مجدل شمس: گولان کی پہاڑیوں کا مقبوضہ علاقہ جس کے باعث حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ چِھڑنے کا خدشہ ہے

حزب اللہ نے مقبوضہ گولان ہائٹس کے علاقے مجدل شمس پر حملے کے الزام کی تردید کی ہے۔ تاہم اسرائیل کا اصرار ہے کہ یہ حملہ لبنانی مسلح گروہ نے ہی کیا ہے جس میں 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔اسرائیل نے اس حملے کے انتقام کا بھی عندیہ دیا ہے۔
مجدل شمس، اسرائیل
Getty Images
فٹبال گراؤنڈ میں میزائل گرنے کے سبب 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں

حزب اللہ نے مقبوضہ گولان ہائٹس کے علاقے مجدل شمس پر حملے کے الزام کی تردید کی ہے۔ تاہم اسرائیل کا اصرار ہے کہ یہ حملہ لبنانی مسلح گروہ نے ہی کیا ہے جس میں 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

اسرائیل نے اس حملے کے انتقام کا بھی عندیہ دیا ہے۔

امریکی حکام نے امریکی نیوز ویب سائٹ ایگزیوس کو بتایا ہے کہ انھیں ڈر ہے کہ مجدل شمس میں ہونے والا حملہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ’باقاعدہ جنگ‘ چھڑنے کا باعث بن سکتا ہے۔

امریکی حکام کو تشویش ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان ممکنہ جنگ سے علاقائی بحران میں اضافہ ہوگا اور اس تنازع میں امریکہ کے مزید دھنسنے کا باعث بنے گا۔

امریکی حکام کا مزید کہنا ہے کہ ’امریکہ تقریباً 10 مہینوں سے اس صورتحال سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

حماس نے گذشتہ برس 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا اور اس کے بعد سے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔

مجدل شمس میں پیش آنے والے واقعات کے بعد اقوامِ متحدہ کے عہدیداران نے کہا ہے کہ اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر فائرنگ کے تبادلے سے یہ خطہ ’تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انھوں نے اپیل کی ہے کہ دونوں قریقین اس معاملے پر ’انتہائی برداشت‘ کا مظاہرہ کریں۔

اس سے قبل اسرائیل فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مقبوضہ گولان ہائٹس کے ایک دیہات، جہاں دروز برادری آباد ہے، کے ایک فٹبال گراؤنڈ میں میزائل گرنے کے سبب 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 30 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری نے اس واقعے کی ذمہ داری حزب اللہ پر عائد کی تھی اور اس حملے کو 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل پر ہونے والا سب سے ’خطرناک حملہ‘ قرار دیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے دعوے پر حزب اللہ نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ اس حملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

دوسری طرف امریکی عہدیدار کا دعویٰ ہے کہ حزب اللہ کے رہنماؤں نے اقوامِ متحدہ کو بتایا ہے کہ فٹبال گراؤنڈ میں دھماکہ اسرائیل اینٹی میزائل شیل گرنے سے ہوا ہے۔ تاہم اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کے دعوے کی تردید کردی ہے۔

سفارتکاروں کی جانب سے جنگ کے خدشات سے بچنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لبانی وزیر خارجہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حکام نے حزب اللہ سے ’جوابی کارروائی نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔‘ تاہم لبانی حکومت کا حزب اللہ پر محدود اثر و رسوخ ہے جسے امریکہ، برطانیہ اور دیگر کی جانب سے دہشتگرد تنظیم سمجھا جاتا ہے۔

ادھر اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جنگ سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی 2006 کی قرارداد پر عمل کرایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ سفارتی سطح پر جنگ سے بچنے کی ’آخری کوششیں‘ کی جا رہی ہیں۔

مجدل شمس، اسرائیل
Reuters
حماس نے گذشتہ برس 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا اور اس کے بعد سے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں

مجدل شمس کہاں واقع ہے؟

مجدل شمس شام کے جنوب مغربی پہاڑی علاقے گولان ہائٹس میں واقع ایک پتھریلا علاقہ ہے جسے علاقائی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔

اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران اس علاقے پر قبضہ کیا تھا اور اب تک یہ علاقہ اس کے قبضے میں ہے۔ تاہم بین الاقوامی برادری گولان ہائٹس کو آج بھی شام کا ہی ایک حصہ قرار دیتی ہے۔

سنہ 1981 تک مجدل شمس کا علاقہ اسرائیل فوج کے زیرِ انتظام تھا۔ تاہم بعد میں اسرائیلی اسمبلی نے نئے قوانین منظور کیے اور اس علاقےکو مقامی کونسل سسٹم کا حصہ بنا دیا۔

امریکہ اسرائیل کے اس اقدام کو تسلیم کرنے والا دنیا کا واحد ملک ہے اور ایسا 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ہوا تھا۔

شامی دروز برادری اسرائیل کے زیرِ تسلط چار علاقوں میں رہتی ہے۔ لیکن مجدل شمس وہ علاقہ ہے جہاں دروز برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔

اسرائیل کے ادارہ شماریات کے مطابق 2022 میں مجدل شمس کی کُل آبادی 11 ہزار 458 ہے، جن میں اکثریت دروز برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔

اس علاقے میں کچھ مسیحی باشندے بھی آباد تھے لیکن 1940 اور 1950 کی دہائی میں وہ نقل مکانی کر گئے۔

شامی حکومت مجدل شمس کے رہائشیوں کو اب بھی شام کا شہری تصور کرتی ہے، جبکہ اسرائیل نے انھیں 1981 میں ملک کا مستقل شہری بننے کی پیشکش کی تھی۔۔

