ڈاکٹر کا ریپ اور قتل: کولکتہ میں ’درد سر‘ بن جانے والا ڈاکٹروں کا احتجاج جو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ختم نہیں ہو رہا

کولکتہ میں نوجوان ڈاکٹرز ایک ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ انھوں نے ریاستی انتظامیہ کے سامنے مطالبات رکھے ہیں اور کہا ہے کہ ان کی منظوری تک کسی اور معاملے پر بات نہیں ہوگی۔ انڈیا کی ریاست کولکتہ میں حالات اب بھی کشیدہ ہیں اور عام لوگ صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔
انڈیا ریپ اور قتل کے بعد احتجاج
BBC

انڈیا کے شہر کولکتہ کے سرکاری میڈیکل کالج ہسپتال میں ایک ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کے خلاف جونیئر ڈاکٹروں کی احتجاجی تحریک گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہے۔

اس کی وجہ سے مغربی بنگال کی پہلے سے ہی مُشکلات کی شکار ناقص سرکاری صحت کی سہولیات مزید بدتر ہو گئی ہیں۔

کولکتہ کے سرکاری ہسپتالوں میں عام طور پر ریاست کے دور دراز کے اضلاع سے مریض آتے ہیں جنھیں وہاں کے مقامی ہسپتالوں اور مراکزِ صحت سے یہاں منتقل کیا جاتا ہے۔

لیکن ریاستی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے جانے والے حلف نامہ کے مطابق جونیئر ڈاکٹروں کی تحریک کی وجہ سے اب تک 23 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو صحت کی سہولیات میسر نہیں۔

آر جی کار میڈیکل کالج ہسپتال میں رات کی ڈیوٹی کے دوران ایک جونیئر ڈاکٹر کا ریپ ہوا اور انھیں قتل کر دیا گیا۔

ابتدائی طور پر کولکتہ پولیس نے اس معاملے کی تحقیق اور تفتیش کی تاہم چار دن کے بعد کلکتہ ہائی کورٹ کے حکم پر اس معاملے کی تحقیقات کی ذمہ داری سی بی آئی کے سُپرد کر دی گئی۔

ابتدا سے ہی اس معاملے میں کولکتہ پولیس پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ اُن کی جانب سے اس معاملے کے شواہد مٹائے گئے اور حقائق کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔

ریپ کے بعد قتل ہونے والی ڈاکٹر کے والدین کی جانب سے بھی کولکتہ پولیس پر یہی الزام لگایا گیا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات میں وہ اپنے فرائض درست انداز میں ادا نہیں کر رہی تاہم پولیس نے اپنے اوپر لگنے والے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔

پولیس پر لگنے والے الزامات اور اب تک اس معاملے میں ہونے والی تحقیقات کو دیکھتے ہوئے انڈیا کی سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا ہے۔

ریاست کے وزیرِ صحت چندریما بھٹاچاریہ نے نوجوان ڈاکٹروں کی اس تحریک کو سیاسی تحریک قرار دیا ہے لیکن جونیئر ڈاکٹروں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت ان کی چار شرائط مان لے تو وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

Kolkata
Getty Images

’میرا بیٹا میری آنکھوں کے سامنے مر گیا‘

کولکتہ میں گزشتہ ایک ماہ سے بند پڑے ہسپتالوں کی وجہ سے مریضوں کو شدید مُشکلات کا سامنا ہے۔ سنیچر کے روز ہگلی ضلع کے ایک 22 سالہ نوجوان وکرم بھٹاچاریہ کی موت ڈاکٹروں کے احتجاج کی وجہ سے مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے ہوئی۔

وکرم بھٹاچاریہ کی والدہ کویتا بھٹاچاریہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔ میں بھی چاہتی ہوں ان کی بات کو سُنا جائے لیکن ان کے احتجاج کی وجہ سے میرا جوان بیٹا میری آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ مجھے انصاف کیسے اور کہاں سے ملے گا؟‘

کویتا کے بیٹے وکرم کو ایکسیڈینٹ کے بعد شدید زخمی ہو جانے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے علاج کے لیے آر جی کار ہسپتال منتقل کرنے کا کہا تھا تاہم ہسپتال میں اجتجاج کے باعث وہ وہاں کئی گھنٹوں تک بستر پر زخمی حالت میں پڑے رہے اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اُن کی موت ہو گئی۔

