انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں موسمیاتی تبدیلی سے زعفران کی پیداوار میں کمی کے بعد کسان گھروں کے اندر زعفران کی کاشت کرنے لگے ہیں
’ایک سیزن میں پانچ لاکھ روپے کمانے کے لیے آپ کو زعفران کے بیج، ایک خالی کمرہ ، چند ریک اور کچھ پلاسٹک کنٹینر درکار ہیں۔‘
یہ کہنا ہے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں بڈگام کے پکھرپورہ گاوں میں رہنے والے کمپیوٹر انجینیئر راشد خان کا۔ زعفران کی کاشت راشد کا خاندانی پیشہ نہیں ہے اور نہ ہی پکھرپورہ کی زمین اس کے لیے موزوں ہے۔
زعفران دودھ اور قہوے میں استعمال ہوتا ہے اور اسکے علاوہ یہ کاسمیٹک پروڈکٹس اور کئی ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے یہاں زعفران کی پیداوار میں بے حد کمی ہوئی ہے اور اکثر کاشتکاروں کے کھیت بنجر ہو گئے ہیں۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں زعفران کی کھیتی پلوامہ کے پام پور قصبے کے پٹھاروں پر ہوتی ہے۔ دنیا کا سب سے مہنگا مسالحہ کہلانے والے زعفران کو زوال کا شکار دیکھ کر راشد خان نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں اس کی کاشت کا کامیاب تجربہ کیا۔
’میں روز ٹی وی پر سنتا تھا اور اخباروں میں پڑھتا تھا کہ زعفران کی صنعت ختم ہو رہی ہے۔ میں نے اس پر غور کیا اور یہاں کی ایگریکلچر یونیورسٹی کے ماہرین سے رابطہ کیا۔ ہم نے بیج خریدے اور کمرے میں رکھ دیے، آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ زعفران کی فصل تیار ہے۔‘
راشد کہتے ہیں کہ گھروں کے اندر زعفران کی کاشت بہترین اضافی آمدن ہو سکتی ہے اور اسکے لیے وسیع کھیتوں کی ضرورت نہیں۔
’اس میں کوئی محنت بھی نہیں لگتی۔ صرف درجہ حرارت کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور اگر نمی کم ہو جائے تو اسے دیوار پر پانی کا چھڑکاؤ کر کے برابر کیا جا سکتا ہے۔ پیسہ بھی آتا ہے اور اطمینان بھی ہوتا ہے کہ ہماری اہم ترین فصل ختم نہیں ہو جائے گی۔‘
’اب ہم بڑے پیمانے پر گرین ہاوس فارمنگ کریں گے‘
پام پور کے رہنے والے عبدالمجید کا خاندان تین صدیوں سے زعفران کی ہی کاشت کرتا رہا ہے۔ لیکن گذشتہ چند برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی کی وجہ سے زعفران کے کھیتوں میں پہلے جیسی رونق باقی نہیں رہی۔
حکام کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران زعفران کی پیداوار میں 60 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی۔ مجید اب خود بھی ’ان ڈور فارمنگ‘ کے ذریعے گھر کے اندر ہی زعفران اُگاتے ہیں اور دوسرے کسانوں کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’موسم نے تنگ کیا تو ہم نے انڈور فارمنگ کا آزمایا۔ لیکن پہلے پہلے اس تجربے میں کئی بار لاکھوں روپے کے بیج خراب ہو گئے۔‘
’پھر ہم نے زرعی یونیورسٹی کے ماہرین سے رابطہ کیا، انھوں نے ہمیں تربیت دی اور مدد بھی کی۔ اب کوئی بھی کسان اپنے کمرے میں دو کلو تک زعفران کاشت کر سکتا ہے جس کی قیمت چھ لاکھ روپے تک ہو گی۔‘
عبدالمجید کہتے ہیں کہ وہ انڈیا کی بعض کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
’ہماری بات ہو رہی ہے۔ ہم زمین فراہم کریں گے اور وہ بڑے گرین ہاوس تعمیر کریں گے۔ پھر موسم کیسا بھی ہو، فصل متاثر نہیں ہوگی۔ اس میں کچھ دیر لگے گی، لیکن تب تک کسان گھروں میں بھی کاشت کر سکتے ہیں۔‘
موسم خزاں شروع ہوتے ہی پام پور کے کھیتوں میں بہار ہوتی تھی، ہر طرف لہلاتے زعفرانی پھول دلکش منظر پیش کرتے تھے۔ لیکن اب ان کھیتوں میں پہلے جیسی رونق نہیں رہی، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سے بہت کم فصل ہوتی۔
زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر بشیر احمد الٰہی کہتے ہیں کہ ’ہم کھیتوں میں زعفران کی کاشت کو ختم نہیں کر رہے ہیں۔ البتہ ہم نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا ایک راستہ بتایا ہے، اور کسان کامیابی سے ان ڈور فارمنگ کر رہے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ زعفران کا بیج (Corm) کئی سال تک فصل دیتا ہے، لیکن زعفران کا پھول توڑنے کے بعد اسے دوبارہ زمین کے اندر رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ اگلے سال دوبارہ فصل کے قابل ہو جائے۔
’اب ہم ایک اور تجربہ کرنے والے ہیں، جس میں انڈور فارمنگ کے ذریعہ بیج اُگا بھی سکیں اور اسےمحفوظ بھی کر سکیں۔ اگر یہ کامیاب ہو گیا، تو پھر زمین کا رول ختم ہوجائے گا، اور کوئی بھی اپنے گھر کے کمرے میں زعفران کی کاشت کر سکے گا۔‘
پروفیسر بشیر کہتے ہیں انڈیا کی کئی ریاستوں کے زرعی سائنسدان یہاں آکر ان ڈور فارمنگ کے امکانات پر تحقیق کر رہے ہیں۔
’لیکن کشمیر جیسی آب و ہوا ہر جگہ ممکن نہیں ہے۔ ممبئی یا دہلی میں ایسا کرنا ہو تو کمرے کا درجہ حرارت کنٹرول کرنے کے لیے مختلف آلات نصب کرنے ہونگے۔‘