’بوچا کی جادوگرنیاں‘ جو قدیم ہتھیاروں سے جدید روسی ڈرون گرا رہی ہیں

’بوچا کی جادوگرنیاں‘ اس رضاکار فضائی دفاعی یونٹ کا نام ہے جو تقریباً مکمل طور پر خواتین پر مشتمل ہے جو یوکرین کی حفاظت میں مدد کر رہی ہیں۔
The Witches of Bucha - part of the volunteer formation of Bucha territorial community - at their training facility
BBC/James Cheyne
’بوچا کی جادوگرنیاں‘ اس رضاکار فضائی دفاعی یونٹ کا نام ہے جو تقریباً مکمل طور پر خواتین پر مشتمل ہے

جب بوچا پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو ’جادوگرنیاں‘ باہر نکل آتی ہیں، کیونکہ یہ وہی وقت ہوتا ہے جب روسی ڈرون حملہ آور ہونے لگتے ہیں۔

’بوچا کی جادوگرنیاں‘ اس رضاکار فضائی دفاعی یونٹ کا نام ہے جو تقریباً مکمل طور پر خواتین پر مشتمل ہے اور اب یوکرین کی حفاظت میں مدد کر رہی ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ مردوں کو اگلے مورچوں پر بھیجا جا رہا ہے۔

نشانہ بنانے کے لیے روسی ڈرونز کی کمی نہیں جنھیں اکثر میزائل حملوں سے قبل دفاعی نظام کو مغلوب کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

رات کے وقت اپنے ملک کے دفاع میں مصروف ان خواتین میں سے کوئی دن میں استاد کی حیثیت سے تعلیم دیتی نظر آتی ہے تو کوئی بطور ڈاکٹر لوگوں کی تکالیف کا مداوا کرنے میں مصروف ملتی ہے۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا یہ کام اس بےبسی پر قابو پانے کا ایک طریقہ ہے جو انھوں نے تب محسوس کی تھا جب روسی افواج نے یوکرین پر حملے کے آغاز میں بوچا پر قبضہ کیا تھا۔

ان ہفتوں کی خوفناک کہانیاں جن میں قتل، تشدد اور اغوا کی داستانیں شامل ہیں - مارچ 2022 کے آخر میں یوکرین کی افواج کی جانب سے اس علاقے کو آزاد کروائے جانے کے بعد ہی سامنے آئیں۔

فضائی حملے اور قدیم ہتھیار

’میں 51 سال کی ہوں، میرا وزن 100 کلوگرام ہے، میں دوڑ نہیں سکتی۔ مجھے لگا تھا کہ وہ مجھے مسترد کر دیں گے، لیکن انھوں نے مجھے رکھ لیا‘۔

یہ کہنا ہے ویلنٹینا کا جو جانوروں کی ڈاکٹر ہیں۔ انھوں نے رواں برس موسم گرما میں ’ڈرون بسٹرز‘ کے ساتھ کام شروع کیا اور اب اپنے کال سائن ’ویلکری‘ سے پہچانی جاتی ہیں۔

ویلنٹینا کے خیال میں ان کے جنگ میں حصہ لینے کے فیصلے کے پیچھے ان دوستوں کی یادیں ہیں جو یا اگلے محاذوں پر تعینات ہیں یا پھر لڑائی میں مارے جا چکے ہیں۔

Valentyna (call sign Valkyrie) in combat training
BBC/James Cheyne
51 سالہ ویلنٹینا کے خیال میں ان کے جنگ میں حصہ لینے کے فیصلے کے پیچھے ان دوستوں کی یادیں ہیں

’میں یہ کام کر سکتی ہوں۔ سامان بھاری ہے، لیکن ہم خواتین یہ کر سکتی ہیں‘۔

ویلینٹینا کو اس کا ثبوت چند گھنٹے بعد ہی دینا پڑتا ہے جب پورے علاقے میں فضائی الرٹ سامنے آتا ہے۔

ان کی یونٹ جنگل میں قائم اپنے اڈے سے نکل کر پھیل جاتی ہے اور ہم اندھیرے میں ان کے پک اپ ٹرک کا پیچھا کرتے ہیں۔ یہ ٹرک ایک میدان کے وسط میں رکتا ہے تو چار افراد کی ٹیم اپنے ہتھیار نصب کرنے لگتی ہے۔

ان کا اسلحہ قدیم ہے۔ 1939 میں بنی دو میکسم مشین گنیں اور گولیوں کے ایسے ڈبے جن پر سوویت دور کی سرخ ستاروں والی مہر لگی ہوئی تھی جبکہ ٹیم کا واحد مرد رکن سرہی ہتھیار کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی ہاتھ سے ڈالنے پر مجبور ہے۔

یہ وہ سب کچھ ہے جو دستیاب ہے: یوکرین کے بہترین ہتھیار اگلے محاذِ جنگ پر ہیں اور وہ اپنے اتحادیوں سے مسلسل مزید ہتھیار مانگ رہا ہے۔

