’اپنی جان بچانے آئے تھے مگر یہاں بار بار مر رہے ہیں‘: پاکستان چھوڑ کر نیپال جانے والے احمدی کس حال میں ہیں؟

انور حسین ان پاکستانی احمدیوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنا ملک چھوڑ کر ہندو اکثریتی ملک نیپال جانے کا فیصلہ کیا۔ مگر نیپال میں انھیں غیر قانونی پناہ گزین سمجھا جاتا ہے۔ انور بتاتے ہیں کہ وہ اپنی والدہ کی وفات سے قبل ملاقات کی آخری خواہش بھی پوری نہ کر سکے تھے۔

پاکستان کے شہر کراچی کے علاقے منظور کالونی کے سابقہ رہائشی انور حسین جب صبح اپنے بچے کو سکول چھوڑنے جا رہے ہوتے تھے تو پہلے اپنے اطراف کا بھرپور جائزہ لیتے تھے کہ کہیں ان کی یا ان کے بچے کی جان کو کوئی خطرہ تو نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کرنے سے پہلے اپنے اطراف میں دیکھا کرتا تھا کہ وہاں کوئی مسلح شخص تو موجود نہیں۔‘

لیکن پاکستان چھوڑنے کے ساتھ ہی ان کا ڈر بھی ختم ہو چکا ہے۔ وہ اب گذشتہ 11 برسوں سے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں رہتے ہیں۔

انور حسین عقیدے کے اعتبار سے احمدی ہیں جنھیں پاکستان کا آئین مسلمان تصور نہیں کرتا اور پاکستان میں موجود ان کی برادری پر حملے بھی اب معمول بن چکے ہیں۔

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے علاقے میں 14 سے 15 افراد کو ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے ’قتل کیا گیا تھا‘ اور وہ پاکستان میں اپنے شب و روز ’ڈر کے ماحول میں گزار رہے تھے۔‘

انور حسین اکیلے پاکستانی احمدی شہری نہیں جنھوں نے اپنا ملک چھوڑ کر ہندو اکثریتی ملک نیپال جانے کا فیصلہ کیا۔

اعداد و شمار کے مطابق برسوں سے 188 پاکستانی پناہ گزین کھٹمنڈو میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق احمدی برادری سے ہے۔

جبکہ نیپال میں احمدی کمیونٹی کے رہنماؤں کے مطابق ملک میں احمدی پناہ گزینوں کی تعداد 220 ہے۔

ان میں سے کئی احمدیوں کو نیپال کی حکومت غیرقانونی پناہ گزین تصور کرتی ہے۔

’یا اللہ، تو نے کیا کر دیا؟‘

گیارہ برس پہلے پاکستان چھوڑنے کے بعد انور حسین کی زندگی کو لاحق خطرات تو شاید ختم ہوگئے ہوں لیکن وہ اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑ آنے کی تکلیف آج بھی محسوس کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی نیپالی کو بتایا کہ سنہ 2016 میں وہ کھٹمنڈو میں اپنے کام میں مگن تھے اور موبائل فون میں انٹرنیٹ بند تھا کہ ان کی اہلیہ نے انھیں فون کر کے کہا کہ وہ پاکستان اپنی والدہ کو فون کرلیں۔

جیسے ہی انھوں نے پاکستان کال کی تو انور کے بہنوئی نے فون ان کی والدہ کے سینے پر رکھ دیا۔

انور بتاتے ہیں کہ ’سینے پر فون رکھے ابھی پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ میری والدہ چل بسیں۔‘

’میری بیمار والدہ پچھلے دو برسوں سے کہہ رہی تھیں کہ مجھ سے ملاقات کرنا ان کی زندگی کی آخری خواہش ہے۔ لیکن یہ بھی نامکمل رہ گئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ان کے مذہبی عقائد کے مطابق خُدا سے شکایت کرنے کو گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن ’میں کہتا ہوں یا اللہ، تو نے ہمارے ساتھ کیا کر دیا۔‘

’ہم رات بھر سو نہیں پاتے‘

کھٹمنڈو کے علاقے چکراپتھ میں ایک عبادت گاہ واقع ہے۔ ایک دوپہر بی بی سی کی ٹیم وہاں کمیونٹی کے کچھ رہنماؤں سے بات چیت کر رہی تھی کہ وہاں ایک نوجوان آ کر کھڑا ہو گیا۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ نوجوان انتظار کر رہا ہو کہ اسے کب بات کرنے کا موقع ملے گا۔

شاہد مقبول نامی نوجوان کہتے ہیں کہ ’میری بہن کو کینسر ہے۔ ہم رات بھر سو نہیں پاتے، میرے خاندان کے بہت سارے لوگ ڈپریشن کی دوائیں لیتے ہیں۔‘

یہ بات کر کے شاہد مقبول نے کہا کہ وہ ایک منٹ میں آتے ہیں اور پھر وہاں سے واپس چلے گئے۔

شاہد مقبول جب واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ہسپتال کی ایک فائل تھی۔ اس فائل کو پڑھنے کے بعد ہم ان کے ساتھ ان کے گھر چلے گئے۔