کویتا کہتی ہیں کہ ’ہسپتال پہنچنے کے بعد میں اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے ڈاکٹروں سے التجا کرتی رہی اور اُس کی زندگی کی بھیک مانگنے کے لیے ایک عمارت سے دوسری عمارت کے چکر لگاتی رہی لیکن کسی نے میری ایک نہیں سُنی اور اس کا علاج کرنے سے انکار کر دیا۔ میرا بیٹا میری آنکھوں کے سامنے تڑپتا رہا اور بلا آخر اُس کی سانسیں ٹوٹ گئیں اور وہ مر گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں بھی ریپ کا شکار ہونے والی ڈاکٹر کے لیے انصاف چاہتی ہوں مگر میرے بیٹے کو انصاف کون دے گا؟

ادھر جونیئر ڈاکٹروں کے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری تو ہیں مگر کوئی بات بنتی نظر نہیں آ رہی اور معاملہ تا حال الجھا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کی تنظیم ’ویسٹ بنگال جونیئر ڈاکٹرز فرنٹ‘ نے کہا ہے کہ بات چیت تبھی ممکن ہے جب حکومت ان کی چار شرائط مان لے جبکہ ریاستی حکومت نے شرائط کی حدود میں رہتے ہوئے بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ریاستی حکومت نے احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کو پہلے منگل اور پھر بدھ کی شام کو بات چیت کے لیے بلایا تھا لیکن جواب میں جونیئر ڈاکٹروں نے چار شرائط رکھی تھیں اور کہا تھا کہ پہلے حکومت انھیں تسلیم کرے۔

ریاستی سکریٹریٹ میں پریس کانفرنس میں چیف سکریٹری منوج پنت نے جونیئر ڈاکٹروں کے رویے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس طرح کے رویے کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

جونیئر ڈاکٹروں کی چار شرائط کیا ہیں؟

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ’ویسٹ مغربی بنگال جونیئر ڈاکٹرز فرنٹ‘ کے ڈاکٹر کنجل نند نے کہا کہ ’ریاست کے تمام 26 میڈیکل کالجز کے نمائندے اس احتجاجی تحریک میں شامل ہیں اس لیے کم از کم 30 نمائندوں کو حکومت کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں شرکت کی اجازت دینی ہو گی۔‘

’دوسرا یہ کہ حکومت اور جونئیر ڈاکٹرز کے درمیان ہونے والے اجلاس کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنا ہو گا۔ تیسرا یہ کہ مذاکرات صرف ان پانچ مطالبات پر مرکوز ہوں گے، جن کا ذکر پہلے ہو چکا اور چوتھی شرط یہ کہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ کی موجودگی لازمی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکومت کے ساتھ مذاکراتی اجلاس میں اگر وہ شامل ہوئے تو ایسا نہیں کہ وہاں اُس اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ کام پر واپس جائیں گے یا نہیں۔‘

دوسری جانب ڈاکٹروں سے بات چیت کے لیے آگے نہ آنے کے بعد وزیر صحت چندریما بھٹاچاریہ نے سیکریٹریٹ میں پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم اس معاملے پر کھلے ذہن کے ساتھ بات کرنا چاہتے تھے لیکن دوسری جانب سے اس پر کوئی سنجیدگی دیکھائی نہیں دے رہی۔ حکومت چاہتی ہے کہ لوگوں کو وہ صحت کی سہولیات میسر آسکیں جس سے وہ گزشتہ 32 دن سے محروم ہیں۔

protest
Getty Images

سپریم کورٹ نے ڈاکٹروں کو احتجاج سے روک دیا

گزشتہ پیر کو اس کیس کی سماعت کے دوران انڈیا کی سپریم کورٹ نے جونیئر ڈاکٹروں کو منگل کی شام 5 بجے تک کام پر واپس آنے کو کہا تھا لیکن احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں نے واضح کیا کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے اور اس معاملے میں انصاف فراہم نہیں کیا جاتا، احتجاج جاری رہے گا۔

ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے جانے والے اپنے حلف نامے میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس تحریک کی وجہ سے اب تک تقریباً 23 مریضوں کی موت ہو چکی اور 70 ہزار سے زیادہ لوگوں کا مناسب علاج نہیں ہو سکا۔

وزیراعلیٰ کی جانب سے بھی کی جانے والی پریس کانفرنس میں اسی بات پر زور دیا گیا تھا۔

’ویسٹ بنگال جونیئر ڈاکٹرز فرنٹ‘ کے ساتھ احتجاج کرنے والے جونیئر ڈاکٹروں نے منگل کو سالٹ لیک میں محکمہ صحت کے ہیڈ کوارٹر سوستھیا بھون تک ریلی نکالی۔ پولیس نے انھیں روکا تو وہ دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔

اس سے قبل مشتعل ڈاکٹروں نے کولکتہ پولیس ہیڈ کوارٹر لال بازار کے سامنے تقریباً 22 گھنٹے تک احتجاج کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں نے حکومت کے سامنے پانچ مطالبات رکھے ہیں۔

