لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر اور ان کے رشتہ دار بحفاظت گھر واپس پہنچ گئے، آئی ایس پی آر

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر اور ان کے تین رشتہ دار بحفاظت گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق مغویوں کی رہائی میں قبائلی عمائدین نے اہم کردار ادا کیا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر اور ان کے تین رشتہ دار بحفاظت گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق مغویوں کی رہائی میں قبائلی عمائدین نے اہم کردار ادا کیا۔

لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر کو ان کے بھائیوں سمیت 28 اگست کو اغوا کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ کیسے پیش آیا تھا؟ اغوا ہونے والے فوجی افسر اور دیگر افراد کون ہیں؟ اور مغویوں کی رہائی کے لیے کیا مطالبات کیے گئے؟ بی بی سی نے متعلقہ حکام سمیت مقامی افراد سے بات چیت کر کے ان سوالوں کے جواب جاننے کی کوشش کی۔

28 اگست کی شام لگ بھگ چھ بجے کے قریب پاکستانی فوج کے آفیسر لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر اپنے والد کی تدفین کے بعد بھائیوں کے ہمراہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی مضافاتی تحصیل کلاچی کی ایک مسجد میں تعزیت کرنے والوں کے ساتھ موجود تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی فرد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کرنل خالد کا ارادہ تھا کہ وہ اگلی صبح یعنی جمعرات کو قل خوانی کے بعد واپس اسلام آباد روانہ ہو جائیں گے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں انسداد دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی کی جانب سے درج مقدمہ کے مطابق بدھ کو ’مسجد میں جب سب لوگ فاتحہ خوانی کے لیے بیٹھے تھے تو اس وقت مسلح افراد مسجد کے اندر داخل ہوئے اور آواز لگائی کہ بھاگنے کی کوشش نہ کریں۔‘

ایف آئی آر کے مطابق اس کے بعد کرنل خالد امیر، آصف امیر، فہد امیر اور ان کے ایک رشتہ دار ابرار کو اسلحے کی نوک پر مسجد کے باہر لے جایا گیا تھا۔

اس واقعے پر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے گنڈہ پور گروپ کے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ ہو چکا ہے۔

مبینہ طور پر انھی مغویوں کی بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئیں، جن میں ان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ’حکومت طالبان کے مطالبات مانے تاکہ ہمیں رہائی مل سکے۔‘

واضح رہے کہ کلاچی موجودہ خیبرپختونخوا وزیر اعلی علی امین گنڈاپور اور آئی جی پولیس اختر حیات خان کا بھی علاقہ ہے اور ایک جانب جنوبی وزیرستان تو دوسری جانب بلوچستان کی سرحد کے قریب ہی موجود ہے۔ صوبے کے جنوبی اضلاع میں حالیہ دنوں میں اغوا اور ڈکیتی جیسے جرائم سمیت شدت پسندی کے واقعات میں بھِی اضافہ دیکھا گیا۔

کلاچی
BBC
کلاچی، خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک مضافاتی تحصیل ہے

فوجی افسر اور ان کے بھائیوں کو کیسے اغوا کیا گیا؟

مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق کرنل خالد امیر سمیت دیگر افراد کو اغوا کرنے والوں کی تعداد 15 سے 16 تک بتائی گئی۔

اس ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’موجودہ حالات میں یہ اس علاقے میں دہشت گردی کی لہر کا ہی ایک واقعہ ہے۔ ایف آئی آر میں مدعی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ’ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں‘اور اس میں لکھا گیا کہ یہ کارروائی کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے گنڈہ پور گروپ کی ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ کرنل خالد اپنے والد کی وفات کے بعد آبائی علاقے میں ان کی تدفین کے لیے موجود تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔

موقع پر موجود مقامی افراد میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد تدفین کر دی گئی تھی اور اس کے بعد باہر سے آئے رشتہ دار اور مہمان واپس جا رہے تھے۔ کرنل خالد اور ان کے بھائی بھی مسجد میں موجود تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اتنے میں مسجد میں مسلح افراد داخل ہوئے اور ان بھائیوں کی طرف آئے تو انھوں نے کہا ’کیا بات ہے، یہاں آئیں آرام سے بات کرتے ہیں لیکن وہمسلح افراد کچھ نہیں سن رہے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اس دوران مسجد میں تعزیت کے لیے آنے والے کچھ لوگوں نے مسلح افراد کو روکنے کی بھی کوشش کی لیکن انھیں کلاشکوف کے بٹوں سے دور کر دیا گیا جس کے بعد تینوں بھائیوں اور ان کے ایک بھانجے کو ساتھ لے گئے۔‘

