’لاشوں پر منڈلاتے گِدھوں کی کم ہوتی آبادی‘ کس طرح پانچ لاکھ انسانوں کی موت کا سبب بنی

گدھ نامی پرندہ در اصل قدرت کے نظام میں صفائی کرنے والے پرندے کی حیثیت رکھتا ہے جو مویشیوں کی لاشوں کی تلاش میں کھلے میدانوں پر منڈلاتے نظر آتے تھے۔
گِدھ
Getty Images

ایک وقت تھا کہ گِدھ انڈیا اور پاکستان کے علاقوں میں بڑی تعداد میں اور قریباً ہر جگہ پایا جانے والا پرندہ تھا۔

یہ پرندہ دراصل قدرت کے نظام میںصفائی کرنے والے پرندے کی حیثیت رکھتا ہے جو مویشیوں کی لاشوں کی تلاش میں کھلے میدانوں پر منڈلاتے نظر آتے تھے۔

کبھی کبھی وہ ہوائی اڈے پر ٹیک آف کے دوران جیٹ انجنوں میں پھنس کر پائلٹوں کو پریشان کر دیتے تھے۔

لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ پہلے انڈیا میں بیمار گائے کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ایک دوا کی وجہ سے گِدھ مرنے لگے۔

گِدھ کے کیا فائدے ہیں؟

امریکن اکنامک ایسوسی ایشن جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان پرندوں کے غیر ارادی طور پر ختم ہونے کی وجہ سے مہلک بیکٹیریا اور انفیکشن پھیلنے لگے، جس کے نتیجے میں پانچ سالوں میں ہر سال تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔

یونیورسٹی آف شکاگو کے ہیرس سکول آف پبلک پالیسی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور اس تحقیق کے شریک مصنف ایال فرینک کا کہنا ہے کہ گِدھوں کو فطرت کی کی جانب سے صفائی کی سہولت سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ ہمارے ماحول سے بیکٹیریا اور پیتھوجینز پر مشتمل مردہ جانوروں کو ہٹانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انسانی صحت میں گِدھوں کے کردار کو سمجھنا جنگلی حیات کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ صرف پیارے نہیں ہوتے بلکہ ان کا ہمارے ماحولیاتی نظام میں ایک کام ہوتا ہے جو ہماری زندگیوں کو متاثر کرتا ہے۔‘

گدھوں کی غیرموجودگی میں مر‌ے ہوئے جانورعام طور پر سڑتے رہتے ہیں اور سڑنے کے بعد یہ زہریلے کیمیکلز اور مختلف گیسیں پیدا کرتے ہیں۔

گِدھ لاشوں پر بننے والے بیکٹیریا کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد گار ہوتے ہیں کیونکہ وہ انھیں ماحول سے ہٹا دیتے ہیں۔ گِدھوں کی عدم موجودگی آوارہ کتوں کی آبادی میں اضافے کا سبب بنتی ہے جس سے انسانوں میں ریبیز کا خطرہ ہوتا ہے۔

گِدھوں کے برعکس کتے سڑتی ہوئی باقیات کو صاف کرنے میں غیر موثر ہیں جس کی وجہ سے بیکٹیریا اور جراثیم پینے کے پانی تک بہہ جاتے ہیں اور ناقص ڈسپوزل طریقوں کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ پانی میں فیکل بیکٹیریا دوگنا سے زیادہ ہے۔

گِدھ
Getty Images

گِدھوں کی کمی سے انسانی آبادی پر پڑنے والے اثرات

انڈیا میں 1990 کی دہائی کے وسط تک، گِدھوں کی پانچ کروڑ کی آبادی تقریباً صفر ہو گئی تھی، جس کی وجہ مویشیوں کے لیے سستی نان سٹیرائڈل درد کش دوا ڈائیکلوفینک تھی جو گِدھوں کے لیے جان لیوا ہے۔

وہ گدھ جنھوں نے ایسے مویشیوں کی لاشیں کھائیں جن کا اس دوا سے علاج کیا گیا تھا، ان کے گردے ناکارہ ہوئے اور وہ مر گئے۔

انڈیا میں پرندوں کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2006 میں ڈائیکلوفینک کے جانوروں میں استعمال پر پابندی کے بعد سے کچھ علاقوں میں گِدھوں کی آبادی میں کمی کی رفتار کم ہوئی ہے لیکن کم از کم تین انواع 91 سے 98فیصد تک متاثر ہوئیں۔

فرینک اور ان کے شریک مصنف اننت سدرشن نے انڈیا کے علاقوں میں گِدھوں کی تعداد میں کمی سے پہلے اور بعد انسانی اموات کی شرح کا موازنہ کیا خاص طورپر ان علاقوں میں جہاں گِدھ اب کم ہو گئے ہیں۔

انھوں نے ریبیز ویکسین کی فروخت، جنگلی کتوں کی گنتی اور پانی کی فراہمی میں جراثیم کی سطح کا بھی جائزہ لیا۔

