اسرائیل کا وہ محاذِ جنگ جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے

بی بی سی نے لبنان کے ساتھ اسرائیل کی شمالی سرحد پر امن دستوں اور مقامی رہائشیوں سے بات کی ہے جنھوں نے خدشات ظاہر کیے کہ خطے میں حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک مکمل جنگ کو جنم دے سکتی ہے۔
A UN peacekeeper gets into an armoured vehicle
BBC

’اگر آپ الارم کی آواز سُنیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو قریب ترین بنکر کی طرف بھاگنا ہے،‘ کیمپ شامروک پہنچتے ہی کیپٹن اودھن میک گنیز نے ہمیں بتایا۔

کیپٹن اودھن میک گنیز آئرش فوجیوں کے ٹیکٹیکل آپریشنز ڈائریکٹر ہیں جو لبنان، اسرائیل سرحد کے قریب اقوام متحدہ کے امن اڈے کو چلاتے ہیں۔

ہم اُن اسرائیلی ڈرونز کی آوازیں سُن سکتے ہیں جو ہمارے اوپر منڈلا رہے ہیں۔ یہ ہیئر ڈرائر جیسی آواز لگتی ہیں اور اب یہ جنوبی لبنان کے قصبوں اور دیہاتوں میں دن رات مسلسل سنی جا سکتی ہے۔

کیپٹن اودھن کی بریفنگ جاری تھی کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی، جو کہیں قریب ہی ہوا تھا۔

کیپٹن نے کہا ’ٹھیک ہے، آج کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔‘

یہ دھماکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع شروع ہونے کے بعد سے علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی ایک جھلک ہے۔

اقوام متحدہ کا یہ امن مشن لبنان اور اسرائیل کے درمیان غیر سرکاری سرحد ’بلیو لائن‘ کی نگرانی کا ذمہ دار ہے۔

گذشتہ چار دہائیوں کے دوران اس علاقے میں لبنانی شیعہ مسلم عسکریت پسند گروپ حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ حماس کی طرح حمب اللہ کو بھی برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔

باڈی آرمر اور ہیلمٹ پہن کر ہم بھاری ہتھیاروں سے لیس امن دستوں کے ایک گروپ میں شامل ہوئے جو بکتر بند گاڑیوں کے ایک قافلے میں 20 منٹ کی ڈرائیو پر ایک اور اڈے تک گئے، یہ اڈہ ’بلیو لائن‘ سے صرف 500 میٹر دور ہے۔

سرحد پر اسرائیلی فوجی تنصیبات نظر آئیں، چوکی کے کمانڈر لیفٹیننٹ ڈیلن کیڈوگن نے کہا کہ انھیں اکثر حملوں کے دوران بنکرز میں پناہ لینی پڑتی ہے، کبھی کبھی گھنٹوں تک۔

’ہم نے گھروں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے اور ہم نے عام شہریوں کو کراس فائر میں پھنسے ہوئے دیکھا ہے، جنھیں ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

Building with smoke and shell damage
BBC
آئرش فورسز نے حملے کی زد میں آنے والے گھروں کے رہائشیوں کی مدد کی

بیس کے واچ ٹاور سے ایک گلابی گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’ہم سے صرف 200 میٹر کی دوری پر اس عمارت میں ایک ماں اور ایک بچہ تھا۔ ان کے گھر پر گولہ باری کی گئی اور انھیں پناہ لینے کے لیے یہاں بھاگنا پڑا، ہم نے انھیں طبی امداد فراہم کی اور انھیں محفوظ مقام پر لے گئے۔‘

ان فوجیوں نے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں بھی برآمد کی ہیں۔

لیفٹیننٹ کیڈوگن کا کہنا ہے کہ ’یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم ان پر تبصرہ کریں، ہمارا کام ہے کہ ہم صرف مشاہدہ کریں، نگرانی کریں اور اپنے ہیڈکوارٹر کو رپورٹ کریں۔‘

سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد جب سے اسرائیل نے غزہ پر حملہ شروع کیا ہے، حزب اللہ نے باقاعدگی سے جنوبی لبنان سے راکٹ اور ڈرون حملے کیے ہیں، جن میں سے کچھ نے فوجی اہداف کو نشانہ بنایا اور باقیوں نے شمالی اسرائیل میں اندھا دھند فائرنگ کی۔

اسرائیلی فورسز نے شدید فضائی حملوں اور توپ خانے سے جوابی کارروائی کی ہے۔ لڑائی کی وجہ سے لبنان کی جانب سرحدی علاقے سے 60 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

نگران اداروں کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں حماس کے حملے کے بعد پہلے ہفتے میں بلیو لائن پر 70 کے قریب حملے ہوئے اور نومبر کے وسط سے فی ہفتہ 250 حملوں تک بڑھ گئے ہیں۔

امن فوج کو پہلی بار 1978 میں اس سرحد پر اُس وقت تعینات کیا گیا تھا جب اسرائیل نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سرحد پار حملوں کے جواب میں جنوبی لبنان پر حملہ کیا تھا۔

اس کے بعد سے اب تک امن فوج میں شامل 48 آئرش فوجی ہلاک ہو چکے ہیںاور یہی بات فوجیوں کے اہلخانہ کے ذہنوں میں ہے۔

Peacekeeper Captain Tony Smith looks at the camera while sat in an armoured vehicle
BBC
کپتان ٹونی سمتھ اپنے رشتہ داروں کو سب ٹھیک ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں

27سالہ کپتان ٹونی سمتھ جن کی یہ دوسری تعیناتی ہے باقاعدگی سے جنوب مشرقی آئرلینڈ کے شہر ویکسفورڈ میں موجود اپنے رشتہ داروں کو اپنے محفوظ ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔

’یقیناً میری والدہ چاہتی ہیں کہ میں اب گھر چلا جاؤں، جو آخر کار میں جاؤں گا ہی۔ لیکن وہ جانتی ہیں کہ ہم یہاں کیوں ہیں اور اپنے خدشات کے باوجود وہ اس کی حمایت کرتی ہیں۔‘

قریبی قصبے تبین کے قریب پہنچتے ہوئے ہم نے حزب اللہ کے رہنما شیخ حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے پوسٹرز سڑکوں پر لگے ہوئے دیکھے۔

یہ علاقہ بلیو لائن سے 10 کلومیٹر دور ہے اور رواں جھڑپوں میں اسے شدید نقصان پہنچا ہے۔ جنوبی لبنان کے زیادہ تر قصبوں اور دیہاتوں کی طرح حزب اللہ یہاں بھی بہت بااثر ہے اور علاقے میں سکیورٹی کو کنٹرول کرتی ہے۔

Bassima and Ali sat on a sofa
BBC
علی اور بسیما نے اسرائیل لبنان سرحد پر کئی لڑائیاں دیکھیں

یہاں کے مقامی باشندوں میں سے ایک 57 سالہ علی سعد کا کہنا ہے کہ وہ آئرش امن فورس کے فوجیوں کے ساتھ پلے بڑھے ہیں۔

مخصوص آئرش لہجے میں بات کرتے ہوئے، علی کہتے ہیں کہ جب وہ ایک نوجوان لڑکے تھے تو ایک امن اہلکار نے انھیں انگریزی سکھانے میں مدد کی تھی۔

وہ سپاہی ایک ایسے آئرش خاندان کی تین نسلوں میں سے ایک تھا جنھوں نے امن فوج کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ ان کے والد نے بھی کئی دہائیاں قبل خدمات انجام دی تھیں اور ان کا بیٹا اس وقت لبنان میں تعینات ہے۔

یہاں تک کہ علی آئرش فوجیوں کو اس کی جان بچانے میں مدد کرنے کا سہرا بھی دیتے ہیں جب انھوں نے ایک فضائی حملے کے دوران انھیں سکول سے اٹھایا اوراپنے بنکروں میں سے ایک میں لے گئے۔

اس کے بعد کے برسوں سے انھوں نے امن فوج کے لیے مترجم کے طور پر کام کیا ہے اور آئرش فوجیوں کے ایک گروپ نے ان کی اہلیہ بسیما سے ان کی شادی میں بھی شرکت کی۔

Irish troops from Unifil attended Ali and Bassima's wedding posing for a photo
Saad family
آئرش فوجیوں کے ایک گروپ نے علی اور بسیما کی شادی میں بھی شرکت کی

اگرچہ علی فوجیوں کی موجودگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن انھیں افسوس ہے کہ وہ جس تنازع کی نگرانی کرنے کے لیے وہاں موجود ہیں، وہ اتنے لمبے عرصے سے جاری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سچ کہوں تو ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ مشن 44 سال تک جاری رہے گا۔‘

بسیما کے لیے موجودہ لڑائی نے ماضی کے تنازعات کی دردناک یادیں تازہ کر دی ہیں، جیسا کہ 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ۔

وہ کہتی ہیں’میں اپنے چھوٹے بیٹے کو ایک خالی واشنگ مشین کے اندر ڈال رہی تھی کیوں کہ مجھے امید تھی کہ وہ اس میں محفوظ رہے گا۔‘

’اب ہمیں ان دھماکوں آوازیں آتی ہیں اور میں انھیں برداشت نہیں کر سکتی۔‘

ان کا خیال ہے کہ تنازعات سے گھرے ماحول نے ان کے بیٹے کو متاثر کیا ہے، جو اب 23 سال کا ہے۔ جب امن فوج کے ہیلی کاپٹر اوپر پرواز کرتے ہیں تو وہ اب بھی گھبرا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں’سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہو سکتا۔ ‘

’ہم ایک جنگ سے دوسرے تنازعے میں اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں، میں دوسری جنگ سے نہیں گزر سکتی۔‘

Lieutenant Colonel Cathal Keohane stood in front of a barbed wire fence
BBC
کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل کیتھل کیوہنے کو تشویش ہے کہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے

امن فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل کیتھل کیوہنے کو اس بات پر تشویش ہے کہ علاقے میں تشدد کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے لبنان کے اندر وسیع پیمانے پر مزید حملے دیکھے ہیں، ہم نے وسیع پیمانے پر ہتھیاروں کا استعمال ہوتے دیکھا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ چاہے یہ جان بوجھ کر کسی ایک طرف سے پیدا ہوا ہو یا کچھ نادانستہ حالات جنگ کے پھیلنے کا سبب بنیں، یہ ہمارے لیے ایک سنجیدہ تشویش ہے۔

انھیں امید ہے کہ غزہ میں جنگ بندی سے بلیو لائن کے آس پاس کشیدگی میں کمی آئے گی، لیکن ان کا کہنا ہے کہ بے گھر افراد کو اپنے گھروں کو لوٹنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، بھلے ہی سرحد پار سے فائرنگ ختم ہو جائے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.