سارہ شریف قتل کیس: ’خون آلود کرکٹ بیٹ‘ اور حجاب سے زخم چھپانے کی کوشش

برطانیہ میں اپنے والد، سوتیلی والدہ اور چچا کے تشدد سے مبینہ طور پر ہلال ہونے والی 10 سالہ سارہ شریف کو دو سال سے گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا جس کے دوران انھیں سر پر نقاب اوڑھا کر پیٹا اور جلایا بھی گیا۔

انتباہ: اس تحریر میں چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

برطانیہ میں اپنے والد، سوتیلی والدہ اور چچا کے تشدد سے مبینہ طور پر ہلال ہونے والی 10 سالہ سارہ شریف کو دو سال سے گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا جس کے دوران انھیں سر پر نقاب اوڑھا کر پیٹا اور جلایا بھی گیا۔

برطانیہ کی ایک عدالت میں سارہ شریف قتل کیس کی سماعت کے دوران سامنے آنے والی نئی تفصیلات کے مطابق جنوری 2023 میں سارہ نے اپنے چہرے کی چوٹوں کو چھپانے کے لیے حجاب کا استعمال شروع کر دیا تھا۔

اولڈ بیلی کی عدالت میں جیوری کو بتایا گیا کہ ’پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ سارہ کے جسم پر انسانی دانتوں سے کاٹے جانے کے نشانات سمیت گرم استری سے لگنے والا اور گرم پانی سے آنے والے زخموں کے نشان بھی تھے۔‘

واضح رہے کہ سارہ شریف کی لاش گزشتہ سال 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر سے ملی تھی جس سے ایک ہی دن قبل ان کے اہلخانہ پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔ سارہ کے والد عرفان شریف، ان کی اہلیہ بینش بتول اور عرفان کے بھائی فیصل ملک پولیس کو اس وقت سے مطلوب تھے۔

حجاب سے زخموں کو چھپانے کی کوشش

وکیل استغاثہ بل ایملن جونز نے عدالت میں کہا کہ ’سارہ کا حجاب چہرے اور سر پر لگنے والی چوٹوں کو باہر کی دنیا سے چھپانے کی کوشش تھا۔‘

عدالت میں یہ بھی بتایا گیا کہ سارہ جس پرائمری سکول میں پڑھتی تھیں وہاں جون 2022 میں ان کی بائیں آنکھ کے نیچے ایک زخم کا نشان دیکھا گیا اور بعد میں تھوڑی اور دائیں آنکھ پر بھی نشانات مارچ 2023 میں نوٹس کیے گئے۔

تاہم وکیل کے مطابق سارہ نے ان زخموں کے بارے میں متضاد کہانیاں گھڑیں اور جب ان سے سکول میں استاد سوال کرتے تو انھوں نے حجاب پہننا شروع کر دیا۔

عدالت میں بتایا گیا کہ سارہ کے ایک پڑوسی کے مطابق یہ بات کافی عجیب تھی کہ اس گھر میں رہنے والوں میں سے صرف سارہ ہی حجاب کیا کرتی تھیں۔ اپریل 2023 میں سارہ نے سکول جانا چھوڑ دیا اور بظاہر انھیں گھر پر ہی تعلیم دی جاتی تھی۔

وکیل استغاثہ نے پڑوسیوں کے بیانات بھی سنائے جن میں سے ایک خاتون کے مطابق انھوں نے سارہ کی موت سے دو دن قبل ’ایک انتہائی بلند چیخ سنی تھی جو چند سیکنڈ بعد اچانک بند ہو گئی۔‘

سارہ کے اہلخانہ کے پرانے گھر کے قریب رہنے والی ایک اور خاتون کے بیان کے مطابق ان کو ’چھوٹے بچوں کی انتہائی بلند تکلیف دہ چیخیں سنائی دیا کرتی تھیں۔‘

ایک اور سابقہ پڑوسی کے بیان کے مطابق انھیں بچوں کے رونے یا چیخنے چلانے کے ساتھ پیٹنے جیسی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ وکیل کے مطابق اس پڑوسی نے پہلے سوشل سروس کو مطلع کرنے کا سوچا لیکن پھر اپنا ارادہ بدل لیا۔

’خون آلود کرکٹ بیٹ‘

وکیل ایملن جونز نے کہا کہ خاندان کے گھر کے باہر سے خون آلود کرکٹ بیٹ، ایک دھاتی ڈنڈہ، ایک بیلٹ اور رسی سمیت ایک پن ملی جس پر سارہ کا ڈی این اے پایا گیا۔

