خسرو: اپنے والد کے خلاف ناکام بغاوت کرنے والا شہزادہ جسے موت کے بعد ’شہید درویش‘ کا لقب دیا گیا

تزکِ جہانگیری کے مطابق شاہی حکم تھا کہ ’باغ مرزا کامران سے قلعہ لاہور تک دو رویہ لکڑیاں نصب کرکے شورش میں حصہ لینے والے فتنہ انگیز قبائلی باغیوں اور دوسرے لوگوں کو سولیوں اور لکڑیوں پر لٹکا کر ہر ایک کو اس طرح کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے کہ دوبارہ سزا کی ضرورت نہ ہو۔‘
خسرو
Getty Images

لاہور خوف اور بے یقینی کی کیفیت میں تھا۔ چوتھے مغل بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے حکم پر سڑک کے دونوں اطراف لکڑی کے نوکیلے کھمبے گاڑے جانے لگے تو انھونی کا یقین ہونے لگا۔

’تزکِ جہانگیری‘ کے مطابق شاہی حکم تھا کہ ’باغ مرزا کامران سے قلعہ لاہور تک دو رویہ لکڑیاں نصب کر کے شورش میں حصہ لینے والے فتنہ انگیز قبائلی باغیوں اور دوسرے لوگوں کو سولیوں اور لکڑیوں پر لٹکا کر ہر ایک کو اس طرح کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے کہ دوبارہ سزا کی ضرورت نہ ہو۔‘

راوی دریا میں ایک جزیرے پر بارہ دری کہلاتے باغ مرزا کامران میں بیٹھے جہانگیر کا یہ خون آلود فرمان ہر اس شخص کے لیے تو تھا ہی جو مغل تخت کی مخالفت کا سوچے لیکن ان کا یہ انتباہ سب سے بڑھ کر اپنے سب سے بڑے بیٹے شہزادہ خسرو کے لیے تھا۔

جہانگیر کے اقتدار کے پہلے ہی سال میں شہزادہ خسرو کی بغاوت میں ساتھ دینے پر نجانے کتنے ہی لوگ نوکیلی لکڑیوں میں پروئے گئے تھے۔

ابوالفضل کی کتاب ’آئینِ اکبری‘ کا ترجمہ ہنری بلوخمن نے کیا ہے جو 1873 میں شائع ہوا۔ بلوخمن نے اس مخصوص واقعے کے منظر میں اضافہ کرتے ہوئےلکھا ہے کہ ’خسرو کو ایک ہاتھی پر بٹھا کر نوکیلی لکڑیوں پر پروئے جانے والے اُن کے ساتھیوں اور سپاہیوں کی قطاروں کے درمیان سے گزارا گیا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑے لوگ ان کی طرف اشارہ کر کے خسرو سے کہتے: یہ تمھارے دوست، تمھارے نوکر ہیں، انھیں سلام عقیدت پیش کرو!‘

شہزادہ خسرو کون تھے؟ انھوں نے اپنے ہی والد اور مغل بادشاہ جہانگیر کے خلاف بغاوت کیوں کی اور اس داستان میں اکبر اعظم کا کیا کردار تھا؟ اس ساری کہانی کا آغاز بھی لاہور سے ہی ہوتا ہے۔

خسرو
Getty Images

شہزادہ خسرو جنھیں اکبر نے وارث کے طور پر چُنا

خسرو 16 اگست 1587 کو لاہور میں پیدا ہوئے تو ان کے والد جہانگیر، جو تب شہزادہ سلیم تھے، نے بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں اپنی پہلی بیگم، امبر کی راجپوت راج کماری من بھاوتی کو شاہ بیگم کا لقب دیا جبکہ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے پوتے کا نام خود خسرو رکھا۔ خسرو بیٹا تو جہانگیر کا تھا لیکن اکبر کو ان میں اپنا وارث دکھائی دے رہا تھا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ اکبر کے تین بیٹوں شہزادہ سلیم، سلطان مراد اور دانیال مرزا میں سے آخری دو ان کی زندگی ہی میں افیون اور شراب نوشی کے باعث وفات پا گئے تھے۔ سلیم بھی بہت زیادہ مختلف نہیں تھے بلکہ انھوں نے تو اپنے والد کے خلاف ناکام بغاوت بھی کی، بار بار شاہی احکامات کی نافرمانی کی، مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور شہنشاہ اکبر کے انتہائی قابل اعتماد مشیر ابوالفضل کو قتل تک کروایا۔

