اب جب کہ 2006 کے بعد سے پہلی بار لبنان پر اسرائیلی حملہ جاری ہے، بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس سب میں لبنانی فوج کہاں ہے، اور اس نے اس کشیدگی کو خطے میں مزید بڑھنے اور اس کے علاقائی سطح پر اثرات سے بچنے کے لیے اب تک کیا کیا ہے؟
اسرائیل اور عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کے درمیان حالیہ تنازع دو واضح طور پر بیان کردہ موقفوں پر مبنی ہے، جو چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے قائم ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی سے ملک کے لیے خطرہ بننے والی تنظیم کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے جبکہ حزب اللہ اسرائیل کو تباہ کرنے کی کوشش میں اسرائیلی چوکیوں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔
گذشتہ 11 ماہ میں روزانہ کی بنیاد پر ایک دوسرے پر سرحد پار سے حملے ہوئے، جس نے کشیدگی کو مزید بڑھایا۔
اب جبکہ سنہ 2006 کے بعد سے پہلی بار لبنان پر اسرائیلی حملہ جاری ہے، بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس سب میں لبنانی فوج کہاں ہے اور اس نے اس کشیدگی کو خطے میں مزید بڑھنے اور اس کے علاقائی سطح پر اثرات سے بچنے کے لیے اب تک کیا کیا۔
کیا لبنانی فوج یا حزب اللہ لبنان کا دفاع کر رہی ہیں؟
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ لبنانی فوج اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی سے غیر حاضر ہے۔
یاد رہے کہ حزب اللہ کو امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن اس وقت اس تنظیم نے اس لڑائی میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
نظریاتی طور پر ملک کے دشمن سے لڑنا فوج کا کام ہے اور اسرائیل سرکاری طور پر لبنان کا دشمن ہے۔
لیکن لبنانی فوج کے پاس اس قسم کی لڑائی کے لیے ہتھیاروں اور توپ خانے کی کمی ہے جبکہ اسرائیلی فوج نہ صرف جدید ہتھیاروں سے لیس ہے بلکہ اس کو مغربی ممالک کی بھی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو مالی اور جدید ہتھیاروں کی فراہمی کا تعاون بھی حاصل ہے۔
اس کے علاوہ بہت سے لوگوں کا ایسا ماننا ہے کہ امریکہ لبنان کی حکومت کو ایسے جدید ترین ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالتا آیا ہے جو اسرائیل کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ کئی سابق اعلیٰ افسران اس بات کی حمایت میں گواہی دیتے آئے ہیں۔
سنہ 2020 میں بیروت میں کھاد کے گودام میں ہوئے تباہ کن دھماکے سے شدید اقتصادی بحران نے لبنانی فوج کے لیے معاملات کو مزید خراب کر دیا۔ فنڈز کی کمی نے اس کے عملے اور اس کی بنیادی آپریشنل ضروریات حتیٰ کہ ایندھن کی فراہم تک کو متاثر کیا۔
یہ بھی پڑھیے
امریکہ کی جانب سے لبنانی فوج کو دی جانے والی امداد
جو چیز اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہے وہ یہ کہ امریکہ جو حزب اللہ کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے وہی لبنان کی فوج کو سب سے زیادہ فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔
ایک عرصے تک واشنگٹن لبنان کے فوجیوں کی تنخواہوں میں بھی حصہ ڈالتا رہا ہے۔
لیکن امریکہ کی جانب سے لبنان کو دی جانے والی امداد گاڑیوں اور چھوٹے ہتھیاروں تک محدود ہے اور اس کا اسرائیل کو فراہم کردہ امداد سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری جانب مبصرین نشاندہی کرتے ہیں کہ لبنانی فوج کی اسرائیل کے خلاف لڑنے کی صلاحیت خطے کی دوسری فوجوں کی طرح ہی غیر موثر ہے۔
لبنانی حکومت کے سابق کوآرڈینیٹر برائے یونیفیل (اقوام متحدہ کی لبنان میں عبوری فوج) جنرل منیر شیہاد کہتے ہیں ’نہ تو لبنانی فوج اور نہ ہی کسی دوسری عرب فوج کے پاس ایسی صلاحیتیں ہیں کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کر سکیں۔‘
’اسرائیلی فوج کے ساتھ گوریلا جنگ کے علاوہ کوئی لڑائی مناسب نہیں جیسا کہ غزہ میں ہوا۔‘
لبنانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل خلیل ال ہیلو کا کہنا ہے کہ ’لبنانی فوج کا کردار اندرونی طور پر استحکام برقرار رکھنا ہے کیونکہ آج اندرونی طور پر حالات کافی نازک ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے اسرائیلی حملوں کی وجہ سے حزب اللہ کے حامی پانچ لاکھ افراد کی حزب اللہ مخالف علاقوں میں نقل مکانی سے تصادم خدشہ پیدا ہوا جو ملک میں بدامنی اور شاید خانہ جنگی تک کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی ہلاکت کے بعد لبنانی فوج کو بہت سے ایسے علاقوں میں تعینات کیا گیا جہاں مختلف گروہوں کے درمیان کشیدگی کا بہت زیادہ امکان تھا۔
لبنانی فوج کی جانب سے گزشتہ اتوار کو ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں شہریوں سے قومی اتحاد برقرار رکھنے پر زور دیا گیا تھا۔
لبنانی فوج کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
کیا لبنانی فوج اسرائیل کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے؟
تو سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ تنازعے میں لبنانی فوج کا کوئی کردار ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں تاہم لبنانی فوج کی ایک بڑی تعداد ملک کے جنوبی حصے میں موجود ہے۔
فوج کی جانب سے حال ہی میں بتایا گیا تھا کہ ایک لبنانی فوجی اسرائیلی ڈرون حملے میں اس وقت مارا گیا جب اسرائیل نے چوکی کے پاس سے گزرتی ایک موٹر سائیکل کو نشانہ بنایا تھا۔
اس کے علاوہ مستقبل میں ہونے والی کسی بھی جنگ بندی کے نتیجے میں جنوب میں لبنانی فوج کی بڑی تعیناتی کا امکان ہے۔ اس جانب حال ہی میں لبنانی وزیر اعظم نے بھی اشارہ دیا۔
تاہم ان سب کاموں میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ لبنانی فوج کو مزید اہلکاروں کی ضرورت ہے اور اس کے لیے رقم درکار ہے جو اس کی فوج کے پاس نہیں۔
اضافی رپورٹنگ: ایتھار شلابی اور جویا بربری، بی بی سی نیوز عریبک