حرکت میں ہی برکت ہے: ’زیادہ دیر تک بیٹھنا صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے‘

سیڈینٹری رویے دل کی بیماریوں، ٹائپ 2 ذیابیطس اور قبل از وقت موت کے زیادہ خطرے سے وابستہ ہیں، اور خاص طور پر بیٹھے رہنے کے وقت کو صحت کے حوالے سے ایک خطرے کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔
بیٹھنا
Getty Images

گھر ہو دفتر یا گاڑی، لوگ روزانہ کہیں نہ کہیں دیر تک بیٹھے ضرور رہتے ہیں لیکن بہت دیر تک بیٹھے رہنے سے شریانوں کی خرابی کی وجہ سے دل کی بیماری اور ٹائپ ٹو ذیابیطس جیسے سنگین صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

سنہ 1953 میں وبائی امراض کے ماہر جیریمی مورس نے دریافت کیا کہ لندن کے بس ڈرائیوروں میں دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان بس کنڈیکٹرز کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔

آبادیکے لحاظ سے (عمر، جنس اور آمدن کے لحاظ سے) دونوں گروہ ایک جیسے تھے تو پھر اتنا اہم فرق کیوں تھا؟

مورس کا جواب تھا: بس کنڈکٹرز کا کھڑا ہونا لازمی تھا اور باقاعدگی سے لندن کی مشہور ڈبل ڈیکر بسوں کی سیڑھیوں پر چڑھنا پڑتا تھا کیونکہ وہ مسافروں کو ٹکٹ فروخت کرتے تھے جبکہ ڈرائیور لمبے وقت تک بیٹھے رہتے تھے۔

ان کے تاریخی مطالعے نے جسمانی سرگرمی اور صحت کے درمیان روابط پر تحقیق کی بنیاد رکھی۔

اگرچہ لندن کی بسوں میں کنڈکٹرز اب ماضی کی بات ہو گئی ہے تاہم مورس کے نتائج پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔

کووڈ 19کی وبا کے بعد سے گھر سے کام کے معاملے میں بہت بڑی تبدیلی آئی، جس سے ہمارے بیٹھنے کےمجموعی وقت میں اضافہ ہو گیا۔

میٹنگ روم سے واٹر کولر اوربیت الخلا تک کی چہل قدمی کے بغیر ڈیسک کے پیچھے گھنٹوں تک بیٹھنا آسان ہے۔

تاہم آفس کلچر نے 1980 کی دہائی تک ہماری کام کرنے کی زندگی کو اس قدر تبدیل کر دیا تھا کہ کچھ محققین نے مذاق کیا کہ ہماری نسل ہومو سیڈنز ’بیٹھے ہوئے انسان‘ بن گئی ہے۔

سیڈینٹری طویل عرصے تک بیٹھے رہنے کی ایک شکل ہے جس میں بیٹھے یا لیٹی ہوئی پوزیشن میں بہت کم توانائی خارج ہوتی ہِے۔

سیڈینٹری طرزعملمیں ٹیلی ویژن دیکھنا، گیمنگ، ڈرائیونگ اور ڈیسک پر کام کرنا شامل ہے۔ سیڈینٹری رویے دل کی بیماریوں، ٹائپ ٹو ذیابیطس اور قبل از وقت موت کے زیادہ خطرے سے وابستہ ہیں اور خاص طور پر بیٹھے رہنے کے وقت کو صحت کے حوالے سے خطرے کی وجہ قرار دیا گیا۔

سنہ 2020 میں عالمی ادارہ صحت نے بیٹھے رہنے کے رویے کو کم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے۔

سنہ 2010 کے بعد سے محققین اس بات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بیٹھے رہنے کا رویہ جسمانی سرگرمی کی کمی سے مختلف ہے۔

آپ روزانہ کافی ورزش کرنے کے باوجود بھی بہت دیر تک بیٹھ سکتے ہیں تاہم جو لوگ کافی ورزش نہیں کرتے ان کے لیے بیٹھے رہنے کی عادت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

بیٹھنا
Getty Images

بیٹھے رہنے سے دل کی بیماری کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے؟

