ہردیپ سنگھ نجر کا قتل: ’انڈیا کینیڈا پر وہ الزمات لگا رہا ہے جو وہ پاکستان پر عائد کرتا ہے‘

گذشتہ برس سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ رہنما نجر کے قتل کے بعد کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی میں بدستور اضافہ ہوتا آیا ہے اور اب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو بھی ملک بدر کر دیا ہے۔
ہردیپ سنگھ نجر
Reuters

گذشتہ برس سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی میں بدستور اضافہ ہوتا آیا ہے اور اب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو بھی ملک بدر کر دیا ہے۔

اس سے قبل بھی انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں لیکن یہ معاملات کبھی سفارکاروں کی بے دخلی تک نہیں پہنچے۔

سنہ 1974 میں انڈیا نے دنیا کو اس وقت حیران کردیا تھا جب اس نے پہلی مرتبہ جوہری ہتھیار کا تجربہ کیا تھا اور اس وقت کینیڈا نے الزام لگایا تھا کہ انڈیا نے پلوٹینیم کینیڈا کے تحفے میں دیے گئے ری ایکٹر کا استعمال کر کے حاصل کیا ہے۔

اس معاملے کے بعد انڈیا اور کینیڈا کے درمیان تعلقات میں بہتری تو آئی تھی لیکن کینیڈا نے انڈیا کے ایٹمی انرجی پروگرام کے لیے کسی بھی قسم کی مدد معطل کر دی تھی۔

اس کے باوجود بھی دونوں ممالک نے اپنے سفاتکاروں کو ملک بدر نہیں کیا تھا لیکن گذشتہ برس ہردیپ سنگھ نجر کے کینیڈا میں قتل کے بعد سوموار کو دونوں ممالک نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سفارتکاروں کو بھی اپنے اپنے ملک سے بے دخل کر دیا۔

خیال رہے انڈیا نے ہردیپ سنگھ نجر کو دہشگرد قرار دیا ہوا تھا۔ اس سے قبل کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کہہ چکے ہیں کہ ان کے ملک کی پولیس جون 2023 میں ہونے والے قتل میں انڈین ایجنٹس کے براہ راست ملوث ہونے کے الزامات پر تحقیقات کر رہی ہے۔

کینیڈین پولیس کے مطابق کینیڈا میں انڈین ایجنٹس خالصتان کے حامی افراد کے خلاف ’قتل، بھتہ خوری اور پرُتشدد کارروائیوں‘ میں ملوث ہیں۔ انڈیا نے الزامات کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے۔ ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ ’کینیڈا کی حکومت کے الزامات انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور انھیں سنجیدگی سے ہی دیکھنے اور انڈیا میں تفتیش کرنے کی ضرورت ہے لیکن انڈیا نے ایک مختلف راستہ چنا ہے۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق واشنگٹن نے دلی میں حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کی ہلاکت کے معاملے پر کینیڈا سے تعاون کریں۔

کینیڈا میں تقریباً سات لاکھ 77 ہزار سکھ آباد ہیں۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں سکھ علیحدگی پسند تحریک کے دوران کافی قتل و غارت گری بھی ہوئی تھی اور اس سبب بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔

انڈیا کینیڈا پر الزام لگاتا آیا ہے کہ اس نے اپنی سرحدی حدود کے اندر خالصتان تحریک کے حامیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

انڈیا، پاکستان
Getty Images
سنہ 2016 میں وزیر اعظم ٹروڈو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی کابینہ میں وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ سے زیادہ سکھ اراکین شامل ہیں

امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر سے منسلک مائیکل کگلمین کہتے ہیں کہ ’کئی برسوں سے کینیڈا اور النڈیا کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں لیکن اب یہ مزید پستی میں گِر گئے ہیں۔‘

’عوامی طور پر انتہائی سنگین اور تفصیلی الزامات، سفارتکاروں کی ملک بدری، سخت زبان پر مبنی سفارتی بیانات۔ ایسا پہلے تعلقات کی خرابی کے دوران بھی نہیں دیکھا گیا ہے۔‘

دیگر تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو تاریخ میں پہلی بار اس صورتحال کا سامنا ہے۔

واٹرلو میں واقع سینیٹ جیروم یونیورسٹی سے منسلک تاریخ کے پروفیسر رائن ٹوہے کہتے ہیں کہ ’جسٹن ٹروڈو کی حکومت میں انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں بڑی گراوٹ آئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ سابق کینیڈین وزیر اعظم سٹیفن ہارپر کی حکومت نے کینیڈا اور انڈیا کے درمیان ’کثیر المیعاد رابطوں‘ کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی اور وہ خالصتان اور جوہری معاملات کو دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے دیتے تھے۔

