’ابھی تو مسئلہ شروع ہوا ہے، آگے دیکھو کیا ہوتا ہے‘: پاکستان میں صارفین کو سست انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کیوں ہے؟

گذشتہ چند روز سے ٹیلی کام کمپنیوں کے انٹرنیٹ پر بھی سوشل میڈیا ایپس نہیں چل رہیں جس کے باعث لاکھوں صارفین کو فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا تک رسائی میں دشواری کا سامنا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم نے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے۔

انٹرنیٹ کی سپیڈ بالکل ہی بیٹھ گئی ہے۔ واٹس ایپ نہیں کھل رہا۔ وائس نوٹ یا تصویر نہیں بھیجی جا رہی یا اگر چلی گئی تو جسے بھیجی ہے وہاں ڈاؤن لوڈ نہیں ہو رہی وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو کچھ دنوں سے آپ بھی اپنے دوستوں و عزیز و اقارب سے ایسی شکایات سن رہے ہوں گے۔

یہ شکایات پاکستان میں موبائل کمپنیوں کے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین میں عام ہیں اور لاکھوں صارفین موبائل ڈیٹا پر واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام جیسی ایپس تک رسائی یا ان کے استعمال میں دشواری کی شکایت کر رہے ہیں۔

اس دشواری کا آغاز محرم کی تعطیلات کے دوران ہوا۔ پاکستان میں عموماً سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے تناظر میں عاشورۂ محرم کے موقع پرموبائل سروس معطل کیا جانا ایک روایت رہی ہے تاہم اس مرتبہ ایسی کسی بندش کے بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا تھا۔

ساتھ ہی ساتھ صارفین کو سوشل میڈیا ایپس تک رسائی میں دشواری ایک ایسے وقت میں بھی درپیش ہے جب پاکستان میں سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر یہ بات گردش کر رہی ہے کہ حکومت انٹرنیٹ پر مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے فائر وال لگا رہی ہے۔

انٹرنیٹ کی سست روی اور ایپس تک رسائی نہ ہونے کے معاملے پر جب پی ٹی اے سے رابطہ کیا گیا تو ادارے کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم صارفین کی شکایات کے بعد دیکھ رہے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے‘۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس وقت تک کسی ایسے مسئلے کو نہیں دیکھتے جب تک ہمیں شکایات موصول نہ ہوں۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے ہمیں شکایات موصول ہو رہی ہیں تو ہم انھیں دیکھیں گے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔‘

ترجمان نے فائر وال کی تنصیب یا حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر سوشل میڈیا ایپس تک رسائی محدود کرنے کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے معذرت کی جبکہ خود حکومت کی جانب سے بھی تاحال اس بارے میں کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان میں صارفین کو سست انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کیوں ہے؟ بی بی سی نے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے لیکن سب سے پہلے تو آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ صارفین کو کیا مسائل پیش رہے ہیں۔

’لگتا ہے کہ ہم مارشل لا کے دور میں جی رہے ہیں‘

راولپنڈی کی رہائشی آمنہ اشفاق کا کہنا تھا کہ ’میں گھریلو خاتون ہوں اور سارا دن گھر میں گزارتی ہوں۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے تو ٹی وی اور موبائل فون ہی انٹرٹینمنٹ کا واحد ذریعہ ہے۔‘

’میں کچھ دن سے اپنے بچوں کو بار بار کہہ رہی تھی کہ بیٹا دیکھو میرے فون میں کوئی مسئلہ ہے۔ فیس بک کی ویڈیو اتنی مشکل سے چلتی ہے۔ ہم نے گھر پر وائی فائی نہیں لگوایا ہے کیونکہ ہم سب کے پاس موبائل کا ڈیٹا پیکج ہے تو ہم اسے ہی استعمال کرتے ہیں۔ میں نے ہیلپ لائین پر کال کی تو انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کی ایپلیکشن چلنے میں مسئلہ آرہا ہے۔ اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ جب میں نے ان کے نمائندے سے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ ہمارا نیٹ ورک بلکل ٹھیک کام کر رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے مسئلہ ہے۔

