انڈیا کی جانب سے اس بیان کی اہمیت اس تناظر میں بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ امریکی صدر اور پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات سے چند گھنٹے قبل جاری کیا گیا۔

انڈیا کے سیکریٹری خارجہ کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ دلی پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کبھی قبول نہیں کرے گا۔
سیکرٹری خارجہ امور وکرم مسری کے مطابق نریندر مودی نے انڈیا کا یہ موقف منگل کے دن دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے دوران ٹرمپ کے سامنے پیش کیا۔
انڈیا کی جانب سے اس بیان کی اہمیت اس تناظر میں بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ امریکی صدر اور پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات سے چند گھنٹے قبل جاری کیا گیا۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک کے بیچ چار روزہ تنازع کے بعد سے متعدد بار انڈیا اور پاکستان کے بیچ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ اب تک وائٹ ہاؤس کی جانب سے وکرم مسری کے اس بیان پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا ہے۔
وکرم مسری نے یہ بھی کہا کہ ’وزیر اعظم مودی نے واضح طور پر ٹرمپ کو بتایا کہ تنازع کے دوران کسی بھی سطح پر امریکہ اور انڈیا کے تجارتی معاہدے پر یا پھر انڈیا اور پاکستان کے بیچ امریکی ثالثی کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔‘
یہ بیان اس تناظر میں اہمیت رکھتا ہے کہ ٹرمپ متعدد بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع ختم کرنے میں امریکہ نے کردار ادا کیا اور انھوں نے جنگ بندی کے لیے تجارت کو استعمال کیا۔ پاکستان نے امریکی دعوے کی حمایت کی ہے تاہم انڈیا نے اس کی تردید کی ہے۔
وکرم مسری نے کہا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان عسکری کارروائی روکنے کے لیے بات چیت براہ راست انڈیا اور پاکستان کی افواج کے درمیان پہلے سے موجود رابطوں کے نظام کے تحت ہوئی۔‘
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ہی ٹرمپ نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ’میں نے کہا ہم تمھارے ساتھ تجارت کریں گے، اسے بند کر دیں۔ اگر آپ روک دیں گے تو ہم تجارت کریں گے لیکن اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو کوئی تجارت نہیں ہو گی۔‘

واضح رہے کہ انڈیا ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس سے پہلے کہ نو جولائی کو محصولات یا ٹیرف پر لگایا جانے والا وقفہ ختم ہو جائے۔
کشمیر کا خطہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تقسیم ہے اور دونوں دہائیوں تک باہمی بات چیت کے باوجود کوئی حل نہیں نکل پایا۔ انڈیا کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور کسی قسم کے مذاکرات، خصوصا کسی تیسرے فریق کے ذریعے، کو رد کرتا ہے۔
حال ہی میں اس وقت دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی تھی جب انڈیا نے 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا تھا۔ پاکستان نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
تاہم مئی میں انڈیا نے پاکستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں حملے کیے اور دعویٰ کیا کہ اس کا ہدف شدت پسندی کے مراکز تھے۔ اس کارروائی کے بعد چار روز تک دونوں جانب سے عسکری کارروائیاں ہوتی رہیں لیکن 10 مئی کو ٹرمپ نے اعلان کیا کہ دونوں ملک امریکی کوششوں کے بعد جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
اس وقت ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ ’میں دونوں کے ساتھ مل کر کوشش کروں گا کہ کشمیر کا کوئی حل نکل سکے۔‘ اسی دن امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ ’دونوں ممالک مختلف متنازع امور پر کسی نیوٹرل مقام پر بات چیت کا آغاز کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔‘
11 مئی کو ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کے سربراہان کی تعریف کی اور کہا کہ انھیں اس بات پر فخر ہے کہ امریکہ نے ان کویہ تاریخی فیصلہ لینے میں مدد دی۔
ٹرمپ کے دعوے کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہوا جس میں تین درجن سے زیادہ ممالک نے کردار ادا کیا۔ دوسری جانب انڈیا نے امریکی مداخلت کی مسلسل تردید کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے عوامی بیانات، جن میں کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی گئی، نے انڈیا کو مشکل سے دوچار کیا کیوں کہ دلی نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اس کے مغربی شراکت دار ممالک پاکستان اور انڈیا سے ایک جیسا سلوک نہ کریں۔ انڈیا نے مغربی سربراہان مملکت کی جانب سے انڈیا اور پاکستان کا اکھٹا دورہ کرنے کی بھی حوصلہ شکنی کی ہے۔
تاہم ٹرمپ کے دعوے نے ان کوششوں کی نفی کرتے ہوئے دونوں ممالک کو برابر دکھایا اور اسی وجہ سے انڈیا کے سفارتی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔
تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس کے امریکہ اور انڈیا کے درمیان تجارتی مذاکرات پر کی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