مقامی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر سوار تھے جن میں سے کچھ مسجد کے اندر داخل ہو گئے تھے اور کچھ باہر کھڑے رہے اور واردات کے بعد نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔

مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس مقام پر فوجی افسر کی موجودگی کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔

مقامی پولیس کے مطابق اس واقعے کے بعد ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں اور علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا لیکن ان کے مطابق اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ اغوا کار کس طرف گئے۔

تحصیل کلاچی میں اس واقعے کے بارے میں بی بی سی نے جن افراد سے رابطہ کیا ان کی اکثریت کا کہنا تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

مغوی کون ہیں؟

کلاچی سے خاندان کے چند افراد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مغویوں میں لیفٹیننٹ کرنل خالد، ان کے بھائی آصف خان جو اے سی کنٹونمنٹ بورڈ ہیں، ایک اور بھائی فہد خان جو ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کرتے ہیں، کے علاوہ ان کے ایک بھانجے شامل ہیں جو سکول میں پڑھاتے ہیں۔

ان فراد کے مطابق تینوں بھائی ایک سابق سکول استاد امیر خان کے بیٹے ہیں جن کے والد ایک ہی دن قبل اسی سال کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پا گئے تھے۔

بی بی سی کو بتایا گیا کہ یہ خاندان اسلام آباد میں ہی رہائش پذیر تھا اور امیر خان کی وفات کے بعد آبائی علاقے میں تدفین کے مقصد سے پہنچے تھے۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں کلاچی اور اس کے قریبی علاقوں میں ایسے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں سے ایک کے دوران ایک سیشن جج کو اغوا اور پھر رہا کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تین ججوں پر حملہ بھی کیا گیا تھا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے تھے لیکن ان کی حفاظت پر معمور دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

کلاچی کے قریب ہی واقع ہتھالہ کے مقام پر بھی حالیہ کچھ عرصے کے دوران ہی اقوام متحدہ کے ایک ذیلی دارے کی گاڑی پر فائرنگ بھی ہوئی تھی جبکہ قریبی علاقوں میں ایک اور واردات کے دوران ایک بینک کی دو گاڑیوں کو لوٹا گیا تھا۔

اس کے علاوہ کلاچی، دراب اور ٹانک میں اغوا کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز اور پولیس پر بھی متعدد حملے ہوئے ہیں۔

مغوی
BBC

مغویوں کی ویڈیوز: طالبان کے مطالبات جلد مان لیں

جمعرات کی شام سوشل میڈیا پر دو افراد کی الگ الگ ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن کے بارے میں بی بی سی کو مقامی افراد نے تصدیق کی کہ ان میں سے ایک میں لیفٹینینٹ کرنل خالد امیر نظر آ رہے ہیں جبکہ ایسی ہی ایک دوسری ویڈیو میں ان کے بھائی موجود ہیں تاہم بی بی سی ان ویڈیوز کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔

اس ویڈیو میں لیفٹینینٹ کرنل خالد امیر سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ دن کے وقت فلمائی جانے والی اس ویڈیو کے پش منظر میں سیاہ رنگ کا کپڑا نظر آتا ہے جبکہ دو افراد کو اسلحہ ہاتھوں میں لیے پشت پر کھڑے بھی دیکھا جا سکتا ہے تاہم ان افراد کے چہرے نہیں دیکھے جا سکتے۔

ان دونوں ہی ویڈیوز میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت ہم خیریت سے ہیں، حکومت کے ٹھکانوں سے دور آ چکے ہیں اور طالبان کی تحویل میں ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری حکومت اور حکام بالا سے درخواست ہے کہ وہ طالبان کے مطالبات جلد سے جلد مان لیں تاکہ ہمیں رہائی مل سکے۔

ان ویڈیوز میں ان مطالبات کا ذکر نہیں، جن سے ان کی رہائی کو مشروط کیا گیا تاہم ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ ان مطالبات میں تاوان کی رقم کے ساتھ ساتھ چند اہم طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ شامل ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.