سلیم کی اصلاح کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اکبر پریشان تھے حتی کہ انھوں نے سلیم کو جانشینی کے حق سے دستبردار کرنے کا خیال کُھل کر پیش کیا۔ ایسے میں خسرو کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ شہزادہ خسرو میدان جنگ میں ہوشیار تھے۔ وہ نہ تو شرابپیتے تھے، نہ نشہ کرتے تھے اور نہ ہی جسمانی لذتوں کے رسیا تھے۔ مغل دربار کے ایک پادری ایڈورڈ ٹیری کے بقول ’ان کی موجودگی خوش کُن اور رکھ رکھاؤ بہترین تھا، وہ عام لوگوں کے بے حد محبوب تھے۔‘

شہنشاہ اکبر کا دربار بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا، ایک سلیم کی جانشینی کے حق میں تھا اور دوسرا اُن کے بیٹے خسرو کے حق میں۔ اکبر کوئی فیصلہ نہیں کر پائے تھے لیکن رنجشیں بڑھ رہی تھیں۔

مظفر عالم اور سنجے سبرامنیم نے ’رائٹنگ دی مغل ورلڈ‘ میں ایک مغل امیر اسد بیگ کی کتاب نسخہ احوالِ اسد بیگ اور بعض دیگر کتب کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہاتھیوں کی ایک لڑائی کے دوران سلیم اور خسرو کے ساتھیوں کی لڑائی کی خبر ملنے پر اکبر شدید غصے میں بے ہوش ہو گئے۔

مغل بادشاہ
Getty Images

بغاوت کی پہلی کوشش اور جہانگیر کی بادشاہی

اکبر کا آخری وقت قریب آیا تو جانشینی کا جھگڑا بھی بڑھ گیا۔ مظفر عالم اور سنجے سبرامنیم لکھتے ہیں کہ ’طبیب نے ہاتھ کھڑے کر دیے تو خان اعظم نے جانا کہ اب اکبر کا چل چلاؤ ہے اور راجا مان سنگھ سے بات کی کہ خسرو کی تخت نشینی کی کوشش کی جائے۔ یہ فیصلہ ہوا کہ جب سلیم روزانہ کورنش بجانے حاضر ہوں تو انھیں قابو کر لیا جائے۔ شہزادہ سلیم تک خسرو کی تخت نشینی کی افواہیں بھی پہنچیں اور انھوں نے اس پر یقینکرتے ہوئے فرارکے لیے خصوصی کشتیاں بھی تیار کر لی تھیں۔

مان سنگھ خسرو کے ماموں جبکہ خان اعظم مرزا عزیز کوکا خسرو کے سُسر تھے۔ لیکن ان بااثر افراد کی خسرو کو بادشاہ بنانے کی کوشش ناکام ٹھہری کیونکہ اکبر کی وفات سے پہلے ہی شیخ فریدِ بخاری اور دیگر امرا نے جہانگیر کی جانشینی کا اعلان کر دیا۔

’رائٹنگ دی مغل ورلڈ‘ کے مطابق شہزادہ سلیم کو اپنے خلاف سازش کی ناکامی کی خبر پہنچی تو ان کی سانس میں سانس آئی۔ امرا نے انھیں سلامی پیش کی، خان اعظم بھی پہنچے لیکن سلیم نے ان پر ظاہر نہ ہونے دیا کہانھیں ان کی سازش کا علم ہے۔ مان سنگھ نے یہ حالات دیکھے تو خسرو کو ساتھ لے کر بنگال کی تیاری پکڑی۔

