کراچی میں ایک ہی گھر کی چار خواتین کا قتل: ’تین ماہ کی بچی بیڈ کے نیچے سے زندہ ملی‘

کراچی کے ایک گنجان آباد رہائشی علاقے کے ایک فلیٹ سے پولیس کو اطلاع ملی کہ وہاں چار خواتین کی لاشیں ہیں جنھیں بظاہر تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا۔ ایک کمرے میں خاتون کی لاش کے قریب بیڈ کے نیچے ان کی تین ماہ کی بیٹی زندہ تھی۔
کراچی، قتل
Getty Images

نوٹ: اس تحریر کے کچھ حصے قارئین کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں

کراچی کے ایک گنجان آباد رہائشی علاقے کے ایک فلیٹ سے پولیس کو اطلاع ملی کہ وہاں چار خواتین کی لاشیں ہیں جنھیں بظاہر تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا۔ ایک کمرے میں خاتون کی لاش کے قریب بیڈ کے نیچے ان کی تین ماہ کی بیٹی زندہ تھی۔

صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں ایک ہی گھر میں چار خواتین کے قتل کا مقدمہ سنیچر کو نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش جاری ہے اور وہ ’مشتبہ افراد تک پہنچ چکی‘ ہے۔

ایک پولیس اہلکار کے مطابق ’یہ ایک انتہائی بھیانک واردات ہے جس میں خواتین کے گلے بے رحمانہ طریقے سے کاٹے گئے۔ کمروں، ٹی وی لانج اور صحن میں خون ہی خون تھا۔‘

ابتدائی تحقیقات کے مطابق آپس میں رشتہ دار چاروں خواتین کی گردنوں پر گہرے زخم ہیں اور ان کے جسموں پر مزاحمت کے چند اثرات موجود ہیں۔

’دروازہ کھولا تو میری بیٹی خون میں لت پت پڑی تھی‘

اس مقدمے کے مدعی اور گھر کے سربراہ محمد فاروق کا کہنا ہے کہ اِن چار مقتولین میں ان کی بیوی شمشاد، بیٹی مدیحہ، بہو عائشہ اور 12 سالہ نواسی علینہ شامل ہیں۔

مقدمے کے متن کے مطابق محمد فاروق جانوروں کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں۔ اس گھر میں ان کے علاوہ ان کی 60 سالہ بیوی شمشاد، بیٹی مدیحہ، بیٹا سمیر علی، ان کی 22 سالہ بیوی عائشہ اور تین ماہ کی نواسی رہتے تھے۔

محمد فاروق کا کہنا ہے کہ وہ 18 اور 19 اکتوبر کی درمیانی شب قریب دس بجے کھانا کھا کر گھر سے باہر چلے گئے تھے۔ ’رات ایک بجے میری ایک اور شادی شدہ بیٹی ثمینہ کی کال آئی اور اس نے کہا کہ میں اس کو اس کے گھر چھوڑآؤں۔ ثمینہ رہائشی عمارت سے نیچے آئی اور میں اس کو اس کے گھر چھوڑنے چلا گیا تھا۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’بیٹی نے راستے میں بتایا میرا بیٹا بلال (جو الگ رہتا ہے) بھی گھر آیا ہوا ہے۔‘

انھوں نے اپنی بیٹی کو ان کے گھر چھوڑا اور واپسی پر ’نواب مہابت خانجی روڈ پر دیکھا کہ وہاں میرے بیٹے بلال کی گاڑی خراب کھڑی تھی اور اس کے پاس میرا بیٹا سمیر علی موجود تھا۔ میں وہاں پر کچھ دیر رُکا تو بیٹے سمیر علی نے کہا کہ میں گھر جاؤں۔‘

مقدمے کے متن کے مطابق محمد فاروق رات سوا تین کے قریب گھر واپس پہنچے۔ ’دروازے پر دستک دینے کے باوجود کسی نے دروازہ نہیں کھولا تو اپنے پاس موجود چابی سے دروازہ کھول کر اندر گیا۔ میں نے دیکھا کہ میری بیٹی مدیحہ کی خون میں لت پت لاش پڑی تھی۔۔۔ میں نے اپنے بیٹے سمیر علی کو بھی فون کیا کہ جلدی گھر آؤ۔‘

محمد فاروق کے بقول ان کے پڑوسی اور بیٹے نے ان کے ہمراہ گھر میں داخل ہو کر دیکھا کہ ’میری بہو عائشہ بھی اپنے کمرے میں خون میں لت پت پڑی تھی اور اس کی تین ماہ کی بچی بیڈ کے نیچے تھی۔