اس گھر میں بجلی نہیں تھی اور کمرے میں بھی اندھیرا تھا۔ یہاں موجود مریضہ کا نام فریدہ احمد تھا اور ان کے مطابق انھوں نے پاکستان میں اپنا گھر 9 جولائی 2013 کی رات کوچھوڑا تھا۔

وہ نیپال میں اپنے گھرانے کو پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا تھا کہ ہم یہاں اپنی جان بچانے آ رہے ہیں۔ لیکن ہم یہاں بار بار مر رہے ہیں۔‘

گھر چلانے کے لیے فریدہ کے شوہر اصغر کھٹمنڈو میں محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن اس سے ان کا گھر نہیں چل پا رہا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک دن ہمارے گھر میں کھانا پکتا ہے، دوسرے دن کچھ نہیں پکتا۔ ہم نے کئی راتیں بھوکا رہ کر گزاریں لیکن کسی کو اس بارے میں بتایا نہیں۔‘

وہ کمرے کے فرش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’سردیوں میں ہم یہاں سوتے تھے۔ ہمارے پاس جو بھی کپڑے تھے انھیں ہم اپنے بچوں کو سردیوں سے بچانے کے لیے استعمال کر لیتے تھے اور خود پوری رات ٹھٹھرتے ہوئے گزارتے تھے۔‘

فریدہ نے کینسر کی بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کچھ سالوں پہلے سرجری بھی کروائی تھی لیکن اب ایک بار پھر انھیں یہ بیماری تنگ کر رہی ہے۔

ڈاکٹر نے ایک بار پھر انھیں کیمو تھراپی تجویز کی ہے۔ سہمی ہوئی فریدہ کہتی ہیں کہ ’اگر مجھے کیمو تھراپی کے دوران کچھ ہو گیا تو میرے بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘

کھٹمنڈو میں پناہ گزینوں کے بچے سکول جاتے ہیں کیونکہ اقوام متحدہ کا ادارہ ’یو این ایچ سی آر‘ ان کی فیسیں ادا کرتا ہے۔

فریدہ کے مطابق ’سکول یہاں سے بہت دور ہے۔ صبح جب نیپالی بچوں کو گاڑیاں لینے آتی ہیں تو میرا چھوٹا والا بچہ کہتا ہے کہ یہ گاڑی اُسے کیوں نہیں لے کر جاتی؟ میں اس گاڑی کا کرایہ نہیں ادا کر سکتی۔‘

فریدہ کے برابر میں بیٹھی ایک اور خاتون اپنی پریشانیوں کا گِلہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ: ’جب ہمارے بچے چھوٹی چیزیں مانگتے ہیں تب بھی ہمیں بہانے بنانے پڑتے ہیں۔‘

’ہمارے تمام خواب مر چکے ہیں۔‘

فریدہ کہتی ہیں کہ ان کی ایک آخری خواہش ہے: ’میں اپنے بچوں کو ایک ایسی جگہ چھوڑنا چاہتی ہوں جہاں مجھے بھروسہ ہو کہ ان کا مستقبل محفوظ ہے۔‘

ان کے لیے وہ جگہ کینیڈا ہے لیکن دو مرتبہ کینیڈین ویزہ ملنے کے باوجود بھی ان کا خاندان نیپال سے کینیڈا نہیں جا سکا۔

نیپالی حکام کیا کہتے ہیں؟

نیپال کے قانون مطابق اگر کوئی شخص اپنے ویزہ کی مقررہ مدت سے زیادہ عرصے وہاں رُکتا ہے تو پھر وہ جُرمانہ ادا کیے بغیر ملک نہیں چھوڑ سکتا۔

ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد ہر شخص کو یومیہ آٹھ ڈالر (تقریباً 1 ہزار 73 نیپالی روپے) بطور جرمانہ ادا کرنے ہوتے ہیں۔

فریدہ کا خاندان یہ جُرمانہ ادا نہیں کر سکا اور اسی سبب دونوں مرتبہ ان کے کینیڈا کے ویزے ایکسپائر ہو گئے۔

نیپال میں حکام کے مطابق یو این ایچ سی آر نے انھیں 90 لوگوں کی ایک فہرست بھیجی ہے اور درخواست کی ہے کہ حکومت ان پر عائد جُرمانہ معاف کردے۔

نیپال میں گذشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے کابینہ کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ غیرملکی پناہ گزینی پر عائد جُرمانہ ختم کردیا جائے گا۔

لیکن نیپالی حکومت کو یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر انھوں نے یہ جُرمانہ مکمل طور پر ختم کر دیا تو ان کے ملک میں پناہ گزینوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔

کچھ حکام کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ بہت ہی متحرک انداز میں دیگر ملکوں سے پناہ گزینوں کو نیپال منتقل کر رہے ہیں۔