ادھر سلیم حالات اپنے حق میں دیکھتے ہوئے بستر مرگ پر آخری سانسیں لیتے شہنشاہ اکبر کے پاس پہنچے اور اپنا چہرہ اکبر کے پاؤں کو لگایا تو شہنشاہ نے آنکھیں کھولی اور اسد بیگ کے مطابق سروپا (چوغہ) اور پگڑی، جو سلیم کے لیے تیار رکھی گئی تھیں، لانے کا اشارہ کیا۔ سلیم نے یہ سب پہنا، تلوار باندھی اور اکبر کی وفات ہو گئی۔

اکبر کی موت کا سوگ کچھ روز اور جاری رہا اور جہانگیر کی رسمی تاج پوشی بعد میں ہوئی۔

جہانگیر کی وعدہ خلافی

جہانگیر
BBC

مظفر عالم اور سنجے سبرامنیم لکھتے ہیں کہ ’جہانگیر کو مان سنگھ کے خسرو کو بنگال لے جانے کا افسوس تھا لیکن انھیں واپس بلوایا، گلے لگایا، ان کا ماتھا چوما اور انھیں ان کے محل بھیج دیا۔‘

مونس ڈی فاروقی اپنی کتاب ’دی پرنسز آف دی مغل ایمپائر‘ میں لکھتے ہیں کہ سلیم کو پرامن انتقال اقتدار کے لیے ہوئے مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ خسرو کو بنگال کا گورنر بنا دیا جائے گا جو خسروکے لیے بھی قابل قبول انتظام تھا۔

فاروقی کے مطابق وقائع نگار نعمت اللہ خان ہاروی اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: شہزادے دربار سے دور آزاد حکمران کے طور پر گورنر بننا چاہتے تھے ’لیکن جہانگیر نے اپنے عہد کا پاس نہ رکھا۔‘

اس کی وجہ یہ تھی کہ جہانگیر کو خدشہ تھا کہ دلی سے دور دولت مند بنگال، جو مشرقی ہندوستان میں فوجیوں کی بھرتی کا بھی گڑھ تھا، خسرو کے ہاتھ میں چلا گیا تو ایک مستقل مسئلہ بنا رہے گا۔

’جہانگیر نے بالآخر خسرو کے اتالیق اور ماموں راجا مان سنگھ کو تو خسروکے نائب کے طور پر بنگال جانے کی اجازت دے دی لیکن، بعض ’درباری سازشوں‘، اودھ میں ایک چھوٹی سی بغاوت اور دیگر بہانوں سے خسرو کو جانے نہ دیا اور پھر اپنے پرانے وفاداروں کو بنگال اور بہار میں تعینات کر دیا۔‘

فاروقی لکھتے ہیں کہ جہانگیر نے اپنے دوسرے بیٹوں کو بھی خسروکے مقابل لا کھڑا کیا۔ ’انھوں نے اپنے دوسرے بیٹے پرویز کو سولہ سال کی عمر میں عارضی طور پر اپنا جانشین قرار دیا اور میواڑ کے رانا کے خلاف مہم پر بھیج دیا اور خسروکے نیٹ ورک کو کمزور کرنے کے لیے ان کے راجپوت وفاداروں کے رشتے داروں کو پرویز کی مہم میں بھیج دیا۔ پرویز کو بھیجنے کے بعد تیسرے بیٹے خرم پر نوازشات شروع کر دیں جن سے خسرو کے غصے میں اضافہ ہوا ہو گا۔‘

خسرو کی دوسری بغاوت اور لاہور کا ناکام محاصرہ

فاروقی لکھتے ہیں کہ ’اپنے محل تک محدود اور شاہی جاسوسوں کی نظروں تلے، خسرو اپنے والد کے قریبی مشیروں سے الجھنے لگے اور پھر انھیں اطلاع ملی کہ شریف خان جہانگیر سے کہہ رہے ہیں کہ شہزادے کو اندھا کر دیا جائے۔

’پس بغاوت پر مجبور کیے جانے پر وہ آگرہ سے نکلے اور تھوڑے سے ساتھیوں کے ساتھ پنجاب کی جانب بڑھے تاکہ اسے اپنی آماجگاہ بنائیں۔‘