انھوں نے جیوری کے سامنے کہا کہ ’ان چوٹوں اور سارہ کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو دوبارہ دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان میں چند چوٹیں انھیں دی گئیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ سارہ کے گھر کے باہر کچرے دان میں ایسے پلاسٹک کے تھیلے ملے جس پر پارسل پیک کرنے کا ٹیپ لپیٹا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ سارہ کی سوتیلی والدہ بینش بتول نے دو الگ الگ آن لائن آرڈرز میں ایسے پارسل ٹیپ کے 18 رولز منگوائے تھے۔

’یہ ظاہر ہے کہ یہ کیا ہیں۔ یہ گھر میں بنائے ہوئے ہُڈ (سر اور چہرہ ڈھانپنے والا ماسک) ہیں۔ یہ سارہ کو پہنائے گئے اور ان پر ٹیپ لگایا گیا۔‘

’اگر یہ کام گھر کا کوئی بڑا کر رہا تھا تو کسی نے سارہ کو چھڑایا کیوں نہیں؟ انھوں نے سارہ کی مدد کیوں نہیں کی اور اس برے سلوک کو کیوں نہیں روکا؟‘

’بیچاری بچی چل نہیں پا رہی‘

سماعت میں بتایا گیا کہ بینش بتول نے اپنی بہنوں کو ٹیکسٹ پیغامات بھی بھیجے جن میں وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے شوہر گھر میں سارہ کو تکلیف پہنچا رہے ہیں۔

انھوں نے مئی 2021 میں ایک پیغام میں کہاکہ سارہ کا جسم ’زخموں سے بھرا ہوا ہے۔ گہرے سیاہ نیل پڑے ہوئے ہیں۔‘

اس میں لکھا گیا کہ ’بیچاری بچی چل نہیں پا رہی ہے۔‘

2022 کے موسم گرما میں بینش بتول نے اپنی بہن کو ٹیکسٹ پیغامات بھیجے جن میں تشویش کا اظہار کیا گیا کہ وہ سارہ کا زخم کیسے چھپائیں گی۔

’میں اسے چھپا نہیں سکتی۔‘

’(عرفان نے) کل سارہ کو مارا تھا اور میں اسے اس حال میں سکول نہیں بھیج سکتی۔‘

ایک پولیس افسر نے ثبوت دیتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے سارہ کو اپنے بستر میں ایسے پایا جیسے ان کے جسم پر کسی نے چادر ’ڈالی ہوئی ہو۔‘

والد کا اعتراف

اس سے قبل سماعت میں بتایا گیا کہ سارہ شریف کے پاکستان میں موجود والد نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے ہی اپنی 10 سالہ بیٹی کو برطانیہ میں قتل کیا تھا۔

برطانیہ میں اس مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا ہے کہ یہ اعتراف عرفان شریف نے پاکستان سے فون کے ذریعے کیا۔

عرفان شریف نے گزشتہ سال برطانیہ کے علاقے سرے میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد اپنے اہلخانہ سمیت پاکستان پہنچتے ہی آٹھ منٹ کی فون کال میں اعتراف جرم کر لیا تھا۔ تب تک سارہ شریف کی لاش بھی نہیں ملی تھی۔

تاہم مقدمہ کی سماعت کے دوران 42 سالہ عرفان شریف، سارہ کی 30 سالہ سوتیلی والدہ بینش بتول اور عرفان کے 29 سالہ بھائی اور سارہ کے چچا فیصل ملک نے قتل کے الزام سے انکار کیا تھا۔

عدالت میں بتایا گیا کہ عرفان شریف کا دعوی ہے کہ سارہ کی موت کی ذمہ دار ان کی اہلیہ بینش بتول تھیں اور انھوں نے فون پر 'جھوٹا اعتراف جرم' ان کو بچانے کے لیے کیا تھا۔

استغاثہ کے مطابق سارہ کے جسم پر اندرونی اور بیرونی چوٹیں اور زخم تھے جن میں ٹوٹی ہوئی ہڈیاں اور جلائے جانے والے زخموں کے نشان بھی تھے۔

استغاثہ کے مطابق سارہ کے جسم پر استری سے جلانے کے نشانات موجود تھے۔ ان کے علاوہ انسانی دانتوں سے کاٹے جانے کے نشانات سارہ کی ٹانگوں اور بازو پر دیکھے گئے تھے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ دانتوں کے نشانات کا جائزہ لینے سے علم ہوا کہ یہ عرفان شریف اور ان کے بھائی کے نہیں ہیں تاہم بتول بینش نے اپنے دانتوں کا نمونہ فراہم کرنے سے انکار کیا۔

استغاثہ کے مطابق سارہ کی پسلیوں اور کندھے سمیت انگلیوں اور کمر پر 11 مختلف مقامات پر ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں جن کے علاوہ دماغ کی چوٹ کی علامات بھی موجود تھیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.