’وائٹ ہاؤس کی چابی‘: وہ امریکی ریاست جہاں کملا اور ٹرمپ کی تشہیر کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے گئے

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جو صدارتی امیدوار پینسلوینیا میں فاتح ہوگا، اس کے امریکی صدر بننے کے امکانات 90 فیصد تک ہوں گے۔ پینسلوینیا کو ’کی سٹون سٹیٹ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس بار صدارتی انتخاب میں وائٹ ہاؤس کی چابی ثابت ہوسکتی ہے۔
کملا ہیرس، ٹرمپ
Getty Images

وائٹ ہاؤس کا پتا بھلے ہی 1600 پینسلوینیا ایونیو ہے لیکن امریکی صدر کے دفتر کا راستہ دراصل پینسلوینیا سے ہو کر گزرتا ہے جو کہ امریکی صدارتی اتنخاب میں ووٹوں کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل امریکی ریاست ہے۔

انتخابی تجزیہ کار نیٹ سِلور کے مطابق جو بھی صدارتی امیدوار پینسلوینیا میں فاتح ٹھہرے گا، اس کے امریکی صدر بننے کے امکانات 90 فیصد تک ہوں گے۔

ماضی میں پینسلوینیا سے رُکن کانگرس منتخب ہونے والے پیٹرک مرفی کہتے ہیں کہ ’پینسلوینیا تمام سوئنگ سٹیٹس (وہ ریاستیں جہاں دونوں امیدوار مقبول ہیں) میں کسی دادا جیسا درجہ رکھتی ہیں۔‘

پینسلوینیا میں 19 الیکٹورل ووٹ ہیں اور یہ آبادی کے اعتبار سے امریکہ کی پانچویں سب سے بڑی ریاست ہے۔ کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کے لیے ہی یہ سوئنگ ریاست انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔

اگر ڈیموکریٹس پینسلوینیا، وسکونسن، مشیگن اور نیبراسکا کے ایک کانگریشنل ڈسٹرکٹ میں جیتنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کملا ہیرس امریکہ کی اگلی صدر منتخب ہو جائیں گی۔

اور اگر رپبلکن پارٹی پینسلوینیا، نارتھ کیرولینا اور جارجیا جیسی ریاستوں میں جیت گئے تو ڈونلڈ ٹرمپ اگلے برس ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں بطور صدر داخل ہوجائیں گے۔

پینسلوینیا کو ’کی سٹون سٹیٹ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس بار صدارتی انتخاب میں وائٹ ہاؤس کی چابی بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کی تشہیر کے لیے سب سے زیادہ رقم پینسلوینیا میں خرچ کی گئی ہے۔ کملا ہیرس کے لیے قریب 10 کروڑ ڈالر اور ٹرمپ کے لیے یہاں قریب نو کروڑ ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ، کملا ہیرس
Getty Images

پینسلوینیا اہم کیوں ہے؟

پینسلوینیا نہ صرف صدارتی انتخاب کے اعتبار سے سب سے زیادہ قیمتی تصور کی جانے والی سوئنگ ریاست ہے بلکہ اس کا ماحول سیاسی، اقتصادی اور آبادی کے اعتبار سے ’مِنی امریکہ‘ جیسا ہے۔

یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں نہ صرف نئی انڈسٹریاں لگائی جا رہی ہیں بلکہ تیل کے وافر ذخائر کے سبب یہاں بڑا انرجی سیکٹر بھی موجود ہے۔

اس کے علاوہ تمام سیکٹرز میں یہاں زراعت کو اہمیت دی جاتی ہے اور پینسلوینیا میں آج بھی دوسرا بڑا شعبہ زراعت کا ہی ہے۔

پینسلوینیا میں بڑی آبادی سفید فام افراد کی ہے لیکن یہاں پناہ گزینوں کی تعداد بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے۔

پینسلوینیا میں ایلن ٹاؤن جیسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں فیکٹریاں قائم ہیں اور یہاں آبادی کا بڑا حصہ ہسپانوی یا لاطینی امریکی زبانیں بولتا ہے۔

پینسلوینیا میں سیاہ فام افراد کی آبادی بھی 12 فیصد ہے۔

سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس ریاست کے دو بڑے شہری علاقے فلاڈیلفیا اور پٹسبرگ میں ہمیشہ ڈیموکریٹس کا پلڑا بھاری رہا ہے۔

