بیروت جو کبھی ’عرب دنیا کا پیرس‘ کہلاتا تھا اور جہاں فیض احمد فیض نے پناہ لی

بیروت جہاں آج ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی ہے کبھی دنیا کے خوبصورت اور خوشحال شہروں میں شمار ہوتا تھا۔
بیروت
Getty Images
1948 میں بیروت کے ساحل سمندر کا ایک منظر

بیروت جہاں آج ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی ہے کبھی دنیا کے خوبصورت اور خوشحال شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ بیروت کا سنہری دور 1955 سے 1975 تک تھا۔

اس وقت بیروت مشرق وسطیٰ کا ثقافتی اور مالیاتی مرکز بن چکا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب ساحل کنارے لگژری فائیو سٹار ہوٹل کھلنے لگے تھے۔

سمیر کاسر اپنی کتاب ’بیروت‘ میں اس دور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’راتوں رات نئے نائٹ کلب کھل گئے تھے جہاں ہالی وڈ کے ستارے، دنیا کی مشہور شخصیات اور تیل کے کنوؤں کے مالکان آتے تھے۔ قریب ہی امریکی یونیورسٹی تھی جو ایک طرح سے پورے شہر کا فکری مرکز تھی۔‘

شاید بیروت کا سب سے مشہور مقام سینٹ جارجز ہوٹل تھا جسے مشہور فرانسیسی معمار اگست پیرے نے ڈیزائن کیا تھا۔ 1934 میں تعمیر ہونے والے اس ہوٹل کو دنیا کے مشہور لوگوں کی پسند بننے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔

سمیر کیسیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’مشہور اداکار پیٹر او ٹول، مارلن برانڈو، لز ٹیلر اور رچرڈ برٹن کو اس کی لابی میں ٹہلتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اردن کے شاہ حسین اور ایران کے شاہ رضا پہلوی اپنی بیوی کے ساتھ اکثر یہیں چھٹیاں گزارتے تھے۔‘

لبنانی ماہر اقتصادیات جارجز کورم اپنی کتاب ’فریگمینٹیشن آف مڈل ایسٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بہت سے لوگوں نے کم فلبی کو، جو شاید اس صدی کے سب سے بڑے ڈبل ایجنٹ ہیں، ہوٹل کے بار میں بیٹھے دیکھا۔ بیروت کی اشرافیہ اس جگہ گھومتی پھرتی تھی۔ لیکن وہ رک کر انھیں دیکھتے تھے۔ انھیں دیکھنا بھی ایک اعزاز ہے۔‘

’ووگ‘ میگزین نے لکھا کہ ’اس وقت کے بیروت کا موازنہ کسی بھی جدید یورپی شہر سے کیا جا سکتا ہے۔‘

فنکاروں، شاعروں اور دانشوروں کا شہر

بیروت
Getty Images
بیروت کی ایک سڑک کا منظر

بیروت کی حمرا سٹریٹ کا موازنہ پیرس کی مشہور شاؤنزے لیزے سے کیا جاتا تھا۔ یہاں خوبصورت فیشن سٹورز، تھیٹر، بوتیک، ریستوران، کیفے اور ہوٹلوں کی قطاریں تھیں جہاں دنیا بھر کے فنکار، شاعر، دانشور اور ادیب جمع ہوتے تھے۔

صرف حمرا سٹریٹ پر ایک درجن سے زیادہ سینما گھر تھے جن میں ایلڈوراڈو، پیکاڈیلی اور ورسائی خاص طور پر مشہور تھے۔

بیروت کے وسط میں پرانے بازار بھی تھے جہاں مقامی لوگ خریداری کرتے تھے۔ بیروت پر فرانس کا اثر فطری تھا کیونکہ یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے فرانس کے قبضے میں تھا اور اسے 1943 میں ہی آزادی ملی تھی۔

بیروت
Getty Images
1955 سے 1975 کے سال بیروت کے سنہری دور تھے

سنہ 1952 میں بیروت کے مرکز کے باہر ایک کلب کھولا گیا تھا جہاں بیروت کے بڑے تاجر تیراکی اور شراب نوشی کے لیے جاتے تھے۔

ساحل سمندر کے قریب واقع کیسینو ڈو لبان نہ صرف دنیا بھر کے جواریوں کی پناہ گاہ تھا بلکہ ڈیوک ایلنگٹن جیسے پیانو بجانے والےفنکار اور جیک بریل جیسے گلوکار وہاں پرفارم کیا کرتے تھے۔

اس وقت بیروت بینکاری، تجارت اور سیاحت کا بھی مرکز تھا۔ بحیرہ روم کے مشرق میں کام کرنے والی کمپنیاں، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اپنا ہیڈکوارٹر قائم کرتی تھیں کیونکہ وہاں اچھے مواصلاتی ذرائع، سکولوں اور یونیورسٹیوں کی کمی نہیں تھی۔

فلموں کی شوٹنگ

बेरूत
Getty Images
1965 کی فلم ’24 آورز ٹو کِل‘ میں بیروت اور اس کے آس پاس کے مناظر نے ناظرین کو بہت زیادہ متاثر کیا

لبنان کے ایک طرف برف سے لدے پہاڑ اور دوسری طرف خوبصورت ساحل تھے۔ وہاں کے لوگ پوری دنیا سے آنے والے لوگوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نظر آئے۔

اس دوران پرورش پانے والے بہت سے لبنانی اب بھی گرمیوں کے موسم کو یاد کرتے ہیں جب سیاح بیروت آتے تھے۔

ملک بھر میں ہریالی تھی اور کئی مقامات پر لوگ پکنک مناتے نظر آئے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں سینما نے دنیا کے سامنے ایک ایسے دلکش بیروت کی تصویر پیش کی جہاں فلمی ستارے اور جاسوس ٹہلتے نظر آتے تھے۔

