سی وی میں ایسا کیا ہو کہ آپ اے ٹی ایس سافٹ ویئر کے چنگل سے بچ جائیں

ہم میں سے کئی لوگ اپنی برسوں پرانی سی وی درجنوں جاب پوسٹوں پر بھیج دیتے ہیں، یہ سمجھے بغیر کہ ہر نوکری کے اشتہار میں ایک کمپنی کچھ مخصوص خوبیاں مانگتی ہے۔ جبکہ اکثر بڑی کمپنیاں اب مصنوعی ذہانت پر چلنے والے سافٹ ویئرز کے ذریعے امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرتی ہیں، جسے اے ٹی ایس کہا جاتا ہے۔
Students
Getty Images

کراچی سے تعلق رکھنے والی ارم احسن علی پاکستانی نوجوانوں کو ملک کے اندر اور بیرون ملک ان کی ’ڈریم جاب‘ حاصل کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔

چار سال سے ریزیومے، کوور لیٹر اور لنکڈ اِن سروسز مہیا کرنے والی ارم کو لگتا ہے کہ اکثر امیدوار اچھی تعلیم اور تجربے کے باوجود اپنی سی وی کو جدید تقاضوں کے مطابق نہیں بنا پاتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ایک ریکروٹر کے پاس کسی سی وی کو دیکھنے کے لیے صرف سات سیکنڈ ہوتے ہیں‘ اور ایسے میں اکثر امیدوار اپنی تمام تر مہارت کے باوجود صرف غیر متاثر کن سی وی بنانے کی وجہ سے ریجیکٹ ہوجاتے ہیں۔

ارم اپنے کلائنٹ حمزہ کی مثال دیتی ہیں جنھیں ’70 کمپنیوں میں اپلائی کرنے کے باوجود کوئی نوکری نہیں مل پا رہی تھی۔‘

یہ مسئلہ صرف حمزہ کے ساتھ نہیں۔ ہم میں سے کئی لوگ اپنی برسوں پرانی سی وی درجنوں جاب پوسٹوں پر بھیج دیتے ہیں، یہ سمجھے بغیر کہ ہر نوکری کے اشتہار میں ایک کمپنی کچھ مخصوص خوبیاں مانگتی ہے۔ جبکہ اکثر بڑی کمپنیاں اب مصنوعی ذہانت پر چلنے والے سافٹ ویئرز کے ذریعے امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرتی ہیں، جسے اے ٹی ایس کہا جاتا ہے۔

ارم اب سی وی رائٹنگ کے اس شعبے سے وابستہ ہیں جو گذشتہ کچھ برسوں کے دوران ابھرا ہے۔ مثلاً اگر آپ لنکڈ، انسٹاگرام یا ٹک ٹاک پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے انفلوئنسرز ملتے ہیں جو لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ’یہ چیزیں اپنی سی وی میں کبھی بھی مت لکھیں۔‘

ان کے مطابق لوگوں کو یہ سکھانا مقصود ہے کہ سی وی بناتے وقت ایسی کون سی چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ کمپنیاں آپ کی پروفائل سے متاثر ہوتے ہوئے ایک موقع ضرور دیں۔

ارم احسن علی
BBC

وہ سافٹ ویئر جو آپ کو بھرتی کے پہلے مرحلے میں ہی مسترد کر سکتا ہے

دنیا بھر میں اب کئی کمپنیاں ملازمین کی بھرتی کے لیے مخصوص سافٹ ویئرز کا استعمال کرتی ہیں۔

ایپلیکنٹ ٹریکنگ سسٹم (اے ٹی ایس) کہلائے جانے والے یہ سافٹ ویئرز آسان لفظوں میں امیدواروں کی سی ویز کی چھانٹی کرتے ہیں۔ متعدد مراحل کے دوران یہی سافٹ ویئر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ایک امیدوار شارٹ لسٹ کیا جائے گا یا اسے ریجیکشن ای میل بھیجنی ہے۔

کسی اچھی نوکری کے لیے آن لائن اپلائی کرتے ہوئے امیدواروں کو مختلف سوالوں کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنی سی وی بھی اپ لوڈ کرنی ہوتی ہے۔

ان سافٹ ویئرز کے ذریعے ہائرنگ مینیجرز کی زندگیاں آسان ہوجاتی ہیں جنھیں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں سی ویز بھیجی جاتی ہیں۔

اگر بنیادی سطح پر دیکھا جائے تو یہ سافٹ ویئر کسی امیدوار کی تعلیم، تجربے اور دیگر عوامل کی بنیاد پر ان کی جانچ کرتے ہیں۔ وہ کسی سی وی میں ان الفاظ اور اصطلاحات کو ڈھونڈتے ہیں جو کسی اسامی کے لیے ضروری قرار دیے گئے ہیں۔

ان جدید سافٹ ویئرز میں بعض اوقات مصنوعی ذہانت اور ایلگوردم کا استعمال کیا جاتا ہے جو کسی کی سی وی سکین کر کے یہ تعین کرتے ہیں کہ آیا کسی امیدوار کو دوسروں پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔

اگر روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں سی ویز موصول کرنے والے ایک مینیجر کی نظر سے دیکھا جائے تو اے پی ایس کسی نعمت سے کم نہیں۔

فہد احمد اس وقت ایک ٹیکنالوجی کمپنی میں کام کرتے ہیں اور ان کا بنیادی مقصد دنیا بھر سے آئی ٹی کا ٹیلنٹ تلاش کرنا ہے۔ وہ بی بی سی اردو کو بتاتے ہیں کہ اے پی ایس کے ذریعے ایچ آر (ہیومن ریسورس) کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔

ان کے مطابق امیدواروں کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایچ آر اپنا ڈیٹا بیس انھی سافٹ ویئرز میں سٹور کرتا ہے۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ اگر سیلز سے متعلق کسی نوکری پر جتنے بھی لوگ اپلائی کریں گے تو یہ سارا ڈیٹا اے ٹی ایس پر چلا جاتا ہے۔ ’وہاں سے ایچ آر کے لوگ ان سی ویز کا جائزہ لیتے ہیں۔ اے ٹی ایس اس ڈیٹا کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے فلٹر آؤٹ کر کے آسان بنا دیتا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اے ٹی ایس مصنوعی ذہانت کے ذریعے ’سکل میچنگ‘ یا ’ورڈ میچنگ‘ کرتا ہے۔ یعنی جاب پوسٹ اور سی ویز کا موازنہ کر کے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کون سے امیدوار اس نوکری کے لیے موزوں ہوں گے۔

مگر یہ واضح ہے کہ اے ٹی ایس ابتدائی مراحل میں ہزاروں سی ویز میں سے بہترین امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرتا ہے اور اگر کسی امیدوار کی پروفائل ان تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی تو انھیں پہلے پہل ہی ریجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔

اے ٹی ایس
Getty Images
سی وی
BBC

امیدواروں کی ایسی غلطیاں جن کی وجہ سے انھیں اپنی پسند کی نوکری نہیں مل پاتی

24 سال سے ایجوکیشن کے شعبے سے وابستہ عابدہ نصیراب گذشتہ کئی سال سے فائیور پر بطور فری لانسر لوگوں کو اپنی سی وی بہتر کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ امیدوار اکثر یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ سی وی میں اپنی ایک بڑی سی تصویر لگا دیتے ہیں یا پھر رابطے کے خانے میں اپنے گھر کا پتہ لکھ دیتے ہیں۔ کچھ امیدوار ہوبیز یا مشاغل کے نام پر غیر ضروری معلومات دے دیتے ہیں۔

عابدہ کا کہنا ہے کہ کئی امیدوار فارمیٹنگ اور فونٹ کی بنیادی غلطی کرتے ہیں جس میں بعض اوقات کسی سافٹ ویئر کے لیے اسے پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔

ان کے مطابق بعض امیدواروں کو اس حوالے سے بھی آگاہی نہیں ہوتی کہ انھوں نے پہلے اپنی موجودہ نوکری کے بارے میں بتانا ہے اور اس کے بعد پرانی نوکری کا ذکر کرنا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ اگر آپ اپنی سی وی میں بڑی سی تصویر، جو کہ عموماً سیلفی ہوتی ہے، لگاتے ہیں تو اسے بالکل پروفیشنل نہیں سمجھا جاتا۔ یعنی نہ سافٹ ویئر یا ایچ آر کی جانب سے اسے ہرگز شارٹ لسٹ نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کسی بھی ایچ آر کے پاس آپ کی سی وی دیکھنے کے لیے چند سیکنڈز کا ہی وقت ہوتا ہے۔

فہد احمد نے بھی پاکستانی امیدواروں کی سی ویز میں کئی مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ مگر ان کے مطابق اس کی تصحیح ممکن ہے۔

فہد کے مطابق امیدواروں کو کسی جاب پوسٹ میں موجود الفاظ اور اصطلاحات کی نشاندہی کرنی چاہیے اور اپلائی کرنے سے قبل ان چیزوں کو اپنی سی وی میں ڈالنا چاہیے۔

’ایک ایچ آر اس چیز سے متاثر ہوتا ہے کہ آپ نے وقت نکال کر اپنی سی وی میں ان چیزوں کو تذکرہ کیا ہے جس کی انھیں ضرورت ہے۔ اس سے کسی امیدوار کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور سنجیدگی بھی ظاہر ہوتی ہے۔‘

