زمین سے 400 کلو میٹر کی بلندی پر ایک خلاباز کی زندگی: تین ماہ تک ایک ہی پتلون اور ’خلائی بو‘ کا سامنا

زمین سے قریب 400 کلو میٹر کی بلندی پر رہنا کیسا ہے؟ کیا آپ کو آپ کے ساتھی پریشان کرتے ہیں؟ ایسے کئی سوال ہم نے سابقہ خلابازوں سے پوچھے ہیں۔
آئی ایس ایس کی تعمیر کا کام سنہ 1998 میں شروع ہوا
NASA
آئی ایس ایس کی تعمیر کا کام سنہ 1998 میں شروع ہوا

جون میں دو امریکی خلا باز آٹھ روز کے لیے زمین سے انٹرنیشنل سپیس سٹیشن گئے تھے۔ تاہم سُنیتا ولیمز اور بُچ ولمور کی واپسی 2025 تک موخر ہوگئی کیونکہ خدشہ تھا کہ بوئنگ کا سٹار لائنر نامی خلائی جہاز واپسی کے لیے غیر محفوظ ہے۔

یہ دونوں خلا باز اب دیگر نو افراد کے ساتھ چھ بیڈ روم جتنے بڑے گھر میں رہ رہے ہیں۔

ولیمز اسے اپنا ’خوشگوار گھر‘ کہتی ہیں جبکہ ولمور کو خوشی ہے کہ وہ اس مقام پر موجود ہیں۔

مگر زمین سے قریب 400 کلو میٹر کی بلندی پر رہنا کیسا ہے؟ کیا آپ کو آپ کے ساتھی پریشان کرتے ہیں؟ آپ وہاں ورزش کیسے کرتے ہیں اور اپنے کپڑے کیسے دھوتے ہیں؟ آپ کیا کھاتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ آپ ’خلائی بو‘ کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تین سابقہ خلا بازوں نے خلا میں رہنے سے متعلق اہم راز افشا کیے ہیں۔

زمین پر موجود مشن کنٹرول خلا باز کے ہر دن کا شیڈول جاری کرتا ہے جس میں یہ درج ہوتا ہے کہ ہر پانچ منٹ بعد انھیں کیا کرنا ہے۔

وہ صبح جلدی اٹھتے ہیں، یعنی قریب ساڑھے چھ بجے۔ پھر وہ اپنے فون بوتھ جتنے بڑے سلیپنگ کوارٹر سے باہر آتے ہیں۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن (آئی ایس ایس) میں ان کے سونے کی جگہ کو ہارمنی کہا جاتا ہے۔

امریکی خلا باز نیکول سٹٹ نے سنہ 2009 سے 2011 تک ناسا کے دو مشنز کے لیے 104 روز خلا میں گزارے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ دنیا کے بہترین سلیپنگ بیگ ہیں۔‘

ان کوارٹرز میں لیپ ٹاپ بھی ہوتا ہے تاکہ عملہ اپنے خاندان کے ساتھ رابطے میں رہ سکے۔ اس میں ان کی تصاویر اور کتابیں بھی ہوتی ہیں۔

خلاباز سپیس سٹیشن میں اس طرح سوتے ہیں
BBC
خلاباز سپیس سٹیشن میں اس طرح سوتے ہیں

خلا باز پھر باتھ روم استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہوتا ہے جس میں سکشن سسٹم نصب ہے۔ عام طور پر پسینے اور پیشاب کو پینے کے صاف پانی میں تبدیل کرنے کے لیے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ تاہم آئی ایس ایس کے سسٹم میں ایک خرابی کے باعث عملہ صرف اپنے پیشاب کو ذخیرہ کر رہا ہے۔

پھر خلا باز کام پر پہنچتا ہے۔ آئی ایس ایس پر ان کا زیادہ تر وقت مرمت اور سائنسی تجربوں میں گزرتا ہے۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کا حجم بکنگھم پیلس یا امریکی فٹبال فیلڈ جتنا ہے۔

کینیڈین خلا باز کرس ہیڈفیلڈ سنہ 2012 سے 2013 تک 35 مشنز پر جا چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے اندر ایسا منظر ہے جیسے آپ نے کئی بسوں کو ساتھ جوڑ دیا ہو۔ نصف دن تک شاید آپ کو کوئی دوسرا فرد نظر بھی نہ آئے۔‘

