وہ ’خاموش قاتل‘ جو پاکستان سمیت عالمی معیشت کو بھی ’ڈبو‘ رہا ہے

دنیا میں ایک ایسی وبا ہے جس سے انسان منٹوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ ہر سال اس وبا کے باعث ڈھائی لاکھ لوگوں کی موت ہو جاتی ہے لیکن اس کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔
وبا
Getty Images
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال مرنے والوں میں تقریباً 82 ہزار ایسے بچّے بھی شامل ہوتے ہیں جن کی عمر 14 سال سے بھی کم ہوتی ہے

دنیا میں ایک ایسی وبا موجود ہے جس میں زندگی منٹوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ ہر سال اس وبا کے باعث ڈھائی لاکھ لوگوں کی موت ہو جاتی ہے لیکن اس کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔ یہ وبا ہے پانی میں ڈوب جانے سے ہونے والی اموات کی۔

2021 میں اقوام متحدہ نے ’ورلڈ ڈراؤننگ پریوینشن ڈے‘ یعنی ’ڈوبنے کی وجہ سے اموات کی روک تھام‘ کے لیے 25 جولائی کا دن مخصوص کر دیا تاکہ اس بارے میں آگاہی پھیلائی جا سکے۔

برطانیہ کے رائل نیشنل لائف بوٹ انسٹیٹیوٹ (آر این ایل آئی) سے منسلک کیٹ ارڈلی کہتی ہیں لوگ ڈوب جانے والوں کی حقیقت سے لاعلم ہیں۔

’لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی پر جیسے کسی کو ڈوبتا ہوا دکھاتے ہیں، شور مچاتا ہوا، اصل میں بھی وہی ہوتا ہوگا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔‘

کیٹ کے مطابق حقیقت میں ڈوبنا ایسا ہوتا ہے جیسے ’ایک بچّہ تالاب میں گر جائے اور کسی کو کوئی آواز نہ آئے۔‘

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال مرنے والوں میں تقریباً 82 ہزار ایسے بچّے بھی شامل ہوتے ہیں جن کی عمر 14 سال سے بھی کم ہوتی ہے۔

یعنی اوسطاً روزانہ 650 سے زیادہ لوگ ڈوب رہے ہیں اور اسی وجہ سے عالمی ادارہ صحت نے اسے ’خاموش وبا‘ کا نام دیا ہے۔ تاہم اس وبا سے بچنا ممکن ہے۔

2017 کے اعداد و شمار کے مطابق چین، انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں پانی میں ڈوب کر مرنے والوں کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہے۔

flourish map
BBC
اوسطاً روزانہ 650 سے زیادہ لوگ ڈوب رہے ہیں اور اسی وجہ سے عالمی ادارہ صحت نے اسے ’خاموش وبا‘ کا نام دیا ہے

معیشت کو نقصان کیسے پہنچتا ہے؟

اس وبا کی وجہ سے نہ صرف مرنے والوں کے لواحقین کو تکلیف پہنچتی ہے بلکہ معیشت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

لوگوں کی وقت سے پہلے ہو جانے والی اموات کے باعث کام کی رفتار پر فرق پڑتا ہے کیونکہ ملازمین کی کمی ہو جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سنہ 2050 تک ایسے لوگوں کی غیر حاضری کی وجہ سے عالمی سطح پر چار کھرب امریکی ڈالرز تک کا مالی نقصان ہو سکتا ہے۔

تاہم یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے اور اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

یہ بھی پڑھیے

’ڈوبنے کو تو کوئی بھی ڈوب سکتا ہے‘

دنیا میں حادثاتی اموات میں ڈوبنا تیسرے نمبر پر موجود ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسی اموات کی شرح 7 فیصد ہے جس میں غیر متناسب طور پر بچّے اور نوجوان شامل ہوتے ہیں۔

دنیا کے ہر خطّے میں 25 سال سے کم عمر کے لوگوں کی اموات کی 10 عام وجوہات میں سے ایک ڈوبنا ہے۔ تاہم ایک سے چار سال کی عمر تک کے بچّوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے کیونکہ وہ بہت آسانی سے پانی میں پھسل جاتے ہیں اور باہر نہیں نکل پاتے۔

عالمی ادارہ صحت کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر ڈیوڈ میڈنگز کہتے ہیں کہ ’ڈوبنے کو تو کوئی بھی ڈوب سکتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’سب کچھ بہت جلدی ہوتا ہے۔ یہ ٹریفک حادثے کی طرح نہیں ہوتا جہاں لوگوں کو ہسپتال بھی لے جایا جا سکتا ہے اور وہ گھنٹوں زندگی کے لیے لڑ پاتے ہیں۔ ڈوبتے وقت بندہ منٹوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایک ایک سیکنڈ بہت اہم ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اگر ڈوبنے والا بچ بھی جائے تو اس کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل جاتی ہے کیوں کہ اس کے دماغ کو بھی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق 90 فیصد سے زیادہ ڈوبنے والے لوگوں کا تعلق کم آمدن یا متوسط آمدن والے ممالک سے ہوتا ہے۔ 60 فیصد سے زیادہ اموات مغربی پیسیفک خطّے اور جنوب مشرقی ایشیا میں ہوتی ہیں۔