وہ کہتی ہیں ’اب ان (موبائل کمپنیوں) سے کوئی پوچھے کہ ہم تو آپ کو انٹرنیٹ کے پیسے دے رہے ہیں، حکومت کو نہیں۔ اگر حکومت نے پابندی لگائی ہے تو اس کی وجہ کو کسٹمر کو بتانی چایے۔‘

وہ شکایت کرتی ہیں کہ ’اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز پر ہی پابندی لگا رہے ہیں۔ کھل کر نہ تو بات کرسکتے ہیں نہ کچھ استعمال کر سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مارشل لا کے دور میں زندگی جی رہے ہیں۔‘

24 سالہ علی احمد طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ ’دنیا ترقی کرکے آگے بڑھ رہی ہے اور ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ اتنے دن ہو گئے ہیں میرے فون پر سوشل میڈیا ایپس نہیں چل رہی ہیں۔ پہلے میں سمجھا کہ میرے فون میں کوئی مسئلہ ہے یا پھر مجھے ایپس کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے وہ سب بھی کرکے دیکھ لیا لیکن پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا اور رک رک کر سوشل ایپس چل رہی ہیں۔‘

’ابھی تو یہ شروعات ہے، آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے‘

شاہین ایک ڈیجیٹل چینل کے ساتھ منسلک ہیں۔ انھیں بھی سوشل میڈیا ایپس استعمال کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا تو زیادہ تر کام فیلڈ سے واٹس ایپ کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔

’ہم ڈیٹا، تصاویر اور ویڈیوز سب ہی واٹس سے بھیجتے ہیں مگرآج کل موبائل ڈیٹاکام نہیں کر رہا ہے۔ تاہم وائی فائی پر یہ مسئلہ کم ہے۔ اگر تو آپ وائی فائی سے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں تو اس سے چیزیں موصول ہو رہی ہیں۔‘

وہ خدشہ ظاہر کرتی ہیں کہ ’ابھی تو یہ مسئلہ شروع ہوا ہے۔ آگے دیکھتے ہیں کہ کیا ہو گا۔ کہا تو یہی جا رہا ہے کہ شاید ان ایپلیکشنز پر پابندی لگے لیکن کوئی بھی اس بات کی تصدیق نہیں کر رہا۔‘

سرمد اعظم پنجاب کے مختلف شہروں میں جانوروں کا کاروبار کرتے ہیں جبکہ خود وہ لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں روزانہ اپنے ملازمین سے جانوروں کی اپ ڈیٹ اور تصاویر منگواتا ہوں تاکہ اپنے کاروبار اور جانوروں پر نظر رکھ سکوں۔ یہی نہیں ہم بڑے اور چھوٹے جانوروں کی خریدو فروخت بھی واٹس ایپ پر کرتے ہیں مگر کئی دن سے مجھے تصاویر اور وائس نوٹ موصول نہیں ہو رہے ہیں۔ ‘

وہ بتاتے ہیں ’میں نے اپنے ملازم سے کہا کہ تم مجھے جانوروں کی تصاویر کیوں نہیں بھیج رہے؟ جس پر اس نے جواب دیا کہ سر میرا انٹرنیٹ چل رہا ہے لیکن تصویریں نہیں جا رہی ہیں۔‘

getty
Getty Images

ٹیلی کام کمپنیاں کیا کہہ رہی ہیں؟

بی بی سی کی جانب سے مختلف ٹیلی کام کمپنیوں سے اس مسئلے کے وجہ جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا۔ جس پر بیشتر نے یہی جواب دیا کہ ’ہمارے نیٹ ورک میں کوئی مسئلہ نہیں ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مسئلہ حکومت کی جانب سے آرہا ہے۔‘

