اسرائیلی فوجیوں کی ’معمول کی گشت‘ کے دوران حماس کے سربراہ یحیی سنوار کو کیسے ہلاک کیا گیا؟

جنگ کی ابتدا سے حماس کے رہنما یحیی سنوار نے زیادہ تر وقت غزہ کی پٹی میں موجود خفیہ سرنگوں میں گزارا۔ اس دوران ان کے ساتھ ان کے محافظ ہوتے تھے۔ لیکن آخر کار ایک سال بعد جنوبی غزہ میں ان کا اسرائیلی فوجیوں سے سامنا ہوا۔
یحییٰ سنوار
Getty Images

اسرائیل فوج سات اکتوبر کے حملوں کے ماسٹر مائند کو ایک سال سے تلاش کر رہی تھی لیکن حماس کے سربراہ یحیی سنوار غزہ میں روپوش ہو چکے تھے۔

61 سالہ سنوار کے بارے میں خیال ہے کہ انھوں نے زیادہ تر وقت غزہ کی پٹی میں موجود خفیہ سرنگوں میں گزارا۔ اس دوران ان کے ساتھ ان کے محافظ رہے اور اسرائیل سے لائے جانے والے یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔

لیکن آخر کار ایک سال بعد جنوبی غزہ میں ان کا اسرائیلی فوج سے سامنا ہو گیا۔ ان کے محافظ بھی زیادہ نہیں تھے اور وہاں کوئی یرغمالی بھی نہیں تھا۔

اس حوالے سے ابھی تک تفصیلات سامنے آ رہی ہیں تاہم ہمیں اب تک ان کی ہلاکت کے حوالے سے یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں:

اسرائیلی فوجیوں کا معمول کا گشت

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کی ایک یونٹ بدھ کے روز رفع کے تل السلطان علاقے میں گشت کر رہی تھی کہ انھیں تین عسکریت پسند دکھائی دیے۔

اسرائیلی فوج نے ان کا مقابلہ کر کے انھیں مار دیا۔

اس وقت تک انھیں لڑائی کے بارے میں کوئی غیر معمولی بات دکھائی نہیں دی اور فوجی جمعرات کی صبح تک وہاں واپس نہیں گئے۔

جب ان لاشوں کا معائنہ کیا جا رہا تھا تو ان میں سے ایک شخص کی حماس کے سربراہ سنوار سے بہت زیادہ مشابہت تھی۔

ممکن پھندوں کی وجہ سے لاش تو وہاں سے نہیں ہٹائی گئی تاہم اس کی ایک انگلی کاٹ کر اسرائیل بھیجی گئی تاکہ جانچ کی جا سکے۔

بعد ازاں جگہ کو محفوظ کر کے ان کی لاش کو بھی نکال کر اسرائیل لایا گیا۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہیگری کا کہنا ہے کہ ’فوجی اہلکاروں کو حماس کے رہنما کی موجودگی کا علم نہیں تھا لیکن وہ اس علاقے میں کارروائی جاری رکھے ہوئے تھے۔‘

یحییٰ سنوار
Getty Images
یحییٰ سنوار حال ہی میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ایران میں ہلاکت کے بعد حماس کے لیڈر بنے تھے

ان کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے تین افراد کو ایک گھر سے دوسرے گھر میں بھاگتے ہوئے دیکھا۔ ان کا مقابلہ کیا گیا اور وہ تینوں ایک موقع پر الگ الگ ہوگئے۔

ان کے مطابق سنوار کے نام سے شناخت ہونے والے شخص کو اس وقت مارا گیا جب وہ اکیلے ایک عمارت میں داخل ہوئے۔ انھیں عمارت کے اندر ایک ڈرون کی مدد سے تلاش کرنے کے بعد مار دیا گیا۔

بتایا گیا ہے کہ سنوار کسی بھی یرغمالی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کر رہے تھے جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ نظروں میں آئے بغیر وہاں سے نکلنا چاہتے تھے یا ان کے زیادہ تر محافظ مارے جا چکے تھے۔