سنیما پروڈکشن کمپنیوں کے لیے بیروت کی کشش کی وجہ اس کا لبرل ٹیکس نظام بھی تھا۔

لبنان 50 کی دہائی میں ایک خوشحال ملک ہوا کرتا تھا، اس کی بنیادی وجہ اس کی لبرل اقتصادی پالیسی تھی جس میں سماجی و اقتصادی ترقی کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔

1965 کی فلم ’24 آورز ٹو کِل‘ میں بیروت اور اس کے آس پاس کے مناظر کی بہترین تصویر کشی کی گئی۔

اس فلم میں نہ صرف مکی رونی کی اداکاری لاجواب تھی بلکہ جدید بیروت اور اس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے، سینٹ جارجز ہوٹل اور کیسینو ڈو لیبن کے دلکش مناظر نے پوری دنیا کے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

اس کے علاوہ ’سیکرٹ ایجنٹ 777‘، ’ویئر دی سپائز آر‘، ’ایجنٹ 505‘ جیسی کئی فلمیں بھی بیروت میں فلمائی گئیں۔

बेरूत
Getty Images
1982 میں خانہ جنگی کے دوران بیروت میں امریکی فوجیوں کا ایک دستہ

خانہ جنگی

1975 سے بیروت کا ماحول بدلنا شروع ہوا اور وہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

اگلے 15 سال میں بیروت میں ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور تقریباً 10 لاکھ لوگ بیروت چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

بیروت ایک طرح سے شہر کے وسط سے گزرنے والی گرین لائن کے ذریعے دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔

مشرقی علاقے پر عیسائی جنگجوؤں کا غلبہ تھا جب کہ مغربی خطہ فلسطینی اور سنی جنگجوؤں کا گڑھ تھا۔ بیروت کے سنہری دور کے بہت سے نشانات جیسے سینٹ جارجز ہوٹل خانہ جنگی میں تباہ ہو گئے۔ کبھی اس پر ایک لڑنے والے دھڑے کا قبضہ ہوتا تھا اور کبھی دوسرے دھڑے کا۔

1978 میں شامی فوجی بیروت میں داخل ہوئے جنھوں نے مشرقی علاقے کو اپنی توپوں سے نشانہ بنایا۔ 1982 کی لبنان جنگ کے دوران مغربی بیروت کا ایک بڑا حصہ اسرائیل کے کنٹرول میں تھا۔

جب فیض احمد فیض نے بیروت میں پناہ لی

1982 میں اسرائیل کے حملے کے بعد ’آرامکو ورلڈ میگزین‘ میں بہت سے یورپیوں کے مضامین شائع ہوئے جن میں انھوں نے جنگ سے پہلے کے لبنان کو بیان کیا تھا اور اس کی خوبصورتی، خوشحالی اور معیشت کی تباہی پر دکھ کا اظہار کیا تھا۔

لیکن اس سب کے باوجود بہت سے لوگوں نے مشکل دنوں میں بھی بیروت میں پناہ لی۔ ان میں سے ایک اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیض تھے۔

جنرل ضیاالحق کے دور میں جب فیض کا پاکستان میں رہنا مشکل ہو گیا تو انھوں نے بیروت میں بدامنی کے باوجود چند سال وہاں گزارے۔ وہیں رہ کر انھوں نے ’لوٹس‘ میگزین کی ایڈیٹنگ کی۔

جب اسرائیل نے 1982 میں بیروت پر حملہ کیا تو وہ بیروت چھوڑ کر اپنے ملک واپس چلا گئے۔

बेरूत
Getty Images
2002 میں بیروت میں مس یورپ مقابلہ منعقد ہوا

شہر نے کئی بار تباہی دیکھی

1990 میں جنگ کے خاتمے کے بعد بیروت کی تعمیر نو کی کوششیں شروع ہوئیں اور شہر نے اپنی پرانی حیثیت دوبارہ حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھائے۔

ایشین کلب باسکٹ بال اور ایشین فٹ بال کے مقابلے وہاں منعقد ہوئے۔

یہی نہیں گذشتہ 25 سالوں میں تین بار بیروت میں مس یورپ مقابلے کا انعقاد بھی کیا گیا۔ سات سال قبل 2017 میں ’ایگزیکٹو‘ میگزین نے لکھا تھا کہ لبنان ایک بار پھر سیاحوں کا انتخاب بن رہا ہے۔

وہاں منعقد کیے گئے ڈیزائن اور آرٹ میلے بہت سے تخلیقی لوگوں کو وہاں آنے کے لیے راغب کر رہے ہیں۔

’آرٹ نیٹ پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’بیروت شاید پناہ گزینوں کے مسائل، ناقص انفراسٹرکچر اور سیاسی عدم استحکام سے نبردآزما ہے لیکن وہاں کا آرٹ اب بھی بے مثال ہے۔‘

لیکن اس سب کے باوجود بیروت کے ماضی نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ بیروت کی تباہی ایک طرح سے اس کی پہچان بن گئی۔

کئی دہائیوں تک شہر ایک بحران سے دوسرے بحران سے نمٹتا رہا۔ مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔

وہاں کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ 4 اگست 2020 کو بیروت کی بندرگاہ پر ایک زبردست دھماکہ ہوا جس میں 180 افراد ہلاک اور 6000 زخمی ہوئے۔

اس دھماکے سے شہر کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا اور تقریباً تین لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے۔ بیروت پر تازہ ترین اسرائیلی حملے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ شہر ایک بار پھر تباہی کا شکار ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts