خواتین کا جنسی اعضا کی ظاہری شکل میں تبدیلی کے لیے کاسمیٹک سرجری کا بڑھتا رجحان جو خطرناک ہو سکتا ہے

گذشتہ دو سالوں میں ’وجائنل ریجوینیشن‘ سے گزرنے والی خواتین کی تعداد میں بھی 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اصطلاح ان طریقہ کار کے لیے استعمال ہوتی ہے جو سرجیکل یا غیر سرجیکل ہوسکتے ہیں۔
’وجائنل ریجوینیشن‘
Getty Images

دنیا کے کئی ممالک میں ولوا کی ظاہری شکل کو تبدیل کرنے کے لیے سرجری کروانے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ انٹرنیشنل سوسائٹی آف ایستھیٹک پلاسٹک سرجری (آئی ایس اے پی ایس) کے ایک سروے کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں دنیا بھر میں لیبیاپلاسٹی سرجریز میں 33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ ایک ایسا طریقہ کار جسے نمفلاسٹی کہا جاتا ہے اور لیبیا مائنورا (ولوا کا اندرونی حصہ) کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

گذشتہ دو سالوں میں ’وجائنل ریجوینیشن‘ سے گزرنے والی خواتین کی تعداد میں بھی 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اصطلاح ان طریقہ کار کے لیے استعمال ہوتی ہے جو سرجیکل یا غیر سرجیکل ہوسکتے ہیں۔

ان میں وجائنہ کے بیرونی حصوں کے سائز کو کم کرنا اور سکیڑنا بھی شامل ہے۔

آئی ایس اے پی ایس نے یہ بھی رپورٹ کیا ہے کہ گذشتہ دو سالوں سے برازیل میں ان سرجریز میں سرفہرست ملک رہا ہے جسے’وجائنل سرجری‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ طریقہ کار ولوا پر انجام دیے جاتے ہیں جو خواتین کے جنسی اعضا کابیرونی حصہ ہے۔

برازیلین سوسائٹی آف پلاسٹک سرجری (ایس بی سی پی) کی رکن سرجن ریناٹا ماگلہیس کہتی ہیں کہ ’برازیل کی خواتین اپنی ظاہری شکل کے بارے میں فکرمند ہیں اور ثقافتی طور پر وہ پلاسٹک سرجری کا سہارا لینے کی طرف زیادہ مائل ہیں۔‘

ان طریقوں کے عروج نے کچھ لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کیا ہے کہ یہ خواتین پر جمالیاتی دباؤ کی ایک اور شکل ہے جو ولوا کے مبینہ مثالی سائز، شکل اور رنگ کو ظاہر کرتی ہے۔

ایک آسٹریلوی مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ پورنوگرافی اور سوشل میڈیا پر اس سے متعق تلاش بھی اس رویے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

طبی کارکن اور مریض جو اس عمل سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ غیر مطمئن لوگوں کو بہتر محسوس کروانے کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے حالانکہ وہ یہ بھیتسلیم کرتے ہیں کہ ’کامل‘ ولوا محض ایک افسانہ ہے۔

برطانوی پبلک ہیلتھ سسٹم این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ ’وجائنا کے کھلنے کے آس پاس جلد کی پرتیں نظر آنا بالکل نارمل بات ہے‘ جس میں یہ بھی خبردار کیا گیا ہے کہ لیبیاپلاسٹی کے خطرات ہیں اور’ضروری نہیں کہ اس کے نتیجے میں جسم کے ساتھ بہتر مطابقت قائم ہو۔‘

’وجائنل ریجوینیشن‘
Getty Images

یہ سرجریکیسے ہوتی ہے؟

آئی ایس اے پی ایس کے مطابق لیبیاپلاسٹی خواتین کے جنسی کاسمیٹک سرجری کی سب سے عام قسم ہے اور دنیا بھر میں نوجوانوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی کاسمیٹک طریقہ کار میں سے ایک ہے۔

یہ سرجری لیبیا مائنورا کو نئی شکل دیتی ہے جو وجائنل اوپننگ کے دونوں طرف جلد کی تہہ ہے جسے عام طور پر وجائنل لپس کہا جاتا ہے۔

این ایچ ایس نے متنبہ کیا ہے کہ یہ عمل 18 سال سے کم عمر لڑکیوں پر نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ بلوغت کے بعد بھی اس جگہ کی نشوونما ہوتی ہے۔

ایس بی سی پی سے تعلق رکھنے والی سرجن ریناٹا ماگلہیس کے مطابق لیبیاپلاسٹی کی سفارش ان لوگوں کے لیے کی جا سکتی ہے جو حفظان صحت کے بارے میں خدشات کا شکار ہیں اور جنسی تعلقات کے دوران مشکلات کا سامنا کرتے ہیں یا جو صرف اپنی ظاہری شکل تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر کے مطابق لیبیاپلاسٹی کے علاوہ دس سے زائد اقسام کے سرجیکل پروسیجرز بھی ہیں جو خواتین کے جنسی اعضاپر کیے جا سکتے ہیں۔

ماگلہیس کا کہنا ہے کہ زیادہ تر سرجریوں کا مقصد کاسمیٹک ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کا ایک اہم عملی فائدہ ہے کیونکہ خواتین کی جنسیت کا خود اعتمادی سے قریبی تعلق ہے۔

’کچھ مریضوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے تنگ پتلون یا لیس والی انڈر ویئر پہننے کے دوران درد، یا پچھلی سرجری کے بعد مسائل‘۔

وہ اب 15 سال سے یہ سرجریز انجام دے رہی ہیں۔ ان کے مطابق ’اضافی جلد کو ہٹانے سے مخصوص اور نایاب حالات میں بدبو اور حفظان صحت میں دشواری جیسے مسائل کو کم کیا جاسکتا ہے۔‘

پورنو گرافی اور سوشل میڈیا

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا میں پانچ لاکھ سے زائد افراد لیبیاپلاسٹی سے گزر چکے ہیں یا کروانے پر غور کر چکے ہیں۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ویمن ہیلتھ وکٹوریہ کی جانب سے جون میں شائع ہونے والی لیبیا ڈائیورسٹی سٹڈی میں 1030 خواتین اور 18 سے 50 سال کی عمر کے لوگوں کے سروے کے اعداد و شمار شامل کیے گئے تھے۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’پورنوگرافی اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو وجائنل لیبیا سرجری سے گزر رہے ہیں یا ان پر غور کر رہے ہیں، تصاویر اور ویڈیوز اس تاثر کو مسخ کر رہی ہیں کہ خواتین کے جنسی اعضا کو کیسا ہونا چاہیے۔‘

آئی ایس اے پی ایس کے مطابق 2019 کے مقابلے میں 2023 میں دنیا بھر میں لیبیاپلاسٹیز کی تعداد میں 14.8 فیصد اضافہ ہوا۔

این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ اس عمل سے گزرنے کے فیصلے پر احتیاط سے غور کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ’مہنگا ہوسکتا ہے اور اس میں متعدد خطرات شامل ہیں‘۔

برٹش ہیلتھ سروس نے خبردار کیا ہے کہ لیبیاپلاسٹی بعض اوقات خون بہنے، انفیکشن، ٹشوزپر زحم کے نشاننات اور جنسی حسّاسیت میں کمی کا سبب بن سکتی ہے، ساتھ ہی رگوں میں خون کے لوتھڑے بننے یا اینستھیسیا سے الرجی کے رد عمل کا خطرہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔

این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آپ کو وہ نتائج ملیں گے جس کی آپ توقع کر رہے تھے اور ضروری نہیں کہ سرجری کے بعدآپ اپنے جسم کے بارے میں بہتر محسوس کریں۔

’کچھ عورتیں لیبیاپلاسٹی چاہتی ہیں کیوں کہ انھیں اپنے لیبیا کی شکل پسند نہیں ہے۔ تاہم، وجائنا کے کھلنے کے آس پاس جلد کی تہہ ہونا ایک معمول کی بات ہے۔‘

’وجائنل ریجوینیشن‘
Getty Images

’تمام والوا نارمل ہیں‘

ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ’مثالی‘ یا ’کامل‘ ولوا جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔

برطانیہ کے رائل کالج آف اوبسٹیٹریشنز اینڈ گائناکالوجسٹ کی ڈاکٹر بیرن تیزکن کہتی ہیں کہ ’ولوا ہر عورت کے لیے منفرد ہے۔ کوئی بھی ولوا شکل، سائز، رنگ یا ظاہری شکل میں دوسرے جیسا نہیں ہوتا۔‘

