کاش ہم واقعات کو بدل دینے کی قوت رکھتے، عامر خاکوانی کا کالم

image

چند منٹوں کے لیے تصور کریں کہ آپ آج کی جدید دنیا کے فرد ہیں، جدید سہولتوں کے عادی، بجلی، ٹی وی، فریج، انٹرنیٹ، جدید زمینی اور فضائی ٹرانسپورٹ لگژری کا لطف اٹھانے والے۔

اچانک کوئی حادثہ آپ کو 200 سال پہلے ایسی جگہ پہنچا دے جہاں بجلی ہے نہ کوئی اور سہولت۔ ہتھیار جہاں قانون ہے۔ آپ ایک شائستہ دلیل کے ساتھ بات کرنے والے شخص ہیں اور ان لوگوں میں جاکر زندگی گزارنا پڑے جہاں دلیل سے زیادہ قبیلے، عصبیتیں اور ننگی طاقت اہمیت رکھتی ہے۔

اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ جدید دنیا میں تاریخ پڑھنا پسند کرتے تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ 200 سال پہلے کی تاریخ میں کیا کچھ ہوا؟ فلاں جنگ میں کون جیتا، فلاں ہارا؟ کس کو شکست ہوئی اور کون تاریخ کی درست سمت میں کھڑا تھا؟

اپنے اس علم کے ساتھ آپ اسی دور میں پہنچ گئے ہیں۔ کسی کو یہ بتا بھی نہیں سکتے کہ مستقبل سے واپسی ہوئی ہے کہ کوئی نہیں مانے گا۔ آپ ان تمام واقعات کو جانتے بوجھتے ہوئے اپنے دائیں بائیں کے لوگوں کو کس طرح قائل کر پائیں گے کہ فلاں کام نہ کرو، شکست ہوجانی ہے۔ فلاں چیز نے تو کچھ عرصے کے بعد سرے سے مٹ جانا ہے وغیرہ وغیرہ۔

پچھلے دنوں نیٹ فلیکس پر مشہور سیریز آؤٹ لینڈر دیکھنے کا موقع ملا۔ تاریخی فکشن ڈرامہ ہے۔ ابتدا دوسری جنگ عظیم کے فوری بعد کے دنوں سے ہوتی ہے۔

کہانی کے مطابق جنگ کے دوران برطانوی فوج میں کام کرنے والی ایک نرس اپنے خاوند کے ساتھ ہنی مون منانے سکاٹ لینڈ کے شمال مغربی بلند پہاڑی علاقے آﺅٹ لینڈر کی سیر و سیاحت پر جاتی ہے۔

وہاں ایک عجیب و غریب حادثہ اسی مقام پر 200 سال پہلے کے ماحول میں پہنچا دیتا ہے۔ وہ یکا یک 1946سے 1743کے عہد میں پہنچ جاتی ہے جب سکاٹ باغی شاہ برطانیہ کے خلاف ایک بڑی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔

یہ ٹائم ٹریول اس کہانی کو دلچسپ بنا دیتا ہے۔ کلئیر بیچم وہاں کسی نہ کسی طرح سروائیو کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے لیے جدید دنیا میں واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔ اسے وہاں پر رہنا اور کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو بچائے رکھنا ہوتا ہے۔ ایک نوجوان جنگجو سے شادی بھی کر لیتی ہے۔ یہ سکاٹ جنگجو جیکب وار کی تیاری کر رہے ہیں۔

تاریخی کتابوں میں ایک سوال اکثر سامنے آتا ہے کہ لیاقت علی خان کا قتل نہ ہوتا تو شاید ایوب خان کو بھی توسیع نہ ملتی۔ فوٹو: اے ایف پی

کلیئر کو برطانوی تاریخ سے دلچسپی ہونے کے باعث معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ سکاٹ جنگجو بری طرح ہار گئے تھے۔ ان کے ہزاروں لوگ مارے گئے اور پھر سکاٹ لینڈ پر برطانوی شاہی حکومت کی گرفت مضبوط ہوگئی تھی۔ کلیئر اپنے خاوند اور دیگر کو مختلف طریقوں سے یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ آپ لوگ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہو، جس کا انجام موت ہی ہے۔

بدقسمتی سے وہ صاف کھل کر نہیں کہہ سکتی کہ میں دو سو سال آگے کے مستقبل سے آئی ہوں اور جو بتا رہی ہوں وہ امر واقعہ ہے۔ اس کی کوئی بات نہیں سنتا اور اسے صرف ایک عورت کی رائے سمجھ کر نظرانداز کر دیتا ہے۔

آؤٹ لینڈر کے کئی پہلوؤں پر بات ہو سکتی ہے، مگر مجھے ایک بات نے ہانٹ کیا۔ وہ یہ کہ کلیئر بیچم تو جانتی تھی کہ سکاٹ جنگجو اپنی آزادی کی جنگ نہیں جیت سکیں گے، مگر یہ بات وہ انہیں کسی طرح سمجھا بھی دیتی تو کیا وہ حریت پسند جنگجو اپنی جدوجہد ختم کر دیتے؟