آر سی موجمدار ’مغل سلطنت‘ میں لکھتے ہیں کہ 1606 میں یعنی انیس سالہ خسرو چھ اپریل کو قریب ہی سکندرہ میں اکبر کے مقبرے کی زیارت کے بہانے 350 گھڑ سواروں کے ساتھ آگرہ سے روانہ ہوئے جس کے بعد متھرا میں حسن بیگ اور تقریباً 3,000 گھڑ سوار ان کے ساتھ شامل ہوئے اور لاہور کے صوبائی دیوان (منتظم) عبدالرحیم، پانی پت میں۔‘

جے گورڈن میلٹن اپنی کتاب فیتھز اکراس ٹائم میں بتاتے ہیں کہ خسرو امرتسر کے قریب ترن تارن صاحب پہنچے تو انھیں گرو ارجن دیو کا آشیرواد بھی حاصل ہوا۔

تزک کے مطابق خسرو نے آگے بڑھتے ہوئے لاہور کا محاصرہ کر لیا جس کا دفاع دلاور خان نے کیا۔ شہنشاہ جہانگیر نے محاصرہ ختم کیا اور بھیرووال کی جنگ میں خسرو کو شکست دی تو وہ کابل کی طرف بھاگنے کی کوشش میں دریائے چناب عبور کرتے ہوئے جہانگیر کی فوج کے ہاتھوں پکڑے گئے۔

مغل بادشاہ
Getty Images

تزک میں لکھا ہے کہ ’روتے اور کانپتے‘ خسرو کو ’دست بستہ، پا بہ زنجیر‘ جہانگیرکے سامنے لایا گیا تو شہزادے کے دائیں جانب ان کے ساتھی اور کابل کے ذمہ دار حسن بیگ جبکہ بائیں جانب لاہور کے دیوان عبدالرحیم کو دیکھ کر جہانگیر نے حکم دیا کہ ایک کو گائے کی کھال اور دوسرے کو گدھے کی کھال میں سی کر اور گدھے پر الٹا بٹھا کر سارے شہر میں پھرایا جائے۔

چونکہ گائے کی کھال گدھے کی کھال سے جلد خشک ہو جاتی ہے اس لیے ’حسن بیگ چار پہر تک زندہ رہ کر دم گھٹنے سے مر گیا اور عبد الرحیم زندہ رہا۔‘ (عبدالرحیم نے بعد میں معافی پائی اور انھیں چھوٹا سا عہدہ دے کر کشمیر بھیجا گیا لیکن تزک میں انھیں ’خر‘ یعنی گدھا کہہ کر پکارا گیا ہے۔

بی این پوری اور ایم این داس ’اے کمپری ہینسوہسٹری آف انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ گرو ارجن دیو نے اکبر کی ماضی کی عنایات کے شکریے کے طور پر ’نہ کہ شہنشاہ کی مخالفت میں‘ خسرو کو پانچ ہزار روپے دیے تھے۔ وہ بھی شہنشاہ کے غضب سے نہ بچ سکے اور ان پر لاگو دو لاکھ روپے جرمانہ دینے سے انکار پر گرو کو تشدد سے مار دیا گیا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایسے سیاسی فیصلوں کو مذہبی رنگ دینا غلط ہے۔

’تاہم سکھوں اور مغلوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے اور بعد کی کئی بغاوتوں کی بنیاد پڑ گئی۔‘

بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا

خسرو کو زنجیروں میں مقید رکھنے کا حکم دیا گیا کہ ’سلطنت خویشی (رشتہ داری) اور فرزندی کی مراعات برداشت نہیں کر سکتی۔‘ تزک جہانگیری میں جہانگیر کے ان الفاظ کا مفہوم ہے کہ بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔

سنہ 1607 میں ایک اور بغاوت کا علم ہونے پر جہانگیر نے سازش کے مرکزی کرداروں کو مروا دیا اور خسرو کی آنکھوں میں گرم سلائی پھروا دی۔ وی ڈی مہاجن نے ’ہسٹری آف میڈیول انڈیا‘ میں لکھا ہے کہ تاہم بینائی مکمل ختم نہیں ہوئی تھی۔

’یوں باپ اور بیٹے کے درمیان اس جنگ کا خاتمہ ہوا جس کی جڑیں اکبر کی اپنے مشکلات پیدا کرنے والے بیٹے کے مقابلے میں اپنے پوتے کو کھڑا کرنے کی کوششوں میں تھیں۔‘