زیادہ آمدن والے ممالک میں تعلیمی نظام اور سہولیات بہتر ہونے کی وجہ سے بچّوں کو تیرنا سکھا دیا جاتا ہے۔ تاہم دنیا میں ایسی اموات کی شرح میں ہر دہائی کے ساتھ ساتھ کمی بھی آ رہی ہے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ میڈنگز کا کہنا ہے معاشی ترقی اور بہتر ٹیکنالوجی، انفرا سٹرکچر اور قوانین کی وجہ سے اس مسئلے سے نمٹنے میں مدد مل رہی ہے۔

a boy running into a body of water
Getty Images
دنیا میں ایک ایسی وبا موجود ہے جس میں زندگی منٹوں میں ختم ہو جاتی ہے

’آگاہی میں کمی‘

عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر میڈنگز کہتے ہیں کہ ’اگر حکومتیں تہیّہ کر لیں کہ انھیں ایسی اموات کی شرح میں کمی لانی ہے تو یہ کام اتنا مشکل نہیں۔‘ ان کے مطابق روک تھام میں سب بڑی مشکل ’آگاہی کی کمی‘ ہے۔

آر این ایل آئی کی کیٹ ارڈلی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر عالمی سربراہان کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ڈوبنے کے باعث موت کتنی عام بات ہے۔

’ہم اکثر کسی سفیر سے بات کرتے ہیں تو وہ ہم سے کہتے ہیں کہ انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہم ان کے پاس کیوں آئے ہیں۔ پہلے وہ کہتے ہیں کہ ڈوبنا تو کوئی توجہ طلب مسئلہ ہے ہی نہیں۔ آدھا گھنٹا گزرنے کے بعد وہ پوچھتے ہیں کہ وہ اس مسئلے سے کیسے نمٹ سکتے ہیں اور ہم اس میں ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟‘

عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر میڈنگز کا ماننا ہے کہ ڈوبنے کے حوالے سے ایک دن مختص کرنے کی وجہ سے لوگوں میں کافی آگاہی آ گئی ہے۔

مثال کے طور پر ’ورلڈ ڈراؤننگ پریوینشن ڈے‘ کا اعلان ہونے کے فوراً بعد ہی تنزانیہ کی حکومت نے ڈوب جانے سے ہونے والی اموات کی روک تھام کے لیے نیا طریقہ کار اپنایا۔

اس دن کے مختص ہونے کی وجہ سے عالمی ادرہ صحت کو بھی اس مسئلے پر عالمی سطح کی رپورٹ بنانے میں مدد ملی۔ امید ہے کہ یہ رپورٹ سال کے آخر تک شائع کر دی جائے۔

ان اموات میں کمی کیسے لائی جا سکتی ہے؟

a stock photo of a child by a body of water
Getty Images
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ سکول جانے والے بچوں کو تیراکی، پانی سے متعلق تحفظ اور ریسکیو سے متعلق معلومات دینے سے ڈوبنے کے باعث ہونے والی اموات میں کمی آ سکتی ہے

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ سکول جانے والے بچوں کو تیراکی، پانی سے متعلق تحفظ اور ریسکیو سے متعلق معلومات دینے سے ڈوبنے کے باعث ہونے والی اموات میں کمی آ سکتی ہے۔

ادارے کے مطابق دو لاکھ 38 ہزار اموات اور پانچ لاکھ 49 ہزار ایسے واقعات سے بھی بچا جا سکتا ہے جن میں ڈوبنے کے بعد اموات تو نہیں ہوئیں لیکن ایمرجنسی صورتحال ضرور پیدا ہو گئی۔

گذشتہ برس جنوبی افریقہ میں ایسے ہی ایک پروگرام کے باعث نو لاکھ بچوں کو پانی میں محفوظ رہنے سے متعلق آگاہی فراہم کی گئی۔

اس پروگرام سے منسلک اینڈریو انگرام کے مطابق دو مرتبہ ایسے بچے جو اس پروگرام کا حصہ بنے تھے، انھوں نے دوسرے بچوں کو ڈوبنے سے بچایا۔