’ٹی وی لانج میں میری بیوی شمشاد اور صحن میں نواسی علینہ کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ چاروں کے گلے تیز دھار آلے سے کاٹے گئے تھے۔‘

ان کے بیٹے نے اس دوران ریسکیو سروسز اور پولیس کو اطلاع دی جس پر پولیس موقع پر پہنچ گئی۔

کراچی پولیس
Getty Images

’ماں نے اپنی بچی کو قتل کیے جانے سے قبل چھپایا ہوگا‘

موقع پر پہنچنے والے ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یہ ایک انتہائی بھیانک واردات ہے جس میں خواتین کے گلے بے رحمانہ طریقے سے کاٹے گئے۔ کمروں، ٹی وی لانج اور صحن میں خون ہی خون تھا۔‘

ان کے مطابق ایک مقتولہ کی لاش انھی کے کمرے میں موجود تھی جبکہ ان کی تین ماہ کی بچی بیڈ کے نیچے زندہ تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بظاہر لگتا ہے کہ مقتولہ عائشہ (گھر کے سربراہ کی بہو) نے مزاحمت کی کوشش کی۔ وہ ممکنہ طور پر اِدھر اُدھر دوڑتی رہی ہوں گی۔ شاید ملزم یا ملزمان عائشہ کو قتل کرنے سے قبل کسی اور کو پہلے قتل کرنے گئے تھے جس پر خاتون خبردار ہوگئی تھیں۔‘

پولیس اہلکار کے مطابق تین ماہ کی کم عمر بچی بیڈ کے نیچے سے بر آمد ہوئی اور اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔

موقع پر موجود پولیس افسران اور فرانزک ٹیم کی یہی رائے ہے خاتون کو ’پتا چل گیا تھا کہ ملزم اس کو قتل کرے گا تو اس نے موقع دیکھ کر اپنی تین ماہ کی بچی کو بیڈ کے نیچے چھپا دیا تھا۔‘

اگرچہ ایک پولیس اہلکار کے مطابق یہ بھی عین ممکن ہے کہ ملزم یا ملزمان کا ٹارکٹ تین ماہ کی بچی نہ ہو مگر ’بچی بیڈ کے نیچے سے بر آمد ہوئی ہے جس کو مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ ماں نے اپنی بچی کی زندگی بچانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہوگا۔‘

پولیس کے مطابق اس وقت یہ تین ماہ کی بچی اس کے والد سمیر علی کے حوالے کر دی گئی ہے۔

پولیس اہلکار کے مطابق ایک اور کم عمر بچی علینہ کی لاش صحن سے ملی ہے۔ اس کے بارے میں بھی موقع پر موجود افسران اور فرانزک ٹیم کے ارکان کی رائے ہے کہ یہ بچی اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے قتل ہوئی۔ ’(ممکن ہے) اس کو ملزم یا ملزمان نے بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے صحن میں قابو کر کے قتل کیا۔‘

پولیس کی تفتیش جاری: ’ملزمان جلد گرفت میں ہوں گے‘

دوسری جانب پولیس سرجن ڈاکٹر سُمعیہ طارق کے مطابق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان چاروں خواتین کی گردن پر گہرے زخم آئے ہیں اور ان کے جسموں پر مزاحمت کے چند اثرات ہیں۔

ڈاکٹر سُمعیہ طارق کا کہنا تھا کہ لاشوں کے ابتدائی معائنے سے یہ پتا چلنا ممکن نہیں کہ انھیں کوئی نشہ آور چیز دی گئی تاہم ان کے خون سمیت دیگر نمونوں کے جائزے سے رپورٹ مرتب کی جائے گی۔

ایس ایس پی کراچی سٹی عارف عزیز کے مطابق پولیس اس واقعے کی بہت تیزی سے اور جدید طریقے سے تفتیش کر رہی ہے اور تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ پولیس مشتبہ افراد تک ’پہنچ چکی ہے‘ اور مرکزی ملزم کی نشاندہی کے لیے تفتیش جاری ہے۔

ادھر تھانہ بغدادی کے ایس ایچ او کے مطابق گھر کے سربراہ فاروق کی مقتولہ شمشاد سے دوسری شادی تھی اور ’شمشاد کے اپنے خاوند کے سوتیلے بیٹوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ شمشاد نے ریسکیو 15 پر کال کر کے پولیس کی مدد طلب کی تھی کہ کوئی جھگڑا ہوا ہے۔‘

پولیس کو ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ گھر کے سربراہ اور ان کے بیٹے واقعے کے وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔

ایس ایچ او بغدادی کا دعویٰ ہے کہ ’ملزم یا ملزمان جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.