یہ لوگ اس واقعے کے قصورواروں کی شناخت اور انھیں سخت سے سخت سزا دینے، شواہد کو مٹانے کی کوشش کرنے والوں کی شناخت اور سزا دینے، کولکتہ کے پولیس کمشنر ونیت گوئل کے استعفے، تمام میڈیکل کالجوں، ہسپتالوں اور صحت کے مراکز میں ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکرز کی حفاظت یقینی بنانے اور تمام میڈیکل کالجوں میں خوف سے پاک آزاد ماحول پیدا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی انھوں نے سیکرٹری ہیلتھ، ڈائریکٹر میڈیکل ایجوکیشن اور ہیلتھ ڈائریکٹر کے استعفے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

اس سے قبل منگل کی شام کو ہیلتھ سیکرٹری کی طرف سے بھیجے گئی ایک ای میل میں مظاہرین کے وفد کو بات چیت کے لیے ریاستی سیکرٹریٹ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی ان کا انتظار کیا تاہم تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے بعد وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سکیریٹریٹ سے گھر کے لیے روانہ ہوگئیں۔

جونیئر ڈاکٹروں نے اسی وقت واضح کر دیا تھا کہ ای میل میں استعمال کی جانے والی زبان تضحیک آمیز تھی اور یہ سیکرٹری ہیلتھ نے بھیجی تھی جن کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

ممتا بنرجی نے دو دن پہلے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت نے احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کے دو مطالبات مان لیے ہیں اور باقی مطالبات پر بھی ان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

Mamta Banerjee
Getty Images

’دیدی احتجاج سے پریشان ہیں‘

ماہرین کا خیال ہے کہ دور دراز سے آنے والے لوگ کولکتہ میں علاج نہیں کروا پا رہے ہیں اور جونیئر ڈاکٹروں کی جانب سے جاری احتجاج ممتا بنر جی کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار سوکمار گھوش کہتے ہیں کہ ’جونیئر ڈاکٹروں کی یہ تحریک اور اسے عام لوگوں کی جانب سے حاصل ہونے والی حمایت ریاستی حکومت کے لیے درد سر بن گئی ہے۔ اس کی وجہ سے دور دراز سے آنے والے مریض بھی حکومت کو پر سوال اُٹھا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ممتا بنرجی اس معاملے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش میں ہیں۔‘

ترنمول کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’دیدی اس تحریک سے پریشان ہیں۔ وہ اس تعطل کو دور کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش نہیں کر پا رہیں کیونکہ عوامی حمایت تحریک کو مل رہی ہے لیکن کوئی سخت کارروائی کرنے کا بھی منصوبہ نہیں۔‘‘

وزارت صحت کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کے تمام مطالبات ماننا بہت مشکل ہے۔ وہ محکمہ کے کئی اعلیٰ افسران اور پولیس کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال میں حالات معمول پر آتے دیکھائی نہیں دے رہے۔‘

افسر نے کہا کہ درحقیقت چیف منسٹر نے جس طرح ریپ اور قتل کے واقعہ کی تحقیقات میں کولکتہ پولیس کو کلین چٹ دیاور پولس کمشنر ونیت گوئل کا دفاع کررہے ہیں، اس سے مشتعل افراد کے غم اور غصے میں مزید اضافہ ہوا۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ممتا بنر جی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پولیس کمشنر ونیت گوئل ان کے پاس استعفیٰ دینے آئے تھے لیکن ریاست کے سب سے بڑے تہوار درگا پوجا کے پیش نظر ایک تجربہ کار افسر کی قیادت ضروری ہے۔ اس لیے ان کا استعفیٰ لینے سے انکار کر دیا گیا۔

اس سب کے درمیان عام عوام کا سڑکوں پر آنا بھی حکومت کے لیے درد سر بن گیا ہے لیکن فی الحال ان کی سب سے بڑی ترجیح جونیئر ڈاکٹروں کے احتجاج کو ختم کرنا اور انھیں کام پر واپس بھیجنا ہے۔ اس کے لیے شاید ان کی نظریں سپریم کورٹ کے اگلے قدم پر بھی ٹکی ہوئی ہیں۔

بی جے پی کے ترجمان شامک بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ ’ترنمول کانگریس اور اس کی حکومت موجودہ تعطل کے لیے ذمہ دار ہے۔ وہ عام لوگوں میں اپنی ساکھ کھو چکی۔ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی عام لوگ اس بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

اس واقعہ پر ممتا بنرجی کو پارٹی کے اندر بھی بڑھتی ہوئی مخالفت کا سامنا ہے۔ پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے اس معاملے پر کھل کر اپنی رائے ظاہر کی ہے۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.