بنیادی مفروضہ خاص طور پر ٹانگوں میں شریانوں کی خرابی میں اضافہ ہے۔

آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ڈیکن یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار فزیکل ایکٹیویٹی اینڈ نیوٹریشن کے فزیولوجسٹ ڈیوڈ ڈنسٹن نے طویل عرصے تک بیٹھے رہنے اور اس کے ممکنہ اثرات پر وسیع پیمانے پر تحقیق کی۔

ڈنسٹن کہتے ہیں کہ ’بیٹھنے سے پٹھوں کی سرگرمی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اگر میں کرسی پر ہوں، تو کرسی وہاں تمام ذمہ داری لے رہی ہے۔‘

پٹھوں کی سرگرمی میں کمی، کم میٹابولک طلب اور کشش ثقل کی قوتوں کا مشترکہ اثر ٹانگوں کے پٹھوں میں پیریفرل خون کے بہاؤ کو کم کرتا ہے جس سے پنڈلیوں میں خون جمع ہوسکتا ہے۔

ٹانگوں کو موڑ کر بیٹھنے کے بائیو میکینکس عام طور پر خون کے بہاؤ کو بھی کم کرسکتے ہیں۔ ٹانگ کے پٹھوں کی کم سرگرمی ان کی میٹابولک طلب کو کم کرتی ہے۔ میٹابولک ڈیمانڈ خون کے بہاؤ کاتعین کرتی ہے لہٰذا ٹانگوں میں خون کا بہاؤ بھی کم ہو جاتا ہے۔

21 نوجوان صحت مند رضاکاروں پر کی گئی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ دو گھنٹے کے دوران ان کی پنڈلیوں کی موٹائی میں تقریباً ایک سینٹی میٹر کا اضافہ ہوا۔ یہ خون کے بہاؤ کو بھی کم کر سکتا ہے۔

خون کا بہاؤشریانوں کی دیواروں کے اینڈوتھیلیئل خلیات کے خلاف رگڑ فراہم کرتا ہے جسے شریانوں کا شیئر تناؤ کہا جاتا ہے۔ اینڈوتھیلیم اس قوت کا جواب دیتا ہے اور ویسوڈیلیٹرز جیسے ایڈینوسین پروسٹاسائکلن اور نائٹرک آکسائڈ کو خارج کرتا ہے، جو شریانوں کو کافی حد تک پھیلا ہوا رکھتا ہے اور شریانوں کو منظّم رکھنے کی صلاحیت کو برقرار رکھتا ہے، جسے ہومیوسٹیس کہا جاتا ہے۔

تاہم خون کے بہاؤ میں کمی، شیئر تناؤ کو کم کرتی ہے اور اینڈوتھیلیم اینڈوتھیلن ون جیسے ویسوکنسٹریکٹر پیدا کرتا ہے جو خون کی شریانوں کو تنگ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خون کا بہاؤ بنائے رکھنے کے لیے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر دل کی بیماری کے لیے اہم خطرے کے عوامل میں سے ایک ہے۔

ڈنسٹن کہتے ہیں کہ ’یہ شریانوں کی خرابی ممکنہ میکانزم میں سے ایک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم صحیح میکانزم کی نشاندہی نہیں کر پائے۔‘

16 نوجوان اور صحت مند مردوں پر کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ تین گھنٹے تک بیٹھے رہنے سے ٹانگوں میں خون جمع ہونے، ڈائسٹولک بلڈ پریشر اور ٹانگوں کی موٹائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک اور مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ بلڈ پریشر بلا تعطل بیٹھے رہنے کے ساتھ بڑھتا ہے۔

محققین عام طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ 120-180 منٹ بلا تعطل بیٹھنا شاید وہ حد ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ نے بیٹھنے کی پوزیشن میں بہت زیادہ وقت گزارا ہے۔ عام طور پر جیسے جیسےبیٹھے رہنے کا وقت بڑھتا ہے شریانوں کی خرابی بھی بڑھ جاتی ہے۔

زیادہ چربی والے کھانے کے بعد طویل عرصے تک بیٹھے رہنا خاص طور پر نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔

’پٹھوں کے نظام کے بھی متاثر ہونے کا امکان ہے۔ لمبے وقت تک بیٹھے رہنے سے پٹھوں کی طاقت میں کمی، ہڈیوں کی کثافت میں کمی اور چربی کے ٹشوز اور آنتوں کی چربی میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ خیال ہے کہ طویل عرصے تک بیٹھے رہنے سے جسمانی بے آرامی، کام پر تناؤ اور ڈپریشن حتیٰ کہ دباؤ کے باعث ہونے والا السر ہو سکتا ہے۔

ٹائپ ٹو ذیابیطس پر تحقیق کرنے والے ڈنسٹن نے یہ بھی پایا کہ کھانے کے بعد یا زیادہ دیر بیٹھے رہنے کے بعد خون میں گلوکوز اور انسولین میں اضافہ ہوتا ہے۔

بیٹھنا
Getty Images

ہم دیر تک کیوں بیٹھے رہتے ہیں اور کیا ہم اس عادت کو بدل سکتے ہیں؟

یونیورسٹی آف سرے کے ماہر نفسیات بینجمن گارڈنر اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ لوگ اتنے لمبے وقت تک کیوں بیٹھے رہتے ہیں۔

وہ کہتےہیں کہ ’ایسا نہیں کہ کوئی جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے۔ جیسے جیسے چیزیں زیادہ موثر ہوتی جاتی ہیں ہمیں زیادہ یہاں وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘

سنہ 2018 میں گارڈنر اور ان کے ساتھیوں نے پایا کہ میٹنگز میں کھڑے ہونے کی حوصلہ افزائی کرنے میں انوکھی معاشرتی رکاوٹیں پیش آئیں۔

گارڈنر کہتے ہیں کہ ’ہم نے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ تین مختلف میٹنگز میں کھڑے رہنے کی کوشش کریں اور ہم نے بعد میں ان کا انٹرویو کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ کیسے آگے بڑھے اور نتائج دلچسپ تھے۔

’رسمی میٹنگ میں یہ محسوس کیا گیا کہ کھڑے ہونا مناسب نہیں۔‘

دیگر اقدامات میں اونچائی ایڈجسٹ کرنے والے ورک سٹیشنز، اونچی نیچی ہونے والی نشستیں، ٹریڈ مل ورک سٹیشنزشامل ہیں جو خون کے بہاؤ کو بڑھاتے ہیں۔

صرف بار باراٹھنا اور ہلکی چہل قدمی کرنا یا کچھ سیڑھیاں چڑھنا بھی فائدہ مند ثابت ہوا۔

ٹیکنالوجی سے بھی ایسا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک تحقیق میں ایکسیلومیٹر نامی ڈیوائسز نے بیٹھنے، کھڑے ہونے، سونے اور ورزش کرنے سمیت انفرادی طرز عمل پر 24 گھنٹے کا ڈیٹا فراہم کیا۔

جیسا کہ ڈنسٹن نے نشاندہی کی یہ ممکنہ طور پر بیٹھنے اور کھڑے ہونے کے بہترین اوقات بتاتا ہے جب بھی ہم بہت دیر تک بیٹھتے ہیں تو آلات خود کار طریقے سے یاد دہانی بھیجتے ہیں۔

تاہم ٹیکنالوجی کے استعمال میں کچھ مسائل بھی ہوتے ہیں کیونکہ کچھ لوگ اس کی یاد دہانیوں سے چڑ جاتے ہیں۔

اگرچہ بیٹھے رہنے کے وقت کے تسلسل کو توڑنے کے لیے صرف کھڑے ہوجانا ایک سادہ عمل ہے لیکن خاص طور پر کم سرگرمی رکھنے والے افراد کے لیے اس کے طبی فوائد ہیں۔

وہیل چیئر استعمال کرنے والوں یا محدود نقل و حرکت والے دیگر افراد کے لیے مخصوص، موافق ورزش فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں۔

بہت سے لوگوں کے لیے بیٹھے رہنے کا روّیہ جدید زندگی اور کامکی وجہ سے ناگزیر ہو گیا ہے لیکن آپ کےمعمولات میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں جیسے تھوڑی ورزش کر کے یا چائے کا کپ بنانے کے لیے کھڑے ہونا، بیٹھنے کے تسلسل کو توڑ سکتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.