تاہم یوفون کے ترجمان عامر پاشا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمھیں ابھی تک صارفین کی جانب سے ایسی شکایات موصول نہیں ہوئی ہیں۔ جبکہ حکومتی سطح پر بھی ہمیں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔‘

دوسری جانب ایک اور ٹیلی کام کمپنی کے افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمھیں معلوم ہے کہ یہ مسئلہ آرہا ہے اور ہم حکومت سے اس پر بات کر رہے ہیں۔ جہاں تک ہماری معلومات ہیں اس کے مطابق ریاستی ادروں کی جانب سے فائر وال لگائی گئی ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا ایپلیکیشنز چلانے میں مسئلہ آرہا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’حکومتی نمائندوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس پر ہمیں باقاعدہ نوٹیفائی کیا جائے۔ ہمیں امید ہے کہ اگلے دو دن میں جواب موصول ہو جائے گا۔‘

پاکستان آئی ٹی اور ٹیلی کمونیکیشن انڈسٹری میں ایک سرکاری افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سوشل میڈیا نہ چلنے کی بظاہر وجہ فائروال کا ٹیسٹ رن ہے۔ یہی نہیں بلکہ لوکل سطح پر ٹرانس میٹرز پر جیمرز بھی لگائے جارہے ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ریاستی ادارے یہ کام مانیٹرنگ اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے غرض سے کر رہے ہیں۔‘

فائر وال کیسے کام کرتی ہے؟

فائر وال بنیادی طور پر انٹرنیٹ گیٹ ویز پر لگائی جاتی ہیں جہاں سے انٹرنیٹ اپ اور ڈاؤن لنک ہوتا ہے اور اس نظام کی تنصیب کا مقصد انٹرنیٹ کی ٹریفک کی فلٹریشن ہوتی ہے۔

اس نظام کی مدد سے ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود مواد کو کنٹرول یا بلاک کیا جا سکتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ فائر وال سسٹم کی مدد سے ایسے مواد کے ماخذ یا مقامِ آغاز کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

’فائروال کی تنصیب کے حوالے سے شفافیت کا فقدان مجرمانہ اقدام ہے‘

انٹرنیٹ تک رسائی پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر پاکستان میں وٹس ایپ کی بندش کا تعلق اس فائروال سے ہے جس کی تنصیب کی خبریں گرم ہیں۔

خلجی کہتے ہیں کہ یہ فائروال اس لیے لگائی جا رہی ہے تاکہ حکومت کی انٹرنیٹ اورخصوصاً سوشل میڈیا پرکسی بھی مواد تک رسائی کو بلاک کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس فائر وال کا مقصد انٹرنیٹ اور دوسری کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنا ہے تاکہ اختلافِ رائے کو دبایا جا سکے۔‘

اس سوال پر کہ آیا حکومت سوشل میڈیا کو بند کرنے جا رہی ہے، اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ ’اگر سوشل میڈیا پلٹ فارمز نے حکومت کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا یا ان کی سروس کو آہستہ کرنے سے بھی کام نہیں چلا تو حکومت شاید انھیں بند بھی کردے۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ طریقے اب زیادہ کارآمد نہیں رہے کیونکہ اب بیشتر صارفین وی پی این (VPN) استعمال کرنا جانتے ہیں۔ ’وزیرِاعظم بھی ایکس/ٹوئٹر وی پی این کے ذریعے استعمال کر رہے ہیں۔‘

خلجی کہتے ہیں کہ فائروال جیسے نظام نہ صرف لوگوں کے معلومات تک رسائی اور آزادی اظہار جیسے آئینی حقوق کی خالف ورزی ہے بلکہ کمیونیکیشن کے ذرائع میں تعطل کا معیشت پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے فائروال سسٹم کی تنصیب کے حوالے سے شفافیت کا فقدان مجرمانہ اقدام ہے۔ اس کے باعث عوام دستیاب شواہد اور غیر مصدقہ معلومات کی بنیاد پر قیاس آرائیاں کرنے پر مجبور ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.