ان دو شہروں کے بیچ ایک وسیع دیہی علاقہ ہے جہاں ریپبلکن پارٹی کو حمایت حاصل رہی ہے۔ ان علاقوں کے نواح میں واقع علاقے ماضی میں کنزرویٹیو تصور کیے جاتے تھے لیکن اب ان کا جھکاؤ بائیں طرف کے نظریات کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ان تمام عوامل کے سبب پینسلوینیا ہمیشہ ہی صدارتی انتخاب کے اعتبار سے دلچسپ ریاست رہی ہے۔ سنہ 2020 میں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن یہاں 80 ہزار ووٹوں سے جیتے تھے، جبکہ سنہ 2016 میں اسی ریاست میں ڈونلڈ ٹرمپ نے حیران کُن طور پر ہیلری کلنٹن کو 40 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔

امریکی کی گذشتہ 40 سالہ تاریخ میں براک اوبامہ وہ واحد صدر تھے جو 2008 کے صدارتی انتخاب میں پینسلوینیا میں اپنے مخالف امیدوار سے 10 فیصد زیادہ ووٹ لے کر جیتے تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ، کملا ہیرس
Getty Images

موجودہ اندازوں کے مطابق پینسلوینیا میں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

اے بی سی/583 نیوز کے انتخابی اندازے کے مطابق فی الحال پینسلوینیا میں کملا ہیرس کو ووٹوں کے اعتبار سے ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک فیصد سے بھی کم سبقت حاصل ہے۔

امریکی صدارتی انتخاب میں وائٹ ہاؤس کی چابی

ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس دونوں کی ہی ٹیمیں پینسلوینیا میں اپنے تمام تر وسائل استعمال کر رہی ہیں۔ دیگر امریکی ریاستوں کے مقابلے میں دونوں ہی صدارتی امیدوار پینسلوینیا میں ٹی وی اشتہارات پر سب سے زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ دونوں ہی صدارتی امیدوار تواتر سے پینسلوینیا کے دورے کر رہے ہیں۔

کملا ہیرس نے اپنے نائب صدر کے امیدوار ٹِم والٹز کے نام کا اعلان بھی ایک انتخابی ریلی کے دوران فلاڈیلفیا میں ہی کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ صدارتی مباحثے کی تیاری بھی کملا ہیرس نے پٹسبرگ میں کی تھی۔

اس کے دو ہی ہفتوں بعد انھوں نے پٹسبرگ میں اپنی اقتصادی اور معاشی ترجیحات بھی ایک تقریر کے دوران پیش کی تھیں۔

گذشتہ سنیچر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے پینسلوینیا کے علاقے بٹلر میں ایک بہت بڑی ریلی سے خطاب کیا تھا۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں رواں برس جولائی میں ان پر ایک ریلی کے دوران قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔

اور جب دونوں صدارتی امیدوار پینسلوینیا میں ہوتے تو تب ان کی ٹیمیں یا ان کے حامی سیاستدان یا انتخابی مہم چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے پینسلوینیا کے سابق گورنر ایڈ رینڈل کہتے ہیں کہ ’ایک امیدوار 12 ہزار لوگوں سے بات کرنے ایک کاؤنٹی میں نہیں جا سکتا۔ یہ ایک بہت بڑی ریاست ہے اور وقت کم ہے۔‘

ایڈ رینڈل کہتے ہیں کہ پینسلوینیا کے گورنر جوش شپیرو یہاں ڈیموکریٹس کے بہت کام آ رہے ہیں کیونکہ وہ یہاں بہت مقبول ہیں اور ایک اچھے مقرر بھی ہیں، اس لیے وہ نائب صدر کے امیدوار بھی تصور کیے جا رہے تھے۔

پہلی خاتون امریکی صدر بننے کے لیے کملا ہیرس کو نہ صرف فلاڈیلفیا اور پٹسبرگ میں بڑی تعددا میں ووٹ لینے ہوں گے بلکہ نواحی علاقوں جیتنا ہوگا تاکہ وہ پوری ریاست میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مجموعی ووٹوں کی تعداد کو ٹھیس پہنچا سکیں۔

اس حکمت عملی کا سب سے اہم حصہ ہے کہ روشن خیال ووٹرز اور رپبلکن پارٹی کے حامیوں بشمول وہ ایک لاکھ 60 ہزار افراد جنھوں نے رپبلکن پرائمری میں نکّی ہیلی کو ووٹ دیا تھا ان کا دل جیتا جائے۔