’اس کے بجائے انھوں نے تعلیم، تجارت اور کینیڈا میں انڈین شہریوں کی بڑی تعداد کے سبب عوامی تعلقات پر توجہ مرکوز کی ہوئی تھی۔ یہ بھی یار رکھنے کی ضرورت ہے کہ 2000 کی دہائی کی شروعات کے بعد خالصتان کا معاملہ بھی منظرِعام سے غائب ہوگیا تھا۔ لیکن یہ ایک بار پھر دوبارہ اچانک اُبھرا ہے۔‘

کینیڈا کی جانب سے انڈیا کے خلاف الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب وہاں انتخابات بس ایک برس دور رہے گئے ہیں اور وزیر اعظم ٹروڈو کو اپنے ملک میں سیاسی مشکلات کا سامنا ہے۔

اِپسوس کے ایک نئے سروے کے مطابق کینیڈا میں صرف 28 فیصد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ جسٹن ٹروڈو کو دوبارہ وزیراعظم منتخب ہونا چاہیے جبکہ صرف 26 فیصد افراد ایسے ہیں جو کہ اگلے انتخابات میں لبرلز کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ کینیڈا کی جانب سے الزامات ’ٹروڈو حکومت کے سیاسی ایجنڈے اور ووٹ بینک سیاست‘ کے سبب لگائے گئے ہیں۔

سنہ 2016 میں وزیر اعظم ٹروڈو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی کابینہ میں وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ سے زیادہ سکھ اراکین شامل ہیں۔ خیال رہے اس وقت وزیر اعظم ٹروڈو کی حکومت میں چار سکھ وزیر شامل تھے۔

کینیڈا کی سیاست میں سکھ برادری بڑا اثر و رسوخ رکھتی ہے اور کینیڈین پارلیمنٹ میں ان کے پاس چار فیصد یعنی 15 نشستیں ہیں۔

سنہ 2020 میں وزیراعظم ٹروڈو نے انڈین میں جاری کسانوں کے احتجاجی مظاہروں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا اور ان کے اس تبصرے پر انڈین حکوم نے اس وقت بھی تنقید کی تھی۔

رائن ٹوہے کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ اس سفارتی بحران کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسٹن ٹروڈو ایسے وزیر اعظم ہیں جو کہ ایک بحران سے دوسرا بحران پیدا کر لیتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں کینیڈا میں انڈین برادری میں سکھ اور پنجابی بڑی تعداد میں تھے لیکن اب یہاں ہندو، جنوبی انڈیا اور مغربی انڈین ریاست گجرات کے شہری بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

انڈیا، پاکستان
Getty Images
کینیڈا میں تقریباً سات لاکھ 77 ہزار سکھ آباد ہیں

’سنہ 1990 کی دہائی کے بعد انڈیا میں آنے والی معاشی تبدیلی پر انھیں فخر ہے اور سکھ علیحدگی پسند جذبات سے انھیں کوئی ہمدردی نہیں ہوگی۔‘

تاہم رائن ٹوہے کے خیال میں کینیڈا کی جانب سے انڈیا پر عائد کیے گئے الزامات کا کینیڈا کی ملکی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کینیڈین حکومت نے ’بار بار کینیڈا میں مقیم خالصتان کے حامیوں سے متعلق انڈیا کی جانب سے آنے والے اشاروں کو نظر انداز کیا۔‘

’میرا خیال ہے کہ دہائیوں تک کینیڈین حکومت سے خالصتان کے حامیوں کے حوالے سے تحفظات کو سنجیدگی سے لینے کی درخواستوں کے بعد انڈین حکام یہ سمجھتے ہیں کہ ان درخواستوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اب دہلی میں ایک مختلف حکومت ہے جو کہ صحیح اور غلط کی پرواہ کیے بغیر اپنے خلاف خطرات کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

مائیکل کگلمین بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

’یہاں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو دونوں ممالک کے دوران خراب ہوتے تعلقات کی وجہ ہیں۔ انڈیا جسے اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے کینیڈا اُسے محض ایکٹوازم اور اختلاف سمجھتا ہے جسے آزادی اظہار رائے کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ دونوں ہی فریقین اس سے پیچھے ہٹنے پر راضی نہیں۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صورتحال انتہائی سنگین ہوتی جا رہی ہے۔

’انڈیا اب کینیڈا پر وہ الزمات لگا رہا ہے جو کہ وہ عام طور پر پاکستان پر عائد کرتا ہے۔ وہ کینیڈا پر دہشتگردوں کو پناہ دینے اور مدد دینے کا الزام لگا رہا ہے۔‘

مائیکل کگلمین کہتے ہیں کہ ’لیکن حالیہ دنوں میں کینیڈا کے خلاف انڈیا کی جانب سے استعمال ہونے والی زبان پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والی زبان بھی زیادہ سخت ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.