ایک پولیس افسر نے بی بی سی نیپالی کو بتایا کہ کچھ عرصے پہلے انھوں نے ایسے افراد کو گرفتار کیا تھا جنھوں نے لوگوں کو جھانسہ دیا کہ اگر وہ نیپال میں کچھ عرصے رہ لیتے ہیں تو انھیں کینیڈا، امریکہ یا یورپ بھجوایا جا سکتا ہے۔

پولیس افسر کے مطابق نیپال حکومت اس معاملے کی بھی کڑی نگرانی کر رہی ہے کہ پناہ گزینوں کی آڑ میں ملک میں انسانی سمگلنگ نہ بڑھے۔

نیپالی وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار نے بی بی سی نیپالی کو بتایا کہ ’ایک ہزار لوگوں پر عائد جُرمانہ معاف کرنا حکومت کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں، لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ مستقبل میں یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔‘

وزات کے ترجمان پرساد بھٹارائے کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک پناہ گزینوں کی گزرگاہ کے طور پر نہ استعمال نہ ہو۔

لیکن متعدد پناہ گزین ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وہ نیپال کو کسی اور ملک جانے کے لیے بطور گزرگاہ استعمال نہیں کر رہے۔

ایسے ہی ایک پاکستانی پناہ گزین خالد نور کہتے ہیں کہ ’ہم یہاں اپنی جانیں بچانے آئے ہیں، لیکن یہاں بھی ہمارے مسائل کا کوئی حل نہیں۔ ہمارے بچوں کے مستقبل تباہ ہوجائیں گے۔‘

نیپال کا محکمہ امیگریشن برسوں سے غیرملکیوں کو ملک سے بےدخل کر رہا ہے۔ محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل کوشہاری نرولا کے مطابق گذشتہ سات برسوں میں تقریباً تین ہزار غیرملکیوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔

یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افراد کی زندگیوں کو ان کے اپنے ممالک میں خطرات لاحق ہیں۔

پاکستان کے شہر لاہور سے نیپال آنے والے شہری محمود رشید نے اس حوالے سے ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی تھی، جس پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت کو غیرملکیوں کو ملک بدر کرنے سے روک دیا۔

محمود رشید 5 اپریل 2004 کو نیپال آئے تھے اور اگلے ہی دن انھوں نے وہاں پناہ لینے کے لیے درخواست دے دی۔

27 ستمبر 2006 کو ان کی درخواست قبول کرلی گئی اور انھیں نیپال میں رہنے کی اجازت مل گئی۔

انھوں نے عدالت میں دائر اپنی پٹیشن میں لکھا کہ وہ اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ نیپال آئے تھے کیونکہ پاکستان میں ان پر سُنی برادری نے تشدد کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے ان کی پٹیشن پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انسانی بنیادوں پر درخواست گزار کو واپس پاکستان نہیں بھیجا جا سکتا۔

بی بی سی نے پاکستانی شہریوں کے نیپال میں پناہ لینے کے حوالے سے بات کرنے کے لیے کھٹمنڈو میں پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

پناہ گزین نیپال کا انتخاب کیوں کر رہے ہیں؟

پاکستانی پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ نیپال ان کے لیے آسان انتخاب اس لیے ہے کیونکہ انھیں یہاں ویزا آن آرائیول یعنی آمد پر ویزا مل جاتا ہے۔

اس سے قبل پاکستان کے احمدی شہری اکثر سری لنکا کا رُخ کرتے تھے لیکن وہاں کی حکومت نے ’آن ارائیول ویزوں‘ کا اجرا بند کر دیا۔

دیگر ممالک کے مقابلے میں نیپال معاشی، مذہبی اور سیاسی طور پر پُرامن ملک ہے۔

نیپال میں احمدی برادری کے رہنما کہتے ہیں کہ کھٹمنڈو میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں برادری کے اراکین کی آخری رسومات ادا کی جا سکیں۔

مقامی رہنما سلیم احمد کہتے ہیں کہ نیپال میں مجموعی طور پر 10 ہزار سے 12 ہزار احمدی آباد ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی احمدی شخص کھٹمنڈو میں وفات پا جاتا ہے تو اس کی آخری رسومات ادا کرنے 130 کلومیٹر جانا پڑتا ہے۔

’سات سال قبل ایک پاکستانی احمدی پناہ گزین کی وفات ہوئی تھی ان کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے ضلع پارسا جانا پڑا تھا۔‘

ایک پاکستانی پناہ گزین یامین احمد سندھو کہتے ہیں کہ کھٹمنڈو میں ان کی والدہ کی وفات 2016 میں ہوئیاور ان کی خواہش کے مطابق ان کی لاش تدفین کے لیے پاکستان بھیجی گئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ والدہ کی میت کو پاکستان بھیجنے کے عمل میں سات دن لگے اور اس سلسلے میں پاکستانی سفارتخانے نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔

نیپال کے قانون کے مطابق غیرقانونی پناہ گزینوں کے ملک میں ملازمت کرنے پر پابندی ہے لیکن اکثر لوگ چھپ کر روزگار کما رہے ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں نیپالی شہریوں کے نام پر اپنے کاروبار چلا رہے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.