اسرائیل کے وزیر دفاع یواف گیلانٹ کا کہنا تھا کہ ’سنوار کی موت شکست خوردہ، سزا یافتہ اور بھاگے ہوئے شخص کے طور پر ہوئی۔

’وہ ایک کمانڈر کے طور پر نہیں مارے گئے بلکہ ایک ایسے شخص کے طور پر مرے جسے صرف اپنی پرواہ تھی۔ یہ ہمارے تمام دشمنوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔‘

سنوار کی موت کی تصدیق

اسرائیل نے جمعرات کی دوپہر پہلے یہ اعلان کیا کہ وہ یحییٰ سنوار کی ممکنہ ہلاکت کی تصدیق کر رہا ہے۔

اس اعلان کے چند منٹوں بعد ہی سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر شیئر کی جانے لگیں جن میں ایک شخص کی لاش دکھائی دی جس کے سر پر کافی بڑا زخم ہے اور اس کی شکل حماس کے رہنما سے ملتی جلتی تھی۔

تاہم حکام کا کہنا تھا کہ اس موقع پر مارے جانے والے تینوں افراد کی شناخت کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

اس کے کچھ دیر بعد ہی اسرائیلی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے رہنما پُراعتماد ہیں کہ انھوں نے سنوار کو مارا ڈالا ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ موت کی تصدیق سے پہلے کچھ ضروری ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

ان ٹیسٹوں میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ جمعرات کی شام تک اسرائیل نے اعلان کر دیا کہ اس نے سنوار کو ہلاک کر دیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’برائی کو ختم کر دیا گیا ہے‘۔ تاہم انھوں نے خبر دار کیا کہ غزہ میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

رفح
Getty Images
اسرائیلی فوجی ملبے سے بھری رفح کی گلیوں میں گشت کرتے ہوئے

ایک سخت پھندا

اگرچہ سنوار کو ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران ہلاک نہیں کیا گیا تھا لیکن آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ وہ کئی ہفتوں سے ان علاقوں میں کام کر رہی تھی جہاں انٹیلی جنس نے ان کی موجودگی کا اشارہ دیا تھا۔

مختصر یہ کہ اسرائیلی افواج نے سنوار کو جنوبی شہر رفح تک محدود کر دیا تھا اور وہ آہستہ آہستہ انھیں پکڑنے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔

سنوار ایک سال سے زیادہ عرصے سے روپوش تھے۔

حماس کے دیگر رہنماؤں جیسے محمد دیف اور اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت اور 7 اکتوبر کے حملوں کے لیے استعمال کیے جانے والے انفراسٹرکچر کی تباہی کے بعد انھوں نے بلاشبہ محسوس کیا تھا کہ اسرائیلی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک بیان میں آئی ڈی ایف نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں جنوب میں اس کی کارروائیوں نے یحییٰ سنوار کی آپریشنل نقل و حرکت کو محدود کر دیا اور فورسز کی جانب سے ان کا تعاقب کیا جانا ان کی ہلاکت پر منتج ہوا۔

بڑی کامیابی لیکن یہ جنگ کا خاتمہ نہیںہد

سنوار کی ہلاک اسرائیل کے لیے ایک بڑا ہدف تھا جن کی موت سات اکتوبر کے حملوں کے بعد طے تھی۔ لیکن ان کی موت کے بعد بھی غزہ میں جنگ ختم نہیں ہوئی۔

نتن یاہو کا کہنا تھا ’جنگ جاری رہے گی، کم از کم ان 101 یرغمالیوں کو بچانے کے لیے جو اب بھی حماس کے قبضے میں ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یرغمالی خاندانوں سے میں کہہ رہا ہوں یہ جنگ میں ایک اہم لمحہ ہے۔ ہم اس وقت تک پوری قوت سے کام جاری رکھیں گے جب تک آپ کے اور ہمارے تمام پیارے، گھر نہیں آ جاتے۔‘

اسرائیل میں یرغمالیوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ اب جنگ بندی ہو جائے گی جس سے یرغمالیوں کو وطن واپس لایا جا سکے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.