پاکستان کی وزارت خزانہ کی حالیہ رپورٹ نے قرضوں کی بڑھتی ہوئی صورت حال کو واضح کیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، ملک کا مجموعی قرض 71 ہزار 241 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، جس میں 8 ہزار 365 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر پاکستانی شہری پر تقریباً 2 لاکھ 95 ہزار روپے کا قرض ہے۔
مالی سال 2022-23 میں یہ قرض 62 ہزار 881 ارب روپے تھا، لیکن اب یہ جی ڈی پی کے 67.2 فیصد کے برابر ہے، جو ایک تشویشناک بات ہے۔
مقامی قرض میں بھی 8 ہزار 350 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، جس سے مجموعی مقامی قرض 47 ہزار 160 ارب روپے ہوگیا۔ بیرونی قرض بھی بڑھ کر 33 ہزار 62 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
خالص حکومتی بیرونی قرض 21 ہزار 754 ارب روپے ہے، جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا قرض بھی بڑھ کر 2 ہزار 332 ارب روپے ہوگیا ہے۔
مقامی قرض کا بڑا حصہ وفاقی حکومت کے بانڈز کی شکل میں ہے، جو 32 ہزار 793 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کی صورت میں یہ رقم 28 ہزار ارب سے زیادہ ہے، جبکہ اجارہ سکوک کی مد میں 4 ہزار 766 ارب روپے کا قرض ہے۔
پرائز بانڈز کی صورت میں مقامی قرض 345 ارب روپے، فارن کرنسی لون 374 ارب روپے، اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹ کے تحت 84 ارب روپے کا قرض ہے۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ ہر شہری کی مالی حالت مزید خراب ہو سکتی ہے۔