’لوگ سٹیشن پر تیزی سے حرکت نہیں کرسکتے۔ یہ بڑا اور پُرامن مقام ہے۔‘

آئی ایس ایس کے پاس چھ تجربہ گاہیں ہیں
BBC
آئی ایس ایس کے پاس چھ تجربہ گاہیں ہیں

آئی ایس ایس نے تجربوں کے لیے چھ لیبارٹریاں مختص کی ہیں۔ خلا باز ہر وقت دل، دماغ اور خون کے مانیٹر پہنتے ہیں تاکہ مشکل ماحول میں ان کے جسم کے ردعمل کی نگرانی کی جاسکے۔

سٹٹ کے مطابق ’ہم ان چوہوں کی طرح ہیں جن پر تجربہ کیا جاتا ہے۔ خلا میں آپ کی ہڈیاں اور پٹھے جلدی بوڑھے ہوتے ہیں اور سائنسدان اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‘

اگر خلا باز چاہیں تو وہ مشن کنٹرول کی پیشگوئی کے برعکس جلدی اپنا کام نمٹا سکتے ہیں۔

ہیڈفیلڈ بتاتے ہیں کہ ’خود کے لیے پانچ منٹ کی فرصت نکالنا آپ کے لیے ایک گیم کی طرح ہوتا ہے۔ میں اڑتا ہوا کھڑکی تک جاتا تھا تاکہ کوئی چیز دیکھ سکوں۔ میں موسیقی یا تصاویر بناتا تھا اور اپنے بچوں کے لیے کچھ لکھتا تھا۔‘

کینیڈین خلاباز کرس ہیڈفیلڈ سنہ 2012-13 میں آئی ایس ایس پر کمانڈر تھے
NASA
کینیڈین خلاباز کرس ہیڈفیلڈ سنہ 2012-13 میں آئی ایس ایس پر کمانڈر تھے

کچھ خوش نصیب خلا بازوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کے باہر سپیس واک کریں یعنی خلا میں چہل قدمی کریں۔ ہیڈفیلڈ کو یہ موقع دو بار ملا۔ ’میں نے خلا میں 15 گھنٹے گزارے۔ میرے اور کائنات کے بیچ صرف میرا پلاسٹک کا ماسک تھا۔ یہ وقت ایسا ہی تھا جیسے زندگی کے کوئی دوسرے 15 گھنٹے۔‘

لیکن خلا میں چہل قدمی کے دوران آپ کا تعارف ’خلائی بو‘ سے ہوتا ہے۔ یہ کسی دھات کو سونگھنے جیسا ہے۔

ہیلن شرمن پہلی برطانوی خلا باز تھیں جنھوں نے سنہ 1991 میں سوویت سپیس سٹیشن پر آٹھ دن گزارے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’زمین پر آپمختلف طرح کی بو سونگھتے ہیں جیسے واشنگ مشین سے نکلنے والے کپڑے یا تازہ ہوا۔ لیکن خلا میں صرف ایک قسم کی بو ہوتی ہے۔ ہم جلد ہی اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔‘

خلا بازوں کا سوٹ یا سائنسی کٹ جیسی وہ چیزیں جو باہر رہ جائیں وہ خلا میں موجود شدید تابکاری سے متاثر ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ تابکاری سپیس سٹیشن کے اندر آکسیجن سے ری ایکٹ کرتی ہے جس سے دھاتی بو پیدا ہوتی ہے۔‘

جب وہ زمین پر واپس آئیں تو انھیں سونگھنے کی حس کی زیادہ قدر ہوئی۔ انھوں نے ان تجربات کے 23 سال بعد بتایا کہ ’خلا میں کوئی موسم نہیں ہوتا۔ آپ اپنے چہرے پر بارش کی بوندیں محسوس نہیں کر سکتے اور ہوا سے آپ کے بال نہیں اڑتے۔ میں اب ان چیزوں کی زیادہ قدر کرتی ہوں۔‘

آئی ایس ایس
BBC

طویل مدت تک قیام کرنے والے خلابازوں کو کام کے دوران روزانہ دو گھنٹے کی ورزش ضرور کرنی چاہیے۔ یہاں تین مختلف مشینیں ہیں جو زیرو گریویٹی میں رہنے کے اثر کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتی ہیں کیونکہ زیرو گریویٹی میں رہنے سے ہڈیوں کی کثافت کم ہوتی ہے۔