انھوں نے پایا کہ سوزش کے علاج کی ادویات کی فروخت میں اضافے اور گِدھوں کی آبادی میں کمی کے بعد ان اضلاع میں انسانی اموات کی شرح میں چار فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔

محققین نے یہ بھی پایا کہ یہ اثر شہری علاقوں میں سب سے زیادہ تھا جہاں مویشیوں کی بڑی آبادی تھی اور لاشوں کے ڈھیر عام تھے۔

مصنفین کا اندازہ ہے کہ 2000 اور 2005 کے درمیان گِدھوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے سالانہ تقریباً ایک لاکھ اضافی انسانی اموات ہوئیں جس کے نتیجے میں قبل از وقت موت سے منسلک معاشی اخراجاتکی مد میں سالانہ 69 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔

یہ اموات بیماری اور بیکٹیریا کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہوئیںجو شاید گِدھ ہوتے تو نہ ہوتیں۔

اس دوران ریبیز ویکسین کی فروخت میں اضافہ ہوا لیکن یہ ناکافی تھا۔

یونیورسٹی آف واروک کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس تحقیق کے شریک مصنف سدرشن کا کہنا ہے کہ’انڈیا میں گِدھوں کا کم ہونا انسانوں کو اس قسم کے سخت اور غیر متوقع اخراجات کی ایک واضح مثال فراہم کرتا ہے جو کسی بھی مخلوق کی کمی سے پیش آسکتے ہیں۔‘

اتنا ہی نہیں گدھوں کے غائب ہونے سے پارسی برادری میں آخری رسومات ادا کرنے کا روایتی طریقہ بھی ختم ہو تا جا رہا ہے۔

اس برادری میں لاش کو قدرت کے حوالے کر دیا جاتا ہے جسے عام طور پر گدھ کھا لیتے ہیں لیکن اب گدھوں کی کمی کے سبب انھیں بھی پریشانیاں لاحق ہو رہی ہیں۔

گِدھ
Getty Images

’صرف ادوایات وجہ نہیں‘

سدرشن کہتے ہیں کہ گِدھوں کی تعداد میں کمی کے لیے’نئے کیمیکلز کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا لیکن دیگر انسانی سرگرمیاں جیسے پرندوں کی قیام گاہوں کا نقصان، جنگلی حیات کی تجارت اور آب و ہوا کی تبدیلیجانوروں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ‘

’ہمارے لیےایسی اہم مخلوقات کی انواع کے تحفظ کے لیے وسائل اور قواعد و ضوابط کو ہدف بنانا ضروری ہے۔‘

لاشوں کی کم ہوتی دستیابی جس کی وجہ تدفین میں اضافہ اور جنگلی کتوں سے مقابلہ ہے، اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

کھدائی اور کان کنی کچھ گِدھوں کی اقسام کے لیے گھونسلے کی رہائش گاہ بنانےمیں خلل ڈال سکتی ہے۔

انڈیا میں گِدھوں کی انواع میں سفید رنگ کے گِدھ، انڈین گِدھ اور سرخ سر والے گِدھوں میں 2000 کی دہائی کے اوائل کے بعد سے سب سے زیادہکمی آئی ہے، جن کی آبادی میں بالترتیب 98 فیصد، 95 فیصد اور 91 فیصد کی کمی آئی ہے۔

مصری گِدھ اور نقل مکانی کر کے آنے والے گریفون گِدھوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

مویشیوں کی لاشوں کو تیزی سے ہٹانے کے لیے کسانہمیشہ سے ہی گِدھوں پر بھروسہ کرتے تھے۔

Getty Images
Getty Images

محققین کے مطابقانڈیا میں گِدھوں کی تعداد میں کمی پرندوں کی نسل میں سب سے تیزی سے ریکارڈ کیکی گئی کمی ہے اور یہ امریکہ میں مسافر کبوتروں کے معدوم ہونے کے بعد سب سے بڑیکمی سمجھی جا رہی ہے۔

یہ مسلسل کمی خاص طور پر تشویش کا باعث ہے کیونکہ گِدھوں کی کمی نے انسانی فلاح و بہبود کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ اس لیےماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ جانوروں کی ادویات اب بھی گِدھوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔

کیا گِدھ واپس آئیں گے؟ یہ کہنا مشکل ہے، اگرچہ کچھ امید افزا علامات موجود ہیں۔ پچھلے سال مغربی بنگال کے ایک ٹائیگر ریزرو سے 20 گِدھوں کو رہا کیا گیا تھا جنھیں قید کرکے سیٹلائٹ ٹیگ لگائے گئے تھے اور بچایا گیا تھا۔

جنوبی انڈیا میں حالیہ سروے میں 300 سے زیادہ گِدھ وں کو ریکارڈ کیا گیا لیکناس حوالے سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.