’میں ان خواتین کا بات نہیں کر رہی جن میں کوئی تبدیلی یا خرابی ہے۔ میں کہتی ہوں کہ تمام ولوا نارمل ہیں، بالکل اسی طرح جیسے بڑی چھاتیاں ہیں جنہیں کچھ خواتین کم کرنا چاہتی ہیں اور چھوٹی چھاتیاں جنہیں کچھ لوگ بڑھانا چاہتے ہیں۔ میں ہمیشہ اس بات پر زور دیتی ہوں کہ تمام ولوا نارمل ہیں۔ سرجری کے ساتھ ہمارا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ایک غیر مطمئن شخص مطمئن ہوجائے۔‘

وہ کہتی ہیں ’جب میرے مریض اس خوف سے میرے پاس آتے ہیں کہ ان کے ولوا میں کچھ نارمل نہیں ہے اور میں انھیں بتاتی ہوں کہ یہ بالکل نارمل ہے اور ان کے جسم میں کچھ بھی غلط نہیں ہے تو ان میں سے 90فیصد راحت محسوس کرتے ہیں۔‘

دنیا بھر میں اس طریقہ کار میں اضافے کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض ممالک میں خواتین کو رہنمائی کے لیے قابل اعتماد گائناکالوجسٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

مثال کے طور پر ایران میں خواتین کی جنسی صحت کو اب بھی ممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے خواتین میں جنسی اعضا کے بارے میں بحث باعثِ شرم ہو جاتی ہے۔

سوشل میڈیا پرایسی شکایات بھی ہیں کہڈاکٹروں کی جانب سے غیر پیشہ ورانہ تبصرے کیے جاتے ہیں جو مریضوں کے جسم کی ظاہری شکل کے بارے میں ہوتے ہیں اور یہ انھیں بے چین کردیتے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’میری ایک دوست کی لیبیا پلاسٹی تھی اور ہم نے اس سے پوچھا کہ اس کی سرجری کیوں کی گئی کیونکہ یہ بظاہر بہت تکلیف دہ تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کیوں کہ میری گائناکالوجسٹ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ میری لیبیا مائنورا اتنی خوفناک کیوں ہے۔ اس نے کہا’تمہاری لیبیا مائنورا اتنی بڑی اور بدصورت کیوں ہے؟ وجائنہ اتنی وسیع کیوں ہے؟ کیا آپکی زچگی فطری تھی؟‘ اور یہی وجہ ہے کہ میری سرجری ہوئی۔‘

’وجائنل ریجوینیشن‘
Getty Images

سوشل میڈیا کا کردار

برازیل میں فی الحال سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں ایسی پوسٹس نہیں ہیں جن میں جنسی اعضا کی سرجری کی حوصلہ افزائی کرنے والے اشتہارات موجود ہیں جبکہ دیگر ممالک میں ایسا مواد موجود ہے جو ’مثالی‘ ولوا اور وجائنا کی ترغیب دیتا ہے۔

اس تناظر میں ترکی سے تعلق رکھنے والے گائناکالوجسٹ مجدگل زیافولو کاراکا نے خواتین کو کسی بھی سرجری کے طریقہ کار پر غور کرنے سے پہلے اپنے جنسی اعضا کو بہتر طور پر جاننے اور اپنے جسم کو پُرسکون کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

ان میں سے کچھ پوسٹس اور ویڈیوز جنہیں لاکھوں صارفین نے دیکھا ہے ان میں بوُ اور ظاہری شکل کو تبدیل کرنے کے لیے خواتین کے جنسی اعضا کے لیے ٹِنٹ (رنگ) اور ہائی لائٹرز جیسی مصنوعات کے استعمال کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔

گائناکولوجسٹ ان مصنوعات کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ وجائنا کے پی ایچ کو تبدیل کرسکتے ہیں اور انفیکشن کا سبب بن سکتے ہیں۔

کاراکا نے خبردار کیا کہ ’وجائنا اور ولوا کے اپنے فلورا اور توازن ہوتا ہے اور ان میں کوئی بھی کیمیکل شامل کرنے سے اس کی ساخت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.