’جہاں فوجی بھی محفوظ نہیں‘: انڈیا کے شہر اندور میں فوجی اہلکاروں پر تشدد، خاتون دوست کا مبینہ ریپ

انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے اندور کا واقعہ طول پکڑتا جا رہا ہے حالانکہ مہو میں دو نوجوان فوجی افسروں کے ساتھ مارپیٹ، ڈکیتی اور ان کی خاتون دوست کے مبینہ ریپ کے معاملے میں تمام چھ ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں دو نوجوان فوجی اہلکاروں کے ساتھ مار پیٹ، ڈکیتی اور ان کی خاتون دوست کے ساتھ مبینہ ریپ میں ملوث چھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پولیس نے پہلے تین ملزمان کو گرفتار کیا تھا اور اس کے بعد باقی تین مفرور ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے والوں کے لیے بھی دس ہزار روپے کے انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔

ان تینوں ملزمان کو بھی جمعے کے روز گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ ’جہاں فوجی ہی محفوظ نہیں وہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔‘

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق تشدد کا نشانہ بننے والے دونوں فوجی افسران کے خلاف بھی محکمانہ انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔

افسران کے ساتھ مارپیٹ اور خاتون دوست کے مبینہ ریپ کا معاملہ 11 ستمبر کی رات پیش آیا تھا۔ متاثرہ خاتون ابھی تک بات کرنے کو تیار نہیں، اسی لیے پولیس ابھی تک ان کا بیان نہیں لے سکی ہے۔

یہ سارا معاملہ ہے کیا؟

یہ واقعہ بدھ کی رات اس وقت پیش آیا جب دو فوجی اہلکار اپنی خواتین دوستوں کے ساتھ اندور کے ضلع مہو میں برگونڈا تھانے کے علاقے کے قریب ایک فائرنگ رینج میں سیر کے لیے گئے ہوئے تھے۔

پولیس کے مطابق: 'یہ اہلکار جام گیٹ کے قریب کار میں اونچی آواز میں میوزک بجا رہے تھے، آواز سن کر ملزمان وہاں پہنچے۔ رات کوئی ڈھائی سے تین بجے کے درمیان ملزمان نے آکر پیچھے سے ان پر حملہ کر دیا۔'

'انھیں مارا پیٹا گیا، ان کی رہائی کے بدلے شرپسندوں نے تاوان کا مطالبہ کیا جس کے بعد ایک افسر اور ایک نوجوان خاتون کو دس لاکھ روپے بطور تاوان لینے کے لیے بھیجا گیا۔ دونوں نے صبح ساڑھے چار بجے کے قریب اپنے کمانڈنگ آفیسر کو فون کیا اور ان کے ساتھ ہونے والے واقعے کے بارے میں مطلع کیا۔'

اس کے بعد پولیس کو اطلاع ملی اور پولیس کی پٹرولنگ ٹیم جائے واردات پر پہنچ گئی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس دوران ملزمان نے ایک دوسرے فوجی اہلکار اور ایک لڑکی کو یرغمال بنا رکھا تھا۔

اندور (دیہی) کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ہتیکا واسل کا کہنا ہے کہ ’شکایت کنندہ نے بتایا ہے کہ جس خاتون دوست کو وہاں روکا گیا تھا، ملزمان اسے ایک طرف لے گئے اور پھر اس خاتون کی چیخیں سنائی دیں۔ شکایت کنندہ کو خدشہ ہے کہ خاتون کے ساتھ ریپ کیا گیا ہے۔‘

ایس پی ہتیکا وسل کا کہنا ہے کہ ’وہ (خاتون) ابھی تک بات کرنے سے قاصر ہے۔ ہم ان کے بیان کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم کسی پر بھی دباؤ نہیں ڈال سکتے۔‘

ایک اور افسر نے بتایا کہ 'متاثرہخاتون کا کہنا ہے کہ یا تو ملزم کو گولی مارو یا مجھے گولی مار دو۔'

خاتون کے ساتھ موجود ایک فوجی اہلکار نے پولیس کو بتایا کہ جب ملزمان لڑکی کو ایک طرف لے گئے تو وہ چیخ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے۔

ایسے میں پولیس نے فوجی اہلکاروں کے بیان کی بنیاد پر ملزمان کے خلاف ڈکیتی، مارپیٹ، تاوان اور گینگ ریپ کے شبہ میں مقدمہ درج کیا ہے۔

پولیس نے ملزمان کے بارے میں کیا بتایا؟

اندور پولس کا دعویٰ ہے کہ واقعے کے بعد چھ ملزمان کا نام منظرِعام پر آیا تھا اور ان سب ہی کو واقعے کے 50 گھنٹے کے اندر ہی پکڑ لیا گیا۔

پولیس نے ملزمان کی تلاش اور گرفتاری کے لیے 10 ٹیمیں تشکیل دی تھیں۔

پولیس سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ اس سے قبل انیل بارور، پون بنسونیا اور رتیش بھابھر نامی ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ جمعہ کو مزید تین ملزمان روہت گِروال، سندیپ واریا اور سچن مکوانا کو گرفتار کیا گیا۔

پولیس کے مطابق: ’انیل بارور نے سب سے پہلے کار سے آنے والی موسیقی کی آواز سن کر اپنے دیگر ساتھیوں کو ڈکیتی کے لیے بلایا۔ انیل شراب کی دکان پر کام کرتا تھا۔ اس کے بعد رتیش بھابھر نے فوج کے اہلکاروں کو اسلحے کے زور پر دھمکی دی اور رقم کا مطالبہ کیا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ تمام ملزمان کا مجرمانہ ریکارڈ ہے۔

فوجی اہلکار ٹریننگ کے لیے مہو آئے تھے

اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے دونوں فوجی افسران مہو کے انفینٹری سکول میں ٹریننگ کے لیے آئے تھے۔

انھوں نے اپنی خواتین دوستوں کے ساتھ باہر جانے کے لیے ایک کار کرائے پر لی تھی۔ اس گاڑی میں وہ جام گیٹ کے قریب فائرنگ رینج پہنچے تھے جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔

پولیس کے مطابق دونوں اہلکاروں کا مہو سول ہسپتال میں طبی معائنہ کیا گیا ہے، ان کے جسم پر زخموں کے کچھ نشانات تھے لیکن وہ شدید زخمی نہیں تھے۔

امن و امان پر سوالات

اس معاملہ میں فوج اہلکاروں کے نام شامل تھے جس کی وجہ سے یہ حال ہی میں خبروں کی سرخیوں میں تھا۔ اس پر کئی رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔

لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے بی جے پی کو نشانہ بنایا تو ریاست کے وزیر اعلیٰ موہن یادو بھی بیان دینے کے لیے آگے آئے۔

راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’مدھیہ پردیش میں دو فوجی جوانوں کے خلاف تشدد اور ان کی خاتون ساتھی کا گینگ ریپ پورے معاشرے کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں امن و امان کی صورت حال تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ خواتین کے خلاف دن بہ دن بڑھتے جرائم پر بی جے پی حکومت کا منفی رویہ انتہائی تشویشناک ہے۔‘

اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ موہن یادو نے کہا ہے کہ فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’حکومت ایسے معاملات میں بہت سخت ہے، اگر کوئی ایسی غلطی کرے گا تو اسے بخشا نہیں جائے گا۔‘

اترپردیش کی سابق وزیر اعلیٰ اور بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی نے بھی اس معاملے میں ریاستی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں سیاحتی مقام جام گیٹ کی سیر کے لیے گئے دو فوجی افسران پر حملہ، انھیں یرغمال بنائے جانے اور ان کی خواتین دوستوں کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ انتہائی شرمناک ہے۔ اس طرح کے گھناؤنے واقعات کے سبب حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔‘

https://twitter.com/hemlatamak/status/1834095628953288846

میرا بھارت مہان نامی ایک صارف نے لکھا: مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے جہاں فوجی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کیا مدھیہ پردیش میں صدر راج نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ دن پہلے اجین میں دن دیہاڑے ریپ ہوا ویڈیو بنائی گئی۔‘

خیال رہے کہ مغربی بنگال میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ریپ اور قتل کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا ہے اور حکومت بنگال اور مرکزی حکومت کے درمیان وہ تعطل کی وجہ بنا ہوا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.