وہ وضاحت کرتے ہیں کہ بچوں کو تیراکی سکھاتے ہوئے ان کی ہمہ وقت نگرانی کرنی پڑتی ہے کیونکہ اگر انھیں اکیلا چھوڑ دیا جائے تو وہ چند منٹ کے اندر ڈوب سکتے ہیں۔

تاہم ایسے والدین جو دیہی علاقوں میں کام پر جاتے ہیں ان کے لیے اپنے بچوں کی ہر وقت نگرانی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بچوں کے ڈوبنے کے واقعات کا گہرا تعلق بڑوں کی نگرانی نہ ہونے سے ہوتا ہے۔

ادارے کے مطابق اس کا ایک اور طریقہ بچوں کے لیے محفوظ جگہیں بھی فراہم کرنا ہو سکتا ہے جہاں وہ نہا سکیں اور تیراکی سیکھ سکیں۔

بنگلہ دیش میں ایسی ہی محفوظ جگہوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جو خاص طور پر ایسے وقت میں بنائی گئی تھیں جب ڈوبنے کے واقعات عروج پر ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی تحقیق کی بنیاد پر کیا گیا تھا جس کے مطابق عموماً بچے گھر سے 20 میٹر سے کم کی دوری پر اور دوپہر کے وقت ڈوبتے ہیں جب ان کے والدین مصروف ہوتے ہیں۔

جھوما بیگم ایسے ہی ایک محفوظ مقام پر کام بھی کر چکی ہیں اور تربیت بھی لے چکی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جب ایک دن انھیں اپنا بیٹا پانی میں بے ہوش ملا تو وہ اس ٹریننگ کی بدولت اسے بچا پائیں۔

Jhorna Begum and her son Yasin
RNLI/Syed Naem
جھوما بیگم کو ایک دن اپنا بیٹا پانی میں بے ہوش ملا تو وہ ٹریننگ کی بدولت اسے بچا پائیں

اس ماڈل کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت نے اس منصوبے کو دیگر علاقوں میں بھی آزمانے کے لیے 32 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

عالمی ادارہ صحت اس کے علاوہ یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ کشتیوں اور فیریز کے حوالے سے حفاظت کے اصولوں کا اطلاق ضروری ہے، تاکہ سیلاب کے خطرے سے بچاؤ اور پانی تک رسائی کو کنٹرول کرنے کے لیے رکاوٹیں لگائی جا سکیں۔

اقدامات نہ کرنے سے کتنا نقصان ہوتا ہے؟

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کچھ ممالک اپنے سالانہ جی ڈی پی کا تین فیصد ڈوبنے کے واقعات پر صرف کر رہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگر ڈوبنے سے بچاؤ کے لیے اقدامات کی صورتحال یہی رہی تو 72 لاکھ افراد، زیادہ تر بچے، 2050 تک ہلاک ہو سکتے ہیں جبکہ 34 لاکھ معذور ہو سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ کل نقصان چار ٹریلین ڈالر تک کا ہو سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دوسری جانب 50 ہائی رسک ممالک میں اس حوالے سے اگر ضروری حفاظتی اقدامات کیے جائیں تو ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے نو ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔

پانی میں خود کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟

a stock photo, showing a hand reaching out of a swimming pool
Getty Images

رائل لائف سیونگ سوسائٹی برطانیہ لوگوں کو اکیلے پانی کے قریب نہ جانے، فیملی اور دوستوں کے ساتھ تیرنے اور لائف گارڈ ساتھ رکھنے کا مشورہ دیتی ہے۔

یہ بھی اہم ہے کہ بچوں کو پانی کے قریب مکمل طور پر بڑوں کی نگرانی میں رکھا جائے۔

برطانیہ کے ایک فلاحی ادارے کے مطابق اگر لوگ پانی میں گرتے ہیں یا تیرتے ہوئے تھک جائیں تو وہ گھبرائیں نہیں بلکہ کمر کے بل تیریں یا فلوٹ کریں اور مدد کے لیے پکاریں۔

اگر آپ کسی کو اس حالت میں دیکھیں تو اس کی جانب کوئی ایسی چیز پھینکیں جو تیر سکتی ہو۔

فلاحی ادارہ لوگوں کو ساحل سے زیادہ دور نہ جانے کی تلقین کرتا ہے اور ساحل کے ساتھ ساتھ تیرنے کا مشورہ دیتا ہے۔

رائل لائف سیونگ سوسائٹی کے مطابق اگر آپ کسی مشکل صورتحال میں ہوں تو:

  • مدد کے لیے پکاریں
  • پانی کے بہاؤ کے خلاف نہ تیریں
  • ساحل کے ساتھ ساتھ تیریں
  • اور جب آپ تیز بہاؤ سے نکل آئیں تو ساحل کی طرف تیریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں آپ پانی کے بہاؤ کے ساتھ نہ بہہ جائیں۔

News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.