سیٹلائٹس کی تصاویر بتاتی ہیں کہ کمبوڈیا کے ریام بحری اڈے پر تقریبا پورے سال دو سرمئی چیزیں نظر آتی رہی ہیں اور یہ وہ چیزیں ہیں جو واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے اندیشوں کی تصدیق کرتی نظر آتی ہیں۔
سیٹلائٹس سے لی گئی تصاویر بتاتی ہیں کہ کمبوڈیا کے ’ریام‘ نامی بحری اڈے پر گذشتہ ایک سال سے دو سرمئی رنگ کی چیزیں یا خاکے نظر آ رہے ہیں۔
بظاہر یہ ایک عام سی بات لگتی ہے مگر اس کے پیچھے بڑی کہانی ہے۔
یہ سرمئی رنگ کے خاکے واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے اندیشوں کی بظاہر تصدیق کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
درحقیقت یہ بحیرہ جنوبی چین کے تین متنازع جزیروں سے آگے چین کی فوجی موجودگی کے شواہد ہیں۔ خیال رہے ان تینوں متنازع جزیروں پر چین پہلے ہی قابض ہے اور اس نے انھیں قلعہ بند کیا ہوا ہے۔
سیٹلائٹس سے نظر آنے والی یہ شکلیں در اصل چینی بحریہ کے 1500 ٹن وزنی جہاز ’اے-56 کارویٹ‘ ہیں۔ اور انھیں ایک نئے چینی ساختہ بندرگاہ کے ساتھ لنگرانداز کروایا گیا ہے۔ یہ بندرگاہ بہت بڑے بحری جہازوں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کمبوڈیا کے ساحل پر دوسری ایسی سہولیات بھی میسر ہیں جنھیں چین نے تیار کیا ہے اور اُن سہولیات کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ چینی بحریہ کے زیرِ استعمال ہیں۔
کمبوڈیا کی حکومت نے اپنے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے بارہا ایسے کسی امکان سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’ریام‘ نامی بحری اڈہ تمام دوست ممالک کے بحری افواج کے استعمال کے لیے کُھلا ہے۔ واضح رہے کہ کمبوڈیا کا آئین اپنے ملک میں کسی بھی مستقل غیر ملکی فوجی موجودگی پر پابندی لگاتا ہے۔
کمبوڈیا کی رائل اکیڈمی میں پالیسی تجزیہ کار سیون سام کا کہنا ہے کہ ’براہ کرم سمجھیں کہ یہ (ریام بحری اڈہ) کمبوڈیا کا ہے، یہ چینی اڈہ نہیں ہے۔ کمبوڈیا بہت چھوٹا ملک ہے اور ہماری فوجی صلاحیتیں محدود ہیں۔‘
’ہمیں بیرونی دوستوں سے ،خاص طور پر، چین سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔‘
تاہم، دوسرے ممالک اسے شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
چین کی بحری طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب کہا جاتا ہے کہ اس کے بحری بیٹرے میں اب امریکہ سے زیادہ جہاز موجود ہیں لیکن چین کے پاس فی الوقت صرف ایک سمندر پار فوجی اڈہ ہے اور وہ افریقی ریاست جبوتی میں ہے۔ چین نے یہ فوجی اڈہ سنہ 2016 میں قائم کیا تھا۔
اس کے برعکس امریکہ کے پاس بیرونی ممالک میں 750 فوجی اڈے ہیں جن میں سے ایک جبوتی میں بھی ہے۔ امریکہ کے بہت سے فوجی اڈے چین کے پڑوسی ممالک جیسا کہ جاپان اور کوریا میں بھی ہیں۔
امریکہ کا خیال ہے کہ چین کے عالمی فوجی طاقت بننے کے عزائم کی وجہ سے دنیا کا توازن بدل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ذریعے بیرون ملک انفراسٹرکچر تعمیر کر رہا ہے اور اس پر جو پیسہ لگا رہا ہے وہ بھی قابل ذکر ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چینی قانون کے تحت بیرونی ممالک میں تعمیر کردہ یہ انفراسٹرکچر منصوبے فوجی معیار کے مطابق ہونے چاہییں۔
واشنگٹن میں کچھ لوگوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ چین کے پاس بالآخر چین سے باہر دیگر ممالک میں فوجی اڈوں کا ایک عالمی نیٹ ورک ہو گا، یا ایسی سویلین بندرگاہیں ہوں گی جنھیں وہ بوقت ضرورت فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر پائے گا۔ اور ان میں سے پہلی ایسی بندرگاہ کمبوڈیا کی ’ریام‘ ہے۔
