ایران کی جانب سے اسرائیل پر گذشتہ ہفتے بیلسٹک میزائل حملوں کے بعد اسرائیل کے ممکنہ ردعمل کے بارے میں سوال یہ نہیں ہے کہ وہ کیا ہو گا اور کیسا ہو گا بلکہ سوال یہ ہے کہ اسرائیل ممکنہ حملہ کر کرے گا اور اب بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اس سلسلے میں الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔
ایران کی جانب سے اسرائیل پر گذشتہ ہفتے بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے بعد اسرائیل کے ممکنہ ردعمل کے بارے میں سوال یہ نہیں ہے کہ کیا وہ کیسا اور کس نوعیت کا ہو گا بلکہ یہ ہے کہ اسرائیل یہ جواب کب دے گا اور ایسا لگ رہا ہے کہ اس سلسلے میں الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کے بیلسٹک میزائلاً حملے اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ اور حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کا جواب تھا۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے بدھ کے روز اس عزم کا اظہار کیا کہ جب اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائی کی جائے گی تو یہ ’باقاعدہ ہدف بنا کر کی جائے گی اور مہلک‘ ہو گی اور یہ بھی کہ ایران اس کا اندازہ نہیں لگا پائے گا۔
ایران نے خلیجی عرب ریاستوں کو، جن میں سے بعض کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں، خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی فضائی حدود کو اسرائیل کے ممکنہ جوابی حملے کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ جو بھی ملک ایران پر حملہ کرنے میں اسرائیل کی مدد کرے گا اسے کسی بھی ایرانی ردعمل کا ہدف سمجھا جائے گا۔
یہ صرف کچھ ایسے عوامل ہیں جن پر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اسرائیلی ردعمل کے حوالے سے غور کیا جا رہا ہے۔ واشنگٹن پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کسی بھی اسرائیلی اقدام کا مخالف ہے۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب میں چار ہفتوں سے بھی کم وقت ہے اور ایسی صورتحال میں وائٹ ہاؤس ایرانی تیل کی تنصیبات پر کسی بھی ایسے حملے کا خیرمقدم نہیں کرے گا جس کا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑ سکتا ہے اور نہ ہی وہ مشرق وسطیٰ کی ایک اور جنگ میں گھسیٹا جانا چاہے گا۔
اسرائیل کیا کر سکتا ہے؟
اسرائیل کے اتحادیوں نے رواں برس اپریل میں اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد تحمل کے مظاہرے پر جس طرح زور دیا تھا وہ اس مرتبہ دکھائی نہیں دے رہا اور اسرائیل کے لبنان، غزہ، یمن اور شام میں اپنے تمام دشمنوں کا ایک ساتھ مقابلہ کرنے کے عزم کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ نتن یاہو کی حکومت پیچھے ہٹنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
امریکی سیٹلائٹ انٹیلیجنس اور ایران میں موساد کے جاسوسوں کی مدد سے، اسرائیلی فوج کے پاس انتخاب کرنے کے لیے ایران میں وسیع اہداف موجود ہیں جنھیں تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
• روایتی فوجی اہداف: ایک ابتدائی اور واضح ہدف وہ اڈے ہوں گے جہاں سے ایران نے وہ بیلسٹک میزائل داغے تھے جو اسرائیل تک پہنچے۔ تو اس کا مطلب ہے لانچ پیڈ، کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز، ایندھن بھرنے والے ٹینک اور بنکروں میں بنے گودام۔ اسرائیل اس کے علاوہ پاسدارانِ انقلاب کے اڈوں کے ساتھ ساتھ فضائی دفاع کے نظام اور دیگر میزائل بیٹریوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ وہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں شامل اہم افراد کو قتل کرنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔
• اقتصادی اہداف: اس میں ایران کے پیٹرو کیمیکل پلانٹس، اس کی بجلی کی پیداوار کے کارخانے اور ممکنہ طور پر اس کے جہاز رانی کا شعبہ شامل ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ ایرانی عوام کی نظر میں ایک انتہائی غیرمقبول اقدام ہو گا کیونکہ اس سے عام لوگوں کی زندگیوں کو فوج پر کسی بھی حملے سے کہیں زیادہ نقصان پہنچے گا۔
• جوہری اہداف: یہ اسرائیل کے لیے بڑا قدم ہو گا۔ اقوام متحدہ کا جوہری نگراں ادارہ اس معروف حقیقت کی تصدیق کر چکا ہے کہ ایران سول نیوکلیئر پاور کے لیے درکار 20 فیصد سے کہیں زیادہ یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔ اسرائیل اور دیگر کو شبہ ہے کہ ایران اس ’بریک آؤٹ پوائنٹ‘ تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے جہاں سے وہ بہت قلیل مدت میں جوہری بم بنانے کے قابل ہو سکے۔ اسرائیل کی ایرانی جوہری اہداف کی ممکنہ فہرست میں ایران کے فوجی جوہری پروگرام کا مرکز پارچین، تہران میں بوناب اور رامسر میں ریسرچ ری ایکٹرز کے علاوہ بوشہر، نتنز، اصفہان اور فردو میں اہم جوہری تنصیبات شامل ہیں۔
ایران کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟
اسرائیل کے حساب کتاب کا ایک بڑا حصہ اپنے بدلے کے جواب میں ایران کے ردعمل کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنا اور اسے ناکام بنانے کے طریقے پر مشتمل ہو گا۔
ایرانی مؤقف یہ ہے کہ منگل کو اس کی جانب سے اسرائیل کے فوجی اہداف پر داغے گئے بیلسٹک میزائلوں کے بعد اب حساب برابر ہو چکا ہے لیکن اس نے متنبہ ہے کہ اگر اسرائیل نے مزید کارروائی کی تو وہ پھر جوابی حملہ کرے گا۔
ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے کہا کہ یہ ہماری صلاحیتوں کی صرف ایک جھلک ہے۔ پاسدارانِ انقلاب نے اس پیغام کو تقویت دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر صیہونی حکومت نے ایران کی کارروائیوں کا جواب دیا تو اسے کچل دینے والے حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
ایران اسرائیل کو فوجی طور پر شکست نہیں دے سکتا۔ اس کی فضائیہ پرانی اور خستہ حال ہے، اس کا فضائی دفاع غیر محفوظ ہے اور اسے گذشتہ کئی برسوں سے سخت مغربی پابندیوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے۔
لیکن اس کے پاس اب بھی بیلسٹک اور دیگر میزائلوں کے ساتھ ساتھ دھماکہ خیز مواد سے لدے ڈرونز اور مشرق وسطیٰ میں متعدد اتحادی ملیشیاز (عسکریت پسند گروہ) بھی موجود ہیں۔ اس کے میزائل اگلی بار فوجی اڈوں کے بجائے اسرائیلی رہائشی علاقوں کو باآسانی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ سنہ 2019 میں سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے حملے نے دکھایا تھا کہ ایران کے لیے پڑوسیوں پر حملہ کرنا کتنا آسان ہے۔
پاسدارانِ انقلاب کی بحریہ جو خلیجِ فارس میں کام کرتی ہے، کے پاس چھوٹی مگر تیزی سے میزائل حملے کرنے والی کشتیوں کے بڑے بیڑے ہیں جو ممکنہ طور پر امریکی بحریہ کے پانچویں بحری بیڑے کو ایک مربوط حملے میں مغلوب کر سکتے ہیں۔
اگر اسے ایسا کرنے کا حکم دیا گیا تو وہ آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش بھی کر سکتی ہے، جس سے دنیا میں روزانہ کی بنیاد پر تیل کی 20 فیصد برآمدات میں خلل پڑ سکتا ہے، جس کا عالمی معیشت پر بُرا اثر پڑے گا۔
اور پھر کویت سے عمان تک خلیج فارس کے عرب کنارے پر اوپر اور نیچے امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ ایران نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ صرف اسرائیل پر ہی جوابی حملہ نہیں کرے گا بلکہ وہ اس حملے کی حمایت کرنے والے کسی بھی ملک کو نشانہ بنائے گا۔
یہ صرف کچھ ایسے منظرنامے ہیں جن پر تل ابیب اور واشنگٹن کے دفاعی منصوبہ ساز اب غور کر رہے ہوں گے۔