ہےگاہک کو ایک وقت میں ایک کلو برفی دینے کا جو اصول انھوں نے اپنایا ہوا ہے، اس کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد صرف اپنی مٹھائی فروخت کرنا نہیں بلکہ اُن کی کوشش ہوتی ہے جو بھی گاہک اُن کی دکان پر آئے تو وہ خالی ہاتھ نہ جائے۔
محمد ریاض کا کہنا تھا کہ عام دنوں میں ایک گاہک کو ایک کلو برفی دی جاتی ہے لیکن تہوار بالخصوص عید اور دیگر مواقع پر گاہکوں کو آدھا کلو یا پاؤ سے زیادہ برفی نہیں دی جاتی۔
انھوں نے کہا کہ تہوار کے موقع پر تمام لوگوں کو برفی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو دور کھڑا کیا ہوتا ہے تاکہ کوئی گاہک دوبارہ برفی لینے نہ آجائے۔
دکان پر لگا نوٹ: ’ایک گاہک کو 1 کلو مٹھائی مل سکتی ہے‘ماضی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اور اس کے نتیجے میں ورکنگ باؤنڈری پر شیلنگ کے واقعات کے بارے میں محمد ریاض کا کہنا تھا کہ اس سے ان کا کاروبار شدید متاثر ہوتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے پاس دودھ کو فریز کرنے کے لیے کوئی فریزر نہیں تھا اور اس کشیدگی کے دوران بھینسوں نے تو دودھ دینا تھا جس کی وہ مٹھائی بناتے تھے تاہم جب شیلنگ زیادہ ہو جاتی تھی تو گاہک بہت حد تک کم ہو جاتے تھے جس کی وجہ سے اگر دودھ اور وہ بچ گیا ہے تو وہ خراب ہو جاتا تھا۔
اگر مٹھائی بنی ہوتی تھی تو وہ بھی خراب ہوجاتی تھی کیونکہ محمد ریاض کے بقول مٹھائی کی بھی ایک مدت ہوتی ہے۔
دکان کی 70 فیصد سیل بیرون ممالک کے لیے مختص ہےانھوں نے کہا کہ کرتارپور میں آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے یہاں لوگ ان سے مٹھائی لے کر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیز فائر کے دوران جب تہوار ہوتے ہیں تو پاکستان کی طرف سے اُن کی دکان کی مٹھائی ہی پاکستانی فوجی انڈین فوجیوں کو دیتے ہیں۔
محمد ریاض کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے زیادہ تر لوگ بیرون ممالک میں کام کرتے ہیں اور جب وہ اپنی چھٹیوں کے دوران پاکستان آتے ہیں تو چھٹیاں گزارنے کے بعد وہ بیرون ممالک میں مقیم اپنے انڈین اور عربی دوستوں کے لیے مٹھائی لے کر جاتے ہیں۔
محمد ریاض کا کہنا ہے کہ ان کی دکان کی 70 فیصد سیل بیرون ممالک کے لیے ہوتی ہے۔
عام دنوں میں ایک گاہک کو ایک کلو برفی دی جاتی ہے لیکن تہواروں پر ’آدھا کلو یا پاؤ سے زیادہ برفی نہیں دی جاتی‘