لیکن قدیم ہتھیاروں کو بھی بہترین حالت میں کام کے قابل رکھا گیا ہے اور ’جادوگرنیوں‘ کا کہنا ہے کہ انھوں نے موسم گرما کے بعد سے تین ڈرون مار گرائے ہیں۔

The witches - with a male colleague - mount their machine gun during the night op
BBC/James Cheyne
ان فضائی دفاعی یونٹوں کے پاس موجود اسلحہ قدیم مگر کام کے قابل ہے

ویلنٹینا بتاتی ہیں ’میرا کام آوازیں سننا ہے۔ یہ اعصاب شکن کام ہے لیکن ہمیں ذرا سی آواز بھی سننے کے لیے توجہ مرکوز رکھنی ہوتی ہے۔‘

ان کی دوست اِنا بھی 50 برس سے زیادہ کی ہیں اور یہ ان کی یونٹ میں ابتدائی تعیناتیوں میں سے ایک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہاں یہ خوفناک ہے لیکن وہ تو بچے کو جنم دینابھی ہے اور میں نے پھر بھی تین بار ایسا کیا۔‘

وہ ہنستے ہوئے مجھے بتاتی ہیں کہ ان کا کال سائن چیری ہے اور اس کی وجہ ’میری گاڑی ہے ٹماٹر نہیں۔‘

انا ریاضی کی استاد ہیں اور کبھی کبھار انھیں اپنی کلاس پڑھانے کے لیے جنگل سے نکلنا پڑتا ہے۔

’میں اپنے کپڑے گاڑی میں رکھتی ہوں اور میرے اونچی ایڑھی والے جوتے بھی۔ بس لپ سٹک لگائی، سبق پڑھایا، پھرگاڑی میں واپس آ کر لباس بدلا اور یہ جا وہ جا۔

’مرد چلے گئے ہیں، لیکن ہم یہاں ہیں. یوکرینی خواتین کیا نہیں کر سکتیں؟ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں‘۔

Inna (Call sign Cherry)
BBC/James Cheyne
انا ریاضی کی استاد ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ بطور رضاکار بھی کام کر رہی ہیں

افق پر کہیں ایک دوسرے گروہ کی طرف سے روشنی کی کرن ابھرتی ہے، جو اپنے گشت کے علاقے میں آسمانوں کو خطرے کی تلاش میں کھنگال رہی ہے۔

رضاکار یونٹوں کی کل تعداد - یا ان میں شامل خواتین کے بارے میں کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں لیکن چونکہ روس تقریباً ہر رات بارود سے بھرے ڈرون بھیجتا ہے، یہ یونٹ بڑے قصبوں اور شہروں کے گرد ایک اضافی ڈھال بنانے میں مدد کرتے ہیں۔

ایک میدان میں ’جادوگرنیوں‘ کی ایک پوزیشن سے، یولیا اپنے ٹیبلٹ پر دو ڈرونز پر نظر رکھتی ہیں۔ وہ پڑوسی علاقے پر موجود ہیں، اس لیے بوچا کے لیے فوری کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن مشین گنیں الرٹ ختم ہونے تک اپنی جگہ پر نصب رہیں گی۔

’کوئی مرد نہیں بچا‘

ان رضاکاروں کا کمانڈر ایک دیوقامت مرد ہے، جو مشرقی ڈونباس کے اس علاقے پوکروسک سے حال ہی میں واپس آیا ہے جہاں شدید لڑائی ہوئی ہے۔

کرنل اینڈری ورلاٹی نے مسکراتے ہوئے وہاں کے ماحول کو کچھ اس طرح بیان کیا: ’وہاں آتش بازی جاری ہے اور وہ بھی بغیر کسی وقفے کے‘۔

ان کے پاس بوچا کے علاقے میں موبائل ایئر ڈیفنس یونٹس چلانے اور رات کے کرفیو کے دوران گشت کرنے والے تقریباً 200 آدمی ہوتے تھے، جن میں سے اکثر مکمل فوجی خدمات کے قابل نہیں تھے۔

اس کے بعد یوکرین نے مزید فوجیوں کی فوری ضرورت کے پیش نظر اپنے موبلائزیشن قانون پر نظر ثانی کی، اور ورلاٹی کے عملے میں سے بہت سے افراد کو اچانک مرکزی محاذِ جنگ پر تعیناتی کے لیے اہل قرار دے دیا گیا۔

Col Andriy Verlatyy, Commander, Bucha Volunteer Formation
BBC/James Cheyne
کرنل اینڈری ورلاٹی کے مطابق ابتدا میں خواتین کو بھرتی کرنے کے معاملے پر عدم اعتماد تھا تاہم اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے

کرنل ورلاٹی کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس موجود آدمیوں میں سے تقریباً 90 فیصد فوج میں شامل ہو گئے اور باقی 10فیصد چھپ گئے۔ سب چوہوں کی طرح بکھر گئے اور ہمارے پاس بمشکل چند لوگ بچے۔ ایسے مرد جن کی ٹانگیں نہیں ہیں یا کسی کی آدھی کھوپڑی غائب ہے۔‘

انھیں ایک فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ کم عمر مردوں کو اس کام پر لگائیں یا خواتین کو بھرتی کریں۔

وہ کہتے ہیں ’پہلے تو یہ ایک مذاق کی طرح تھا کہ چلو خواتین کو بھرتی کر لیں۔ مسلح افواج کو ان پر زیادہ اعتماد نہیں تھا۔ لیکن اب یہ سوچ بدل گئی ہے۔‘

’مجھے اپنے ہی بچے کی چیخیں یاد ہیں‘

بوچا کی جادوگرنیاں ہفتے کے اختتام پر چھٹی کے دن وسیع تر فوجی تربیت کے پروگرام میں شریک ہوتی ہیں۔ جس دن ہم وہاں گئے، وہ ان اس تربیت کا پہلا دن تھا۔ انھیں ایک عمارت پر حملہ کرنے کا طریقہ سکھایا جا رہا تھا اور وہ ایک فارم ہاؤس کے کھنڈرات میں یہ مشق کر رہی تھیں۔

ان میں سے کچھ دیگر کے مقابلے میں زیادہ تیار لگ رہی تھیں لیکن سب خواتین کا عزم اور ارتکاز واضح تھا– کیونکہ ان کے پاس یہ تربیت لینے کی وجوہات ذاتی اور اہم ہیں۔

آہیں بھرتی ویلنٹینا کا کہنا تھا ’مجھے قبضہ یاد ہے، وحشت یاد ہے، مجھے اپنے ہی بچے کی چیخیں یاد ہیں۔ مجھے وہ لاشیں یاد ہیں جو ہم نے تب دیکھیں جب ہم بھاگ رہے تھے۔‘

ان کا خاندان بوچا سے جلے ہوئے ٹینکوں، ہلاک ہونے والے فوجیوں اور شہریوں کی لاشوں کے درمیان سے فرار ہوا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک روسی چوکی پرتعینات فوجی نے انھیں گاڑی کے دروازے کا شیشہ نیچے کرنے کو کہا اور پھر ان کے بیٹے کے سر پر بندوق تان لی۔

وہ خاموش ہیں مگر غصے سے بھری ہوئی ہیں۔ ’زندگی بدل گئی ہے، ہمارے تمام منصوبے درہم برہم ہو گئے ہیں لیکن میں اس جنگ کے خاتمے میں مدد کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ جیسا کہ یہاں ہماری لڑکیاں کہتی ہیں، یہ ہمارے بغیر ختم نہیں ہو گا۔‘

Members of the military Volunteer formation of Bucha territorial community
BBC/James Cheyne
یوکرین کے شہری اپنے ملک کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں

ہاتھ میں بندوق پکڑے اور اپنے فوجی جوتوں سے ٹوٹے ہوئے شیشوں اور ملبے کو کچلتی آفس مینیجر آنیا ایک اور رضاکار ہیں۔ وہ 52 سال کی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ فوجی تربیت نے انھیں بااختیار بنایا ہے۔

’روسی قبضے کے دوران میں نے اپنے وجود کو بالکل بےمقصد پایا تھا۔ میں نہ کسی کی مدد کر سکتی تھی اور نہ ہی اپنا دفاع۔ میں ہتھیاروں کا استعمال سیکھنا چاہتی تھی، تاکہ میں کچھ کر سکوں۔‘

بوچا پر قبضے کے بعد روسی افواج نے گھر گھر تلاشی کا عمل سرانجام دیا اور اس دوران ریپ اور قتل کے واقعات پیش آئے۔ پھر ایک دن یہ افواہ پھیلی کہ روسی بچوں کو مارنے آ رہے ہیں۔

ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ’میں نے اس دن جو فیصلہ کیا اس کے لیے میں روسیوں کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔‘

اس خاتون نے اپنے اس انتہائی اقدام کے بارے میں مجھے بتایا لیکن میں اس کی تفصیلات نہیں بتا سکتی۔ وہ تو روسی فوجی آئے نہیں اور انھیں اس انتہائی اقدام پر مجبور نہیں ہونا پڑا لیکن اس خاتون کو وہ لمحہ اور غلطی کا احساس مسلسل ستاتا رہا۔

اس خاتون کے مطابق اس دن کے بعد پہلی بار انھوں نے اس دن اطمینان کی سانس لی جب وہ اپنا، اپنے خاندان اور اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لیے تربیت کے عمل میں شامل ہوئیں۔

وہ آہستہ آواز میں مجھے بتاتی ہیں ’یہاں آنے سے واقعی مدد ملی کیونکہ اب میں دوبارہ کبھی کسی کے شکار کی طرح نہیں بیٹھی رہوں گی اور نہ ہی ڈروں گی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.