نکول سٹٹ کہتی ہیں کہ ایڈوانسڈ ریسسٹیو ایکسرسائز ڈیوائس (آے آر ای ڈی) سکویٹس، ڈیڈ لفٹس اور روز یعنی اٹھک بیٹھک، وزن اٹھانے اور کندھے کی ورزش کے لیے اچھی ہے جو تمام پٹھوں پر کام کرتی ہے۔

وہاں رہنے والے عملے دو ٹریڈملز کا استعمال کرتے ہیں جس میں وہ خود کو تیرنے سے روکنے کے لیے باندھنا پڑتا ہے، اور وہاں برداشت کی تربیت کے لیے ایک سائیکل ایرگومیٹر بھی ہے۔

'تین ماہ کے لیے پتلون کا ایک جوڑا'

نکول سٹٹ کہتی ہیں کہ ان سارے کاموں سے بہت زیادہ پسینہ نکلتا ہے جس سے کپڑے دھونے کا بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ 'ہمارے پاس لانڈری نہیں ہے، ہم اس پر صرف پانی ڈالتے ہیں جس سے کچھ بوندیں اور صابن والی چیزیں بنتی ہیں۔'

وہ کہتی ہیں کہ کشش ثقل کی کمی کے سبب جسم سے پسینہ کھینچے بغیر خلاباز پسینے کی تہہ میں ڈھک جاتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ 'وہاں زمین سے کہیں زیادہ' پسینہ نکلتا ہے۔

'میں اپنے سر پر پسینہ آتے ہوئے محسوس کرتی، مجھے اپنا سر جھاڑنا پڑتا۔ آپ اسے ہلانا نہیں چاہیں گے کیونکہ یہ ہر جگہ اڑتا رہے گا۔‘

نکول سٹٹ 104 دن تک آئی ایس ایس پر تھیں
NASA
ناسا کی خلاباز نکول سٹٹ آئی ایس ایس کے اندر تیر رہی ہیں

ان کے کپڑے اتنے گندے ہو جاتے ہیں کہ اسے کارگو گاڑی میں پھینک دیا جاتا ہے تاکہ یہ خلا میں جا کر جل جائے۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس کے مقابلے میں ان کے روزمرہ کے کپڑے صاف رہتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ 'زیرو گریویٹی میں، کپڑے جسم پر تیرتے ہیں، اس لیے تیل اور کوئی دوسری چیز ان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ میرے پاس تین مہینوں کے لیے پتلون کا ایک ہی جوڑا تھا۔'

اس کے بجائے کھانا سب سے زیادہ پریشانی کا سبب تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ 'مثال کے طور پر کوئی کھانے کا ایک ڈبہ کھولتا ہے جس میں گوشت اور گریوی ہے۔

'ہر کوئی چوکنا ہوجاتا ہے کیونکہ باہر چکنائی تیر رہی ہوتی ہے۔ لوگ گوشت کے پانی سے دور بھاگتے ہیں، جیسے میٹرکس فلم میں ہوتا ہے۔'

کسی وقت ایک اور طیارہ وہاں آ سکتا ہے جس پر نئے عملے ہو سکتے ہیں یا پھر کھانے کی چیزیں، اور کپڑے اور دیگر سامان کی فراہمی کے لیے وہ آتا ہے۔ ناسا سال میں چند سپلائی گاڑیاں بھیجتا ہے۔ کرس ہیڈ فیلڈ کا کہنا ہے کہ زمین سے خلائی سٹیشن پر پہنچنا 'حیرت انگیز' ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'یہ زندگی بدلنے والا لمحہ ہوتا ہے۔ آپ آئی ایس ایس سے وسیع کائنات کو دیکھتے ہیں اور ہماری زندگیاں محض اس کا ایک بلبلہ لگتی ہیں۔‘

زمین سے دوری
Getty Images

دن بھر کی محنت کے بعد رات کے کھانے کا وقت ہوتا ہے۔ کھانا زیادہ تر پیکٹوں میں مختلف ممالک کے لحاظ سے مختلف کمپارٹمنٹس میں رکھا جاتا ہے۔