لیکن 2018 میں جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق اب تک مجدل شمس کے صرف 20 فیصد افراد نے اسرائیل کی شہریت کے لیے درخواست دی تھی۔

جو لوگ اسرائیل کی شہریت قبول کر رہے ہیں انھیں اسرائیلی انتخابات میں ووٹ دینے، الیکشن لڑنے اور اسرائیلی پاسپورٹ پر بیرونِ ملک سفر کرنے کی سہولیات ملتی ہیں۔

جن لوگوں نے اسرائیلی شہریت قبول نہیں کی انھیں اسرائیلی حکام کی جانب سے صرف ایک پاس جاری کیا جاتا ہے جس میں انھیں شامی شہری تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ صرف ’گولان ہائٹس کا شہری‘ قرار دیا جاتا ہے۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق گولان ہائٹس میں مقیم دروز برادری کے اب بھی شام سے قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی اخبار کے مطابق گولان ہائٹس کے چار علاقوں میں رہنے والے دروز باشندوں کی کُل تعداد تقریباً 21 ہزار ہے۔

اسرائیل کی وزارتِ داخلہ کے مطابق ان میں سے صرف 4 ہزار 300 افراد نے اسرائیل کی شہریت اختیار کی ہے۔

سنہ 2018 کے مقامی انتخابات میں مجدل شمس کے صرف 272 شہریوں نے ووٹ ڈالے تھے، جبکہ اس علاقے کی کُل آبادی تقریباً 12 ہزار ہے۔

مجدل شمس، اسرائیل
Reuters
سنہ 2018 کے مقامی انتخابات میں مجدل شمس کے صرف 272 شہریوں نے ووٹ ڈالے تھے

’گولان ہائٹس کو کسی شناخت کی ضرورت نہیں‘

سنہ 2018 میں دروز برادری سے تعلق رکھنے والے وکلا نے اسرائیلی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ مقامی حکومتوں کے لیے کروائے جانے والے انتخابات میں دروز برادری کو اپنے نمائندے خود چُننے کی اجازت دی جائے۔

اس سے قبل مجدل شمس میں مقامی حکومت کے نمائندوں کی تقرری ایک الگ نظام کے تحت ہوتی تھی۔

اسرائیلی سپریم کورٹ نے دروز برادری کے وکلا کی درخواست قبول کرلی تھی اور اسرائیل نے ان کے علاقوں میں بھی باقاعدہ انتخابات کروانے کا اعلان کیا تھا۔

اس اقدام کے سبب دروز برادری کے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ اسرائیل اس اقدام کا استعمال کرتے ہوئے گولان ہائٹس کے علاقے کو قانونی طور پر ملک کا حصہ قرار دینے کی کوشش کرے گا۔

ان افراد میں مجدل شمس کے رہائشی بھی شامل تھے جنھوں نے اس اقدام پر غصے کا اظہار کیا تھا۔ میونسپل انتخابات کے موقع پر علاقے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامی جھنڈے لیے پولنگ سٹیشنز کے باہر جمع ہوگئے تھے تاکہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکے۔

اس احتجاج کے دوران اسرائیلی پولیس نے پولنگ سٹیشنز کو ووٹرز کے لیے کھولے رکھا اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس بھی فائر کی۔

اس موقع پر مظاہرین نے نعرے لگائے ’ہم خونی رشتے سے شام کے ساتھ جُڑے ہیں، ہم انضام کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں‘۔ اس موقع پر ان کے ہاتھوں میں بینرز بھی تھے جن پر لکھا تھا کہ ’گولان شام کا حصہ ہے، اسے کسی اور شناخت کی ضرورت نہیں۔‘

مجدل شمس میں پُرتشدد واقعات کی تاریخ

جون 2015 میں شام میں خانہ جنگی کے دوران مجدل شمس سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسرائیل کی دو فوجی ایمبولینسز پر حملہ کردیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایمبولینسز شامی صدر بشار الاسد کے مخالف گروہ کے اراکین کو لے کر جا رہی تھیں۔

اس وقت اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں ایک زخمی فرد ہلاک ہوگیا تھا۔

مارچ 2019 میں دروز برادری کے سینکڑوں افراد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے گولان ہائٹس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

اس احتجاج کے دوران کسی بھی ممکنہ پُرتشدد واقعے کو روکنے کے لیے علاقے میں اسرائیلی سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔

مجدل شمس، اسرائیل
AFP
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق گولان ہائٹس میں مقیم دروز برادری کے اب بھی شام سے قریبی تعلقات ہیں

ستمبر 2019 میں اسرائیلی پولیس نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے درجنوں دروز باشندوں کو سرحد پار کرکے شام میں داخل ہونے سے روکا ہے کیونکہ وہ وہاں شامی حکام سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیل نے اس معاملے پر جامع تحقیقات کی تھی اور دروز باشندوں کے ایک گروہ کو گرفتار کیا تھا۔ اسرائیل دروز برادری کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ اس طرح کے اقدامات سے اسرائیل اور اس کے شہریوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

فلسطینی نیوز ایجنسی وافا کے مطابق اپریل 2023 میں اس علاقے میں ایک تحریک بھی چلی تھی۔ علاقہ مکینوں کا دعویٰ تھا کہ اسرائیل نوجوان جوڑوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق درجنوں دروز باشندوں نے مقامی حکومت کی عمارت کے باہر مظاہرہ کیا تھا اور اسرائیل کے ان اقدامات کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔

جون 2023 میں اسرائیل وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ہوا سے بجلی بنانے کا منصوبہ اس وقت معطل کر دیا تھا جب دروز باشندوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور ان کی اسرائیلی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں۔ دروز برادری کا دعویٰ تھا کہ اسرائیل ان کی زمین پر زرعی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنے قبضے کو مزید مضبوط کر سکے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.