خوشگوار تعلقات
ابھی کچھ سال پہلے تک کمبوڈیا کے جنوبی سرے پر واقع بندرگاہ ’ریام‘ کو امریکی مدد سے اپ گریڈ کیا جا رہا تھا اور ایسا کمبوڈیا کو فراہم کی جانے والی دسیوں ملین ڈالر کی سالانہ فوجی امداد کی مدد سے کیا جا رہا تھا۔ لیکن جب کمبوڈیا کی مرکزی اپوزیشن جماعت پر پابندی لگا دی گئی اور اس کے رہنماؤں کو جلاوطن کر دیا گیا یا جیل بھیج دیا گیا تو امریکہ نے سنہ 2017 کے بعد اس فوجی امداد کو روک دیا۔
چینی امداد اور سرمایہ کاری پر پہلے سے زیادہ انحصار کے بعد کمبوڈیا کی حکومت نے اچانک اپنا پارٹنر بدل لیا۔ اس نے امریکہ کے ساتھ منعقد ہونے والی باقاعدہ مشترکہ فوجی مشقوں کو منسوخ کر دیا اور اُن کی جگہ چین کے ساتھ نام نہاد ’گولڈن ڈریگن‘ مشقوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
سنہ 2020 میں ریام میں امریکی امداد سے چلنے والی دو عمارتوں کو منہدم کر دیا گیا اور وہاں موجود دیگر سہولیات کی چینی امداد سے توسیع شروع کر دی گئی۔ پچھلے سال کے آخر تک ایک نئی گودی (جہاز کے لنگرانداز ہونے کی جگہ) کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔
یہ جبوتی کے بندرگاہ پر بنائی گئی 363 میٹر لمبی گودی سے تقریباً مماثل ہے اور یہ اتنی بڑی ہے کہ چین کے سب سے بڑے طیارہ بردار بحری جہاز کو وہاں لنگرانداز کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد جلد ہی دو جنگی بحری جہاز ریام کی بندرگاہ پر لنگرانداز کر دیے گئے اور ایسا دیکھا گیا کہ وہ جہاز یا اسی قسم کے دوسرے جہاز وہاں سال بھر زیادہ تر ٹھہرے نظر آئے ہیں۔
کمبوڈیا کا دعویٰ ہے کہ یہ جہاز تربیت کے لیے ہیں اور یہ رواں سال کی گولڈن ڈریگن مشقوں کی تیاری کے لیے آئے ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین اپنی بحریہ کے لیے دو نئے اے-56 کارویٹ بنا رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ریام میں چین کی موجودگی مستقل نہیں ہے، اس لیے اسے چینی بیس کے طور پر شمار نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال کمبوڈیا کی ان وضاحتوں نے امریکی حکام کے خدشات کو دور نہیں کیا اور وہ بدستور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ سیٹلائٹ کی تصاویر میں نئی گودی کی تعمیر کے علاوہ وہاں ایک نئی خشک گودی، گودام، انتظامی دفاتر، رہائشی کوارٹرز اور چار باسکٹ بال کورٹس کی طرح دکھائی دینے والی چیزیں نظر آ رہی ہیں۔
سنہ 2019 میں وال سٹریٹ جرنل نے اس کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کمبوڈیا اور چین کے درمیان 77 ہیکٹر پر محیط فوجی اڈے کو 30 سال کے لیے لیز پر دینے کا ایک خفیہ معاہدہ ہوا ہے۔ اس معاہدے میں مبینہ طور پر فوجی اہلکاروں کی تعیناتی اور ہتھیاروں کی منتقلی بھی شامل تھی۔
کمبوڈیا کی حکومت نے اس رپورٹ کو ’جعلی خبر‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب تک صرف چینی جنگی جہازوں کو ہی نئی گودی پر لنگرانداز ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ فروری میں آنے والے دو جاپانی جنگی جہازوں کو اس گودی کے بجائے قریبی قصبے سیہانوک وِل میں لنگرانداز ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔
اگرچہ کمبوڈیا میں چین کی مستقل موجودگی کے امکانات زیادہ ہیں تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کسی بھی طرح کمبوڈیا کے آئین کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔
یہ تکنیکی طور پر درست ہے کہ ریام چین کے لیے مستقل بنیاد نہیں ہے۔ کیلی فورنیا میں قائم رینڈ کارپوریشن کے ایک سینیئر پالیسی ریسرچر کرسٹن گنیس نے کہا کہ چونکہ اس بندرگاہ کی توسیع چینی فنڈ سے کی جا رہی ہے اس لیے یہ اڈہ خود چین کو لیز پر نہیں دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم چینی بحری جہازوں کو (ریام میں) مسلسل لنگرانداز ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ آئینی ممانعت کی پاسداری کا ایک طریقہ یہ ہے کہ یہاں غیر ملکی افواج کو باری باری رسائی دی جائے تاکہ اسے غیر ملکی اڈہ نہ کہا جا سکے۔‘
گنیس نے مزید کہا کہ امریکہ اور فلپائن اسی طرح کے معاہدوں کے تحت کام کرتے ہیں۔
پڑوس کا خوف
زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ریام میں چین کی طویل مدتی موجودگی سے چین کو بہت کم حقیقی فوائد ملیں گے۔ اور اس کے لیے وہ ان تین اڈوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو چین پہلے ہی بحیرہ جنوبی چین کے مسچیف، فائری کراس اور سوبی ریفز پر بنا چکا ہے اور اس کے جنوبی ساحل پر وہ طاقتور بحری افواج رکھے ہوئے ہے۔
لیکن خلیج تھائی لینڈ کے دہانے پر ریام میں ایک چینی اڈہ کمبوڈیا کے پڑوسیوں تھائی لینڈ اور ویتنام کو پریشان کرتا ہے۔ مزید شمال میں دیگر اڈوں کے ساتھ مل کر اسے چین کی طرف سے ویتنام کے طویل ساحل کو گھیرے میں لینے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
فلپائن کی طرح ویتنام بھی بحیرہ جنوبی چین کے تقریباً تمام جزائر پر چین کے دعوے سے اختلاف کرتا ہے، اور اس کی افواج ماضی میں چین کے ساتھ متصادم بھی ہو چکی ہیں۔
تھائی قومی سلامتی کے حکام نے بھی نجی طور پر تھائی بحریہ کی مرکزی بندرگاہ سٹاہپ کے جنوب میں کسی چینی اڈے کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے جو کہ خلیج تھائی لینڈ سے ان کے نکلنے کے راستے کو گھیرتا ہے۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان اب بھی غیر حل شدہ علاقائی تنازعات موجود ہیں۔
لیکن کسی بھی ملک کا ان شکایتوں کے متعلق عوامی طور پر آواز اٹھانے کا امکان نہیں ہے۔ تھائی لینڈ چین کے ساتھ معاشی طور پر اپنے اہم تعلقات میں ہلچل پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہے گا، جبکہ ویتنام کمبوڈیا میں ویتنام مخالف جذبات کو بھڑکانے سے گریز کرنا چاہے گا۔ ویتنام میں چین کے خلاف عوامی ناراضگی دیکھی جاتی رہی ہے لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ویتنام کی حکومت صاف بچنا چاہے گی۔
دریں اثنا، امریکہ اور انڈیا کے سٹریٹیجسٹ بحر ہند میں چینی اڈے کے مستقبل کے امکان کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں کیونکہ وہ سری لنکا کی ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ کو دیکھ رہے ہیں جس کے لیے ایک چینی سرکاری کمپنی نے سنہ 2017 میں 99 سال کی لیز پر حاصل کیا ہے۔ اسی طرح وہ پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ کو دیکھتے ہیں جسے چینی فنڈنگ سے دوبارہ تیار کیا گیا ہے۔
لیکن یہ اب بھی بہت دور رس خدشات ہیں۔ شاید ہی کوئی تجزیہ کار ہے جس کا یہ خیال ہے کہ چین مزید کئی سالوں تک امریکہ کی عالمی سطح پر فوجی موجودگی کا مقابلہ کر سکے گا۔
سی ایس آئی ایس یعنی ایشیا میری ٹائم ٹرانسپیرنسی انیشی ایٹو کے ڈائریکٹر گریگ پولنگ نے کہا کہ ’ریام بیس عسکری قوت کے اظہار میں زیادہ اضافہ نہیں کرتا ہے اور یہ چینی بحریہ کو ان جگہوں کے قریب نہیں پہنچا رہا ہے جہاں وہ پہنچنا چاہتی ہے۔‘
یہاں سے وہ زیادہ سے زیادہ انٹیلیجنس اکٹھا کرنے، سیٹلائٹ سے باخبر رہنے اور طویل فاصلے کے اہداف کا پتہ لگانے یا ان کی نگرانی میں بڑا فرق پیدا کرنے کا کام کر سکتا ہے۔
مسٹر پولنگ کا کہنا ہے کہ ’لیکن ضروری نہیں کہ یہ چین کے لیے بہترین آپشنز ہوں لیکن وہ اتنا ہی کچھ پیش کر سکتے ہیں جتنا وہاں سے ممکن ہے۔‘