اگرچہ اب مصنوعی ذہانت کے ذریعے سی وی بنانا قدرے آسان ہوچکا ہے تاہم فہد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اپنی پروفائل میں صرف وہی چیز شامل کی جانی چاہیے جو امیدوار کی تعلیم اور تجربے میں شامل ہو۔ ’ہوسکتا ہے کہ آپ کوئی چیز شامل کر دیں جو آپ کی صلاحیت ہو مگر وہ چیز بعد میں انٹرویو میں نظر نہ آئے۔‘

دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے پاکستان سے ٹیلنٹ ڈھونڈنے والے فہد کہتے ہیں کہ تعلیم اور تجربے کے باوجود کئی امیدوار سیلیکٹ نہیں ہو پاتے اوراس کا بنیادی تعلق کمیونیکیشن سے ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ممکن ہے کہ تکنیکی اعتبار سے آپ بہترین ہوں مگر کمیونیکیشن بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اگر آپ اپنی بات سمجھا ہی نہیں پائیں گے تو میرا نہیں خیال کہ آپ عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں گے۔‘

فہد کے مطابق پاکستانی نوجوانوں میں قابلیت اور پوٹینشل ہے تاہم امیدواروں کو ’زبان اور پروفیشنلزم پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

سی وی میں تعلیمی قابلیت کے حوالے سے کیا لکھنا چاہیے، اس حوالے سے بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ عابدہ کہتی ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ 50 فیصد سے زیادہ حصے پر اپنی تعلیم کے بارے میں لکھ دیں۔ وہ یہاں تک کہتی ہیں کہ گریجویشن سے پہلے کی تعلیم لکھنا بھی ضروری نہیں ہے۔

جبکہ ارم احسن علی کی تجویز ہے کہ امیدواروں کو اپنے پیشہ ورانہ سفر میں اُن کامیابیوں کا ذکر کرنا چاہیے جو انھیں ممتاز بناتی ہوں، جیسے ایسا کوئی پراجیکٹ جس میں ان کی نمایاں کارکردگی رہی ہو۔

سی وی
BBC

آپ اپنی سی وی ’اے ٹی ایس فرینڈلی‘ کیسے بنا سکتے ہیں؟

امیدواروں کو یہ مان کر چلنا ہوگا کہ کسی اچھی کمپنی میں نوکری کے اشتہار پر ہزاروں لوگ اپنی سی وی بھیجتے ہیں۔

یہ کسی کمپنی کے لیے ممکن نہیں کہ ایک، ایک سی وی کھول کر دیکھی جائے۔ لہذا انھی سافٹ ویئرز پر انحصار کرنا پڑتا ہے تاکہ کام آسان ہوجائے۔

ماہرین یہ تجویز دیتے ہیں کہ ’اے ٹی ایس فرینڈلی‘ سی وی میں آپ سادہ ڈیزائن، فونٹ اور فارمیٹ استعمال کرتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی تصویر، ٹیبل یا گراف شامل نہیں کیے جاتے۔

یہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ امیدواروں کو اپنی سی وی میں مختصر سیکشنز بنا کر ان میں صرف متعلقہ معلومات لکھنی چاہیے۔

عابدہ کا کہنا ہے کہ ’آپ نے جاب ایڈ پڑھنا ہے اور وہاں سے کچھ کی ورڈز اپنی سی وی میں شامل کرنے ہیں تاکہ سافٹ ویئر کے لیے اسے شارٹ لسٹ کرنا آسان ہو۔

’اگر آپ کے پاس پانچ سال کا تجربہ ہے جس کا تقاضہ جاب کے ایڈ میں بھی کیا گیا ہے تو اس کا وہاں لازمی ذکر کریں۔۔۔ آپ نے کوشش کرنی ہے کہ ان بنیادوں پر آپ کا سکور کم نہ ہو۔‘

یعنی اگر آپ جاب ایڈ کے مطابق اپنی سی وی کو ڈھال لیں گے تو یہ اے ٹی ایس فرینڈلی ہو جائے گی اور آپ کے شارٹ لسٹ ہونے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔

عابدہ کے بقول یہ ایک غلط فہمی ہے کہ سی وی جتنی لمبی ہوگی، اس سے ’اچھا امپریشن جائے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’کسی ٹیمپلیٹ میں بنائی گئی نیلی پیلی سی وی نان اے ٹی ایس ہوجاتی ہے کیونکہ اے ٹی ایس کے سافٹ ویئر عموماً بہت سادہ سی وی کو باآسانی پڑھ پاتے ہیں۔‘

دوسری طرف فہد کا مشورہ ہے کہ امیدوار اپنی سی وی میں آسان اور سادہ فارمیٹ استعمال کریں۔ اسے ’رنگ برنگا نہ بنائیں‘ اور اسے کچھ اس طرح ترتیب دیں کہ اسے سمجھنا آسان ہو۔ اس میں عام فونٹ استعمال کریں جو سسٹم سمجھ سکے۔

ان کے مطابق اے ٹی ایس ’فینسی چیزوں کو نہیں پڑھ پاتا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.