سنہ 1616 تک خسرو دارالحکومت آگرے میں قید رہے۔ پھر انھیں ملکہ نور جہاں کے بھائی آصف خان کے حوالے کر دیا گیا۔

خسرو کا مقبرہ
Getty Images
خسرو کا مقبرہ

خسرو کی موت یا قتل؟

ٹامس رو کا کہنا تھا کہ نور جہاں نے اپنی تمام نسوانی صلاحیتیں جہانگیر کو یہ یقین دلانے میں صرف کیں کہ خسرو ان کے لیے اب ابھی خطرناک ہو سکتے ہیں تاہم ایلیسن بی فائنڈلی نے مریم الزمانی کا اپنے بیٹے جہانگیر کے نام ایک خط کا ذکر کیا ہے جس میں انھوں نے خسرو کی حفاظت کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

انھوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ ’اگر خسرو کو شہزادہ خرم کو سونپ دیا گیا، جو ان کے خیال میں مغل تخت کی جانشینی حاصل کرنے کے لیے خسرو کو ختم کرنے کے لیے بے چین تھے، تو وہ آخر کار خسرو کو قتل کر دیں گے اور یہ مغل خاندان کے لیے تباہ کن ہو گا کیونکہ مستقبل کی اولاد نرینہ اسے بطور نمونہ استعمال کرے گی اور شاہی تخت پر قبضے کے لیے اپنے بھائیوں کو قتلکیا جائے گا۔‘

لیکن خسرو کو شہزادہ خرم، جو بعد میں شاہ جہاں کے نام سے ہندوستان کے بادشاہ بنے، کے ہی حوالے کر دیا گیا جنھوں نے انھیں جلدی سے دکن میں برہان پور منتقل کر دیا اور 1622 میں ان کی وفات ہوئی۔

رَمن اَرُونانگریزی اخبار ’دیہندو‘ میں لکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ قبول شدہ بیان یہ ہے کہ شاہ جہاں کے رضا بہادر نامی غلام نے چند ساتھیوں کے ساتھ آدھی رات کو خسرو کے حجرے کا دروازہ توڑا اور انکا گلا گھونٹ دیا اور پھر ان کے بسترکو دوبارہ ترتیب دے دیا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ ان کی موت فطری تھی۔

تزکِ جہانگیری میں خرم کے حوالے سے لکھا ہے کہ خسرو قولنج سے مرے۔ مہاجن کے مطابق بہت بعد میں اورنگ زیب نے بھی اپنے والد شاہ جہاں پر خسرو اور پرویز کے قتل کا الزام دھرا۔

فائنڈلی نے مزید کہا کہ ’مریم الزمانی کی یہ پیش گوئی بعد میں درست ثابت ہوئی جب شاہ جہاں کے بچوں، اورنگ زیب اور دارا شکوہ کے درمیان شاہی تخت کے لیے آپس میں جھگڑا ہوا اور بالآخر بھائی کے ہاتھوں شہزادہ دارا شکوہ کا قتل ہوا۔‘

جہانگیر کی موت کے بعد، شاہ جہاں کے لیے مغل تخت محفوظ کرنےکو آصف خان نے کچھ عرصہ خسرو کے بیٹے شہزادہ داور بخش کو مغل سلطنت کا حکمران بنایا۔ 1627 میں شاہ جہاں کے لاہور میں شہنشاہ کے طور پر اعلان کے فوری بعد وہ ان کئی شہزادوں میں شامل تھے جنھیں شاہ جہاں کے حکم پرآصف خان نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

خسروکی برہان پور میں موت کے بعد انھیں الہ آباد میں ان ہی کے نام سے منسوب ایک باغ میں دفن کیا گیا۔ مہاجن لکھتے ہیں کہ ’خسرو عام لوگوں اور امرامیں بہت مقبول تھے۔ مرنے کے بہت عرصہ بعد تک الہ آباد میں ان کی آخری آرام گاہ پر لوگ عقیدت سے جاتے رہے اور انھیں ’شہید درویش‘ قرار دیا گیا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.