ایک بڑے کاز کی خاطر اپنی جانوں کی بازی لگانے والے کسی ایک فرد کی پیش گوئی سے متاثر ہو کر اپنی کاوش ترک کرسکتے تھے؟ بے شک وہ درست بات ہی نہ ہو۔ میں نے اس پر لمحے بھر کے لیے سوچا اور جواب نفی میں ملا۔

شاید یہی زندگی ہے اور یہی اس کا المیہ۔ ہم بہت کچھ بدل سکتے ہیں مگر خاصا کچھ نہیں بدل سکتے۔ کاش ہمارے پاس یہ قوت ہوتی۔ کاش ہم کسی طرح ماضی کی غلطیوں اور واقعات کو بھی بدل سکتے۔ ایسا مگر نہیں ہو سکتا۔

میں ویسے ہی سوچنے لگا کہ چلو پرانی تاریخ کو چھوڑ دیں، پچھلے سو سال کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے جس طرح کی سیاسی تقسیم تھی، اس میں آج کے زمانے کا کوئی پاکستانی اس زمانے میں جا کر لوگوں کو سمجھائے کہ پاکستان کی مخالفت نہ کرو، اس نے بن جانا ہے۔ خواہ مخواہ کی نفرتیں نہ پالو، لاکھوں لوگ دونوں طرف تقسیم میں قتل ہوجائیں گے۔ پھر یہی خیال آتا ہے کہ کون اس بات کو مانتا؟

ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر بےنظیر بھٹو جلسے سے جلدی نکل جاتیں تو شاید سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔ فوٹو: اے ایف پی

میں سوچ رہا تھا کہ اگر 16 اکتوبر 1951کو پنڈی میں قائد ملت لیاقت علی خان کے جلسے سے پہلے اندازہ ہوجاتا کہ انہیں اس میں گولی مار دی جائے گی تو انہیں اس جلسے میں جانے ہی نہ دیا جاتا۔ اگر ایسا ہوجاتا تو کیا پاکستانی تاریخ مختلف نہ ہوتی؟

پاکستانی تاریخ کے بعض انتہائی قابلِ تنقید کردار جیسے غلام محمد، سکندر مرزا وغیرہ کبھی ٹاپ پر نہ آ سکتے۔ ایوب خان کو بھی کبھی توسیع نہ ملتی اور شاید پاکستان میں مارشل لا بھی نہ لگ سکتا۔

یہی بات محترمہ بے نظیر بھٹو کے پنڈی جلسے کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ 27 دسمبر2007 کی اس لہو رنگ شام اگر بی بی جلسہ مختصر کر کے جلدی نکل جاتیں یا پھر گاڑی سے جب نکلنے ہی لگی تھیں تو لوگوں کو دیکھ کر وہ کھڑی نہ ہو جاتیں۔

کاش ایسا ہوتا تو شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔ بی بی تب وزیراعظم بننے جا رہی تھیں اور اپنی وزارت عظمیٰ میں شاید وہ خاصا کچھ تبدیل کر دیتیں۔

کہنے والے تو 17 اگست 1988 کا بھی ذکر کر سکتے ہیں جب بہاولپور سے چار کلومیٹر دور بستی لال کمال پر جنرل ضیا الحق کا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

خیالات کی اسی رو میں بہتے ہوئے میں نے ایسے ہی سوچا کہ اگر زیادہ نہ سہی، آج کا کوئی شخص پچیس چھبیس سال پیچھے جا کر میاں نواز شریف کو سمجھا سکتا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش نہ کریں۔ آپ کو نہ صرف اٹک قلعے میں قیدی ہونا پڑے گا بلکہ کئی برس کی جلا وطنی مقدر ہوگی۔ کیا نواز شریف تب مان لیتے؟ ویسے انہیں کسی نہ کسی نے یہ مشورہ دیا تو ہوگا۔

اگر سیاست ہی کی بات کریں تو عمران خان کو بھی کاش کوئی پانچ چھ سال پہلے سمجھا سکتا کہ آپ جن افراد کو پنجاب اور پختونخوا کی وزارت اعلیٰ دے رہے ہیں، یہ صرف آپ پر ایک بوجھ ہی ثابت ہوں گے۔

12 اکتوبر 1999 کو سابق آرمی چیف جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

کاش کوئی انہیں اپنی پارٹی میں چھپے ان لوگو ں کا بتا سکتا جنہوں نے تصادم کرایا۔ کوئی انہیں بتاتا کہ کچھ طاقتوں پر بھروسے کے بجائے اپنی سیاسی بیس بنائیں، اپنی پارٹی کی تنظیم سازی کریں۔

ایسے بہت سے کاش ہم سوچ اور لکھ سکتے ہیں۔ یہ ifs آف ہسٹری کہلاتے ہیں۔ تاریخ کے اگر مگر۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پھر یہ ہوتا مگر۔۔۔ یہ مگر ہی معاملات بگاڑتا ہے۔ بہت کچھ ہوسکتا ہے مگر ہم ماضی کے واقعات کو بدلنے کی قوت نہیں رکھتے۔ البتہ فکشن میں یہ تجربہ کر سکتے ہیں اور ایسے کئی تجربے شاندار اور منفرد رہے۔ ایسے ہی ایک اور منفرد اور اچھوتے تخلیقی تجربے پر ممکن ہوا تو پھر کبھی بات کریں گے۔ 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.