نکول سٹٹ کہتی ہیں کہ 'یہ کیمپنگ فوڈ یا فوجیوں کے راشن کی طرح ہوتا ہے جو صحت مند ہوتا ہے۔'

وہ کہتی ہیں: 'میرے پسندیدہ کھانے جاپانی سالن، یا روسی سیریل اور سوپ تھے۔'

ان کے اہل خانہ اپنے پیاروں کے لیے بونس فوڈ پیک بھیجتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’میرے شوہر اور بیٹے نے میرے چھوٹی چھوٹی چیزیں چُنیں، جیسے چاکلیٹ سے ڈھکی ہوئی ادرک۔'

عملے کے لوگ اکثر اوقات اپنا کھانا ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں۔

ہیلن شرمن بتاتی ہیں کہ خلانوردوں کو ان کی بردباری، آرام دینے والے اور پرسکون جیسے ذاتی اوصاف پر منتخب کیا جاتا ہےاور پھر انھیں ایک ٹیم کے طور پر کام کرنے کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔ اس سے تصادم کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں: 'یہ صرف کسی کے برے رویے کو برداشت کرنے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اس کو بتانے کے لیے بھی ہے۔ اور ہم ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کے لیے ہمیشہ ایک دوسرے کو استعاراتی تھپکی دیتے ہیں۔'

’آپ آٹھ گھنٹوں تک سو سکتے ہیں‘

اور آخر میں شور والے ماحول میں ایک دن کے کام کے بعد آرام کرنے کا وقت (کاربن ڈائی آکسائیڈ کے پاکٹس کو منتشر کرنے پنکھے مسلسل چلتے رہتے ہیں تاکہ خلاباز سانس لے سکیں، اور یہ پنکھے کسی بہت ہی شور والے دفتر کی طرح بلند آواز ہوتے ہیں)۔

نکول سٹٹ کہتی ہیں: 'ہم آٹھ گھنٹے سو سکتے ہیں، لیکن زیادہ تر لوگ کھڑکی سے زمین کو دیکھنے میں پھنس جاتے ہیں۔'

تینوں خلابازوں نے اپنے آبائی سیارے کو مدار میں 400 کلومیٹر کی دوری سے دیکھنے کے نفسیاتی اثرات کے بارے میں بات کی۔

ہیلن شرمن کہتی ہیں: 'میں نے خلا کی اس وسعت میں خود کو بہت معمولی محسوس کیا۔ زمین کو اتنے واضح طور پر دیکھ کر، بادلوں کے تیرنے اور سمندروں کے چکر کو دیکھنے نے مجھے ان جغرافیائی سیاسی حدود کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا جو ہم بناتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم کس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔'

نکلول سٹٹ کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک کے چھ لوگوں کے ساتھ رہنا انھیں پسند آیا جس میں 'زمین پر تمام لو کی جانب سے کام کرنا، مل کر کام کرنا، یہ جاننا کہ مسائل سے کیسے نمٹا جائے' وغیرہ شامل ہیں۔

سنیتا ولیمز اور بچ ولمور
NASA
سنیتا ولیمز اور بچ ولمور

وہ پوچھتی ہیں کہ 'یہ ہمارے سیارے کے خلائی جہاز پر کیوں نہیں ہو سکتا؟'

بالآخر تمام خلابازوں کو آئی ایس ایس چھوڑ دینا ہے لیکن ان تینوں کا کہنا ہے کہ وہاں واپس آنا چاہیں گے۔

انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ لوگ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ ناسا کے خلاباز سنیتا ولیمز اور بوچ ولمور وہاں 'پھنسے ہوئے' ہیں۔

کرس ہیڈفیلڈ کا کہنا ہے کہ 'ہم نے خواب دیکھا، محنت کی اور اپنی پوری زندگی کو خلا میں طویل قیام کی امید میں تربیت دی۔ ایک پیشہ ور خلاباز کو آپ سب سے بڑا جو تحفہ دے سکتے ہیں وہ انھیں زیادہ دیر تک وہاں رہنے دینا ہے۔'

اور نکول سٹٹ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے آئی ایس ایس چھوڑا تو انھوں نے سوچا کہیں 'انھیں پنجوں سے پکڑ کر باہر لانے کے لیے کھینچنا نہ پڑے۔ مجھے نہیں معلوم کہ پھر میں کبھی واپس آؤں گی بھی یا نہیں۔'


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.