کراچی۔ 26 دسمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر مذہبی امورانیق احمد نے کہا ہے کہ بھارت کے شہر منی پور میں 150مسیحی بھائیوں کو ذبح کیا گیا اور یہ قتل انڈین حکومت نے کرائے جبکہ جڑانوالہ واقعہ میں ایک بھی قتل نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود پاکستان کے خوبصورت چہرے کو انڈین میڈیا نے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ جڑانوالہ میں ہمارے علما نے مسیحی برادری کے لئے مساجد کے دروازے کھول دیئے تھے جو لائق تحسین ہے۔ہم دنیا بھر میں جہاں بھی جائیں ہم سب کو دنیا کے سامنے پاکستان کے مثبت امیج کو پیش کرناچاہیئے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے زیر اہتمام اور وزارت مذہبی اموروبین المذاہب ہم آہنگی کے اشتراک سے چائنیزٹیچرز میموریل آڈیٹوریم میں منعقدہ قومی کانفرنس بعنوان”پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی سے” خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ عوام اپنے طور پر فیصلے نہ کریں اور نہ ہی خود اپنی عدالت لگائیں۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں مذہبی ہم آہنگی ڈائیلاگ کے حوالے سے یہ پہلا پروگرام ہے جس کا آغاز جامعہ کراچی سے کردیاگیاہے ،اب یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم معاشرے میں اپنا کیا حصہ ڈال رہے ہیں اور کیا ہم معاشرے کی خوبصورتی میں اضافہ کررہے ہیں؟ چیئر مین شعبہ بین الاقوامی تعلقات پروفیسرڈاکٹر نعیم احمد نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کانفرنس کے اغراض ومقاصد اور اس کی ضرورت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔مہتمم دارالعلوم نعیمیہ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ہمارے آئین اور قانون سے اقلیتوں کا لفظ نکال دینا چاہیئے اور ہرفرد کو اس کے مذہب کے ساتھ پاکستانی قراردیاجائے اس سے اس میں ملکیت اور اپنائیت کا احساس پیداہوگا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کے 435 کے ایوان نمائندگان میں مسلمانوں کے لئے ایک بھی مخصوص نشست نہیں ہے،اسی طرح برطانیہ میں چارملین مسلم مقیم ہیں اور 650 کے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے لئے ایک بھی مخصوص نشست نہیں ہے۔انڈیا میں 20 کروڑ مسلمانوں کے لئے پارلیمنٹ کی ایک بھی مخصوص نشست نہیں ہے جبکہ پاکستان میں غیرمسلموں کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کامثبت امیج پیش نہیں کیاجاتا۔پاکستان کی عزت،ناموس وافتخار کو ہر سطح پر بلند کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے اس ملک میں رہنے والے ہر فرد کو اپنا اپنا کردار اداکرنے کی ضرورت ہے۔جامعہ کراچی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی نے کہا کہ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی اور انسانیت کے رشتے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ایسے دستور کا کوئی فائدہ نہیں جس پر عمل نہ ہو،اقلیتوں کے حوالے سے اکثر قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کی تقریرکا حوالہ دیاجاتاہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے تو قائد کو ہی بھلادیاہے۔ دنیا کے مختلف معاشروں کے لوگ مختلف رنگ،نسل،زبان،عقائد اور مختلف خیالات کے حامل ہوتے ہیں اور یہ ہی تنوع دنیا کی خوبصورتی کا راز ہے۔وقت کا ہمیشہ سے تقاضا رہاہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام لوگ ایک دوسرے کے عقائد،خیالات،رہن سہن اورطرز فکر کو مثبت انداز میں دیکھیں اور امن وسلامتی کے اصولوں پر عمل پیرا رہتے ہوئے اس دنیا کو گہوارہ امن بنائے۔کارڈینینل جوزف کوٹس نے کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے،ہمیں ایک دوسرے کی رائے سننے اوراحترام کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے مکالمے کے کلچر کو فروغ دینا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ بین المذاہبی ہم آہنگی کے حوالے سے کانفرنسز،سیمینار زکا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ تنگ نظری ہی تشددکا راستہ کھولتی ہے،وسیع النظری اور وسیع القلبی کے ذریعے ہی ہم بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔بشپ فریڈرک جون نے کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے۔ہمیں اکثریت اوراقلیت کی اصطلاحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور ایک دوسرے کے خیالات اور جذبات کی قدرکرنی چاہیئے۔ہمیں ان لوگوں سے بات کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے مسائل پیداہورہے ہیں۔ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ کلپنادیوی نے کہا کہ ہمیں مذہب کو اپنے مفادات کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیئے،جس جگہ بھی مندر،امام بارگا،مسجد اور گرجاگھر کو جلایاجاتاہے وہاں کے لوگوں کے دلوں اور سوچوں کو بھی جلایاجاتاہے۔ہمیں تقسیم ہونے کے بجائے آپس میں مل جل کرپاکستان کی ترقی کے لئے کام کرناچاہیئے۔سرپرست اعلی پاکستان سکھ کونسل سرداررمیش سنگھ نے کہا کہ تمام مذاہب انسانیت،محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں،کرتاپورراہداری پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں تمام مذاہب کے لئے ایک مثال ہے۔ ممبرآف کونسل اسلامک آڈیولوجی آف پاکستان ڈاکٹر محسن نقوی نے کہاکہ اگرہم کسی بھی سطح پر بھی تقسیم ہیں توہم معاشرے میں مثبت کردارادانہیں کرسکتے،ہم اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے نے ہمیں کیا دیا اور اس کو کیالوٹارہے ہیں۔کانفرنس سے پروفیسرڈاکٹر خالد ہ غوث نے بھی خطاب کیا۔