’جیوے جیوے پاکستان‘ کے نعرے اور ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کی جیت کا جشن: 7 کشمیری طالبعلم انسداد دہشتگردی قانون کے تحت گرفتار

کالج انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بچوں کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہتی ہے لیکن بدقسمتی سے شکایت وارڈن کے پاس نہیں بلکہ براہ راست پولیس کے پاس کی گئی۔‘
انڈیا، ورلڈ کپ
Getty Images

انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل مقابلے میں آسٹریلیا کی کامیابی پر جشن منانے اور غیر کشمیری طالب علموں کو ہراساں کرنے کے الزام میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے گاندربل ضلع میں ویٹرنری کالج کے ہوسٹل میں سات طالب علموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

گرفتار طالب علموں پر انسداد دہشت گردی کے نئے قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ ان پر انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 505 کے تحت بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔

یہ دفعہ فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے اور مخالف فرقوں کو ہراساں کرنے سے متعلق ہے۔

گاندربل ضلع کی پولیس نے یہ کارروائی کالج میں زیر تعلیم انڈین پنجاب سے تعلق رکھنے والے طالب علم کی شکایت پر کی ہے۔ طالب علم کی شکایت پر گاندربل پولیس نے جو ایف آر درج کی اُس کے مطابق وہ فائنل میچ دیکھ رہے تھے اور انڈیا کی حمایت کر رہے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق ’میچ ختم ہوتے ہی طالب علموں نے مجھے بُرا بھلا کہنا شروع کیا، مجھے خاموش رہنے کو کہا اور اور بات یہاں رُکی نہیں بلکہ اُنھوں نے مجھے گولی مارنے کی دھمکی تک دی۔ جہاں یہ سب مجھے ڈراتے دھمکاتے رہے وہیں انھوں نے ’جیوے جیوے پاکستان‘ کے نعرے بھی لگائے جس سے غیر کشمیری طالب علم بہت ڈر گئے۔‘

طالب علم نے اپنی شکایت میں لکھا کہ ’وہ ڈر کے مارے کئی گھنٹوں تک اپنے کمرے میں بند رہے اور باہر نہیں نکلے لیکن چند گھنٹوں کے بعد میں ہمت کر کے پولیس کے ساتھ رابطہ کیا۔‘

یہ ویٹرنری کالج دراصل کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (سکواسٹ) کے ساتھ منسلک ہے۔

کالج حکام نے گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے تاہم یونیورسٹی حکام کا کہنا ہے کہ ’اس بارے میں کچھ غلط فہمیاں ہیں جنھیں دُور کیا جارہا ہے۔‘ ان کے مطابق سکواسٹ کے وائس چانسلر پولیس کے ساتھ رابطے میں ہیں اور بچوں کے تعلیمی مستقبل کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘

کالج انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بچوں کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہتی ہے لیکن بدقسمتی سے شکایت وارڈن کے پاس نہیں بلکہ براہ راست پولیس کے پاس کی گئی۔‘

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے اس کالج میں کُل 300 طلبا تعلیم حاصل کر دہے ہیں جن میں سے تقریباً 40 کا تعلق راجھستان، پنجاب اور دیگر انڈین ریاستوں سے ہے۔

سابق وزیراعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے ان گرفتاریوں کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’مقابلے میں جیتنے والی ٹیم پر تالی بجانا بھی اب جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ صحافیوں، رضاکاروں اور اب طالب علموں پر یو اے پی اے کا مقدمہ دائر کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جموں کشمیر کے نوجوانوں کے تئیں ایسٹیبلشمنٹ کا رویہ کس قدر ظالمانہ ہے۔‘

انھوں نے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملہ میں مداخلت کریں۔

واضح رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں بھی ایسے ہی ایک واقعے میں دو کشمیری طالب علموں کو ہوسٹل سے بے دخل کیا گیا ہے۔

ان پر الزام ہے کہ انھوں نے کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے فائنل کے اختتام پر آسٹریلیاکی جیت پر آتشبازی کی تھی۔

آسٹریلیا
Getty Images

انسداد دہشت گردی کا نیا قانون ’یو اے پی اے‘ کیا ہے؟

اَن لافُل ایکٹِوٹیز (پری وینشن) ایکٹ دراصل 1967 میں منظور کیا گیا تھا تاہم 2019 میں اس قانون میں ترمیم کرکے اس سے مزید سخت بنا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو وسیع اختیارات دئے گئے تاکہ ’ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے خلاف‘ کارروائیوں اور رویوں پر قدغن عائد جاسکے۔

ترمیم شدہ قانون کے تحت گرفتار افراد کے لیے طویل مدت تک عدالت میں پیشی یا عدالت سے ضمانت نہایت مشکل ہوتی ہے۔

پولیس نے گاندربل میں طلبا کے خلاف ہونے والی ایف آئی آر سے متعلق جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ کارروائی محض نعرے بازی پر نہیں۔‘

’نعرے بازی جس پس منظر میں ہوئی ہے وہ ہند مخالف جذبات کو نارمل کرنے کی کوشش ہے جو دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کی ایما پر ہوتی ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ معاملہ تنقید یا اظہار رائے کی آزادی کا نہیں بلکہ ایسے لوگوں کو دہشت میں مبتلا کرنے کا ہے جو انڈیا کے حق میں یا پاکستان کے خلاف جذبات رکھتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.