امریکی سینیٹ میں سابق رپبلکن سیاستدان کریگ سنائیڈر ان افراد میں ہیں جو کہ نکّی ہیلی کے حامیوں کو کملا ہیرس کو ووٹ دینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پینسلوینیا میں لوگ کملا ہیرس کی ماضی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے بارے میں سُننا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ وہ متوازن پالیسیاں اپنائیں اور وہ یہ سننا چاہتے ہیں کہ کملا ہیرس انتہائی بائیں باوز کے نظریات نہیں رکھتیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کملا ہیرس کی ٹیم پیسلوینیا میں رپبلکن ووٹروں تک رسائی حاصل کرنے کی جی توڑ کوششیں کر رہی ہے۔

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی یہ ہے کہ پینسلوینیا کے کنزرویٹیو سمجھے جانے والے حصوں میں زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کی جائے اور ان لوگوں کو متحرک کیا جائے جنھوں نے ماضی کے انتخابات میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

لگتا ایسا ہی ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم کی حکمت عملی پینسلوینیا میں کام کر رہی ہے کیونکہ پوری ریاست میں بھلے ہی رجسٹر ڈیموکریٹ ووٹرز کی تعداد رپبلکن ووٹرز سے زیادہ ہو لیکن یہ تعداد کچھ ہزار افراد سے زیادہ نہیں۔

ٹرمپ کی ٹیم کے لیے شاید کالج سے تعلیم حاصل کرنے والے افراد کو قائل کرنا مشکل ہو لیکن ان کی پوری کوشش ہے کہ پینسلوینیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی نوکری پیشہ افراد اور نوجوان سیاہ فام افراد کو ٹرمپ کے حق میں قائل کیا جائے۔

ڈونلڈ ٹرمپ، کملا ہیرس
Getty Images

تعلیم کے پھیلاؤ کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن فارح جیمینیز کہتی ہیں کہ ’ہم نے قومی سطح پر دیکھا ہے کہ ٹرمپ حقیقی طور پر افریقہ نژاد امریکی مردوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘

’وہ سب فلاڈیلفیا میں ہی ہیں اور اگر آپ ان کے تحفظات دور کر سکیں اور انھیں درپیش مسائل کے بارے میں براہ راست بات کرسکیں تو کم از کم رپبلکن پارٹی کو یہاں ایک مضبوط سیاسی بنیاد میسر آ جائے گی۔‘

پینسلوینیا اور ووٹوں کی گنتی

چار سال قبل گذشتہ امریکی صدارتی انتخاب میں پینسلوینیا سے انتخابی نتائج آنے میں تین دن لگے تھے کیونکہ وہاں کورونا وائرس کے سبب 20 لاکھ سے زیادہ ووٹ میل کے ذریعے ڈالے گئے تھے۔

اسی وجہ سے امریکہ کے بڑے میڈیا اداروں نے بھی صدارتی انتخاب کے چار دنوں کے بعد پینسلوینیا سے جو بائیڈن کو فاتح قرار دیا تھا۔

اس برس صدارتی انتخاب میں میل کے ذریعے ووٹ ڈالنے میں کمی کا امکان ہے۔ پینسلوینیا میں انتجابی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں ابھی تک میل کے ذریعے دو لاکھ 17 ہزار ووٹ موصول ہو چکے ہیں جو کہ قانون کے مطابق الیکشن کی رات تک نہیں کھولے جائیں گے۔

پینسلوینیا میں 27 ہزار ووٹرز ایسے بھی ہیں جو کہ فوجی ڈیوٹی پر تعینات ہیں یا ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں۔ یہ ووٹ اکثر دیر سے موصول ہوتے ہیں لیکن اگر کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ مزید قریبی ثابت ہوتا ہے تو یہ 27 ہزار ووٹ فیصلہ کُن ثابت ہو سکتے ہیں۔

کریگ سنائیڈر کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ صدارتی انتخاب کے بعد یہاں ووٹوں کی گنتی میں کافی دن لگیں گے۔ اور اگر (دونوں ہی امیدواروں کے) ووٹوں کی تعداد قریب قریب رہی تو پھر ہمیں یہاں قانونی لڑائی اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں دیکھنے کو ملیں گی۔

’اس کے لیے تمام لوگ تیار رہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.