چیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سے متعلق شقوں سمیت 26ویں آئینی ترمیم کے بل میں کیا ہے؟

اس مسودے میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق موجود قانون میں ترمیم تجویز کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں نہ کوئی نوٹس لے سکتی ہے اور نہ ہی کسی بھی ادارے کو کوئی ہدایت دے سکتی ہے۔
آئینی ترمیم، پارلیمان، سپریم کورٹ
Getty Images

پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ نے حکومتی اتحاد کی جانب سے پیش کی جانے والی 26ویں آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا ہے۔

اگلے مرحلے میں سینیٹ سے منظور شدہ بل قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

اتوار کے روز سینیٹ کا اجلاس تین گھنٹے تاخیر سے شام چھ بجے کے بعد شروع ہوا تو وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ملک سے سود کے خاتمے کے متعلق ایک ترمیمی شق بل میں شامل کرنے کی تجویز دی جسے اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔

اس سے قبل جب بل پیش کیا گیا تو ایوانِ بالا میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے پارلیمانی رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس وقت پارلیمان میں پی ٹی آئی کے محض کچھ ارکان ہی موجود ہیں کیونکہ باقی لوگوں کو ’ڈر ہے کہ وہ پکڑے جائیں گے اور ان سے زبردستی ووٹ لیا جائے گا۔‘

بل کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مجموعی طور پر آئینی ترمیم کے حق میں 65 ارکان نے ووٹ دیے جبکہ چار ارکان نے اس کی مخالفت کی۔

تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے خدشات کے برعکس کوئی بھی پی ٹی آئی سینیٹر منحرف نہیں ہوا۔

حکومت کو ملنے والے 65 ووٹوں میں 24 پاکستان پیپلز پارٹی،19 مسلم لیگ نواز، پانچ جمیعت علمائے اسلام، چار بلوچستان عوامی پارٹی، تین متحدہ قومی موومنٹ ، تین عوامی نیشنل پارٹی، دو بی این پی، چار آزاد سینیٹرز اور ایک ووٹ ق لیگ کے سینیٹر کا تھا۔

سینیٹ سے پاس ہونے والے بل میں کیا کہا گیا ہے؟

بل میں جے یو آئی کے سینیٹر کی جانب سے تجویز کردہ ترمیم میں کہا گیا تھا کہ سود کو جنوری 2028 تک ملک سے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔

ترمیمی بل میں سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز سمیت چار اراکین پارلیمنٹ بھی ہوں گے، جن میں سے ایک سینٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام وزیر اعظم جبکہ ایک سینٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف دیں گے۔

اس بل کے مطابق کہ ججز کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان ہوں گے جن میں سے آٹھ کا تعلق قومی اسمبلی جبکہ چار کا تعلق سینٹ سے ہو گا۔

بل کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیئر جج کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی بجائے تین نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے اور 12 رکنی کمیٹی ان ناموں میں سے ایک کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کرے گی۔ جس کے بعد وزیر اعظم اس ضمن میں صدر کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کی سفارش کریں گے۔

سپریم کورٹ
Reuters

سینیٹ سے منظور شدہ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین سال کے لیے ہو گی اور اگر کوئی چیف جسٹس اس عرصے کے لیے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 65 سال تک نہیں پہنچتا تو پھر بھی اسے بطور چیف جسٹس تین سال کی مدت پوری ہونے کے بعد ہی ریٹائر سمجھا جائے گا۔

اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ہائیکورٹ کے کسی جج کی کارکردگی بہتر نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل اس جج کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وقت دے گی اور اگر مقررہ مدت سے مذکورہ جج اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بناتا تو پھر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی دیکھے گی جبکہ کونسل ججز کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے الگ سے بھی قواعد وضوابط تشکیل دے سکتی ہے۔

اس بل میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق موجود قانون 184 کی سب کلاز 3 میں ترمیم کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں نہ کوئی نوٹس لے سکتی ہے اور نہ ہی کسی بھی ادارے کو کوئی ڈائریکشن دے سکتی ہے۔

اس بل میں یہ بھی کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ کے ججز کی تین رکنی کمیٹی نوٹس لینے یا نہ لینے کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔

اس ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ سمجھے کہ کسی ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہور ہے تو وہ یہ مقدمہ کسی دوسری ہائیکورٹ میں بھی منتقل کر سکتی ہے۔

اسی طرح بل میں آئین کے آرٹیکل 199 کے کلاز 1 میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور اب اسے شق 1 اےکہا گیا ہے جو ہائی کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق ہے۔

اس ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کسی بھی معاملے پر نہ کوئی از خود نوٹسلے سکتی ہے اور نہ کسی ادارے کو کوئی ہدایت دے سکتی ہے۔

اسی طرح آئین کے آرٹیکل 203 ڈی میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی ایپل کو متعلقہ اعلیٰ عدالت 12 ماہ کے اندر نمٹانے کی پابند ہے۔

26ویں آئینی ترمیم میں آئین کی آرٹیکل 191 اے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ آرٹیکل آئینی بینچوں کی تشکیل سے متعلق ہے۔

اس بل کے مطابق آئینی بینچوں کی تعداد اور ان کی مدت کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کمیشن کرے گی۔ جوڈیشل کمیشن ان آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنائے گا۔

بل میں کہا گیا کہ اس آئینی بینچ کے پاس موجود اختیارات کسی دوسرے بینچ کو تفویض نہیں کیے جا سکتے۔

اس ترمیم میں یہ بھی کہا گیا کہ ججز کی تعیناتی سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی کارروائی ان کیمرا ہو گی تاہم اس ریکارڈ رکھا جائے گا۔

حکومت اس آئینی ترمیم سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

حکومت 26ویں آئینی ترمیم پر اتفاق ہونے کے بعد اس کو ایوان میں پیش کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اور وہ اس آئینی ترمیم سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔

آئینی و پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے حامی ججوں کو نہ صرف سپریم کورٹ میں بلکہ ان کو زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ ججز جن کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ ان کے ججز نہیں، ان کے اختیارات کو کم کر کے کوئی انتظام کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کا ایک ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ ’یہ ہمارے جج ہیں اور یہ آپ کے جج ہیں۔‘

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا یہ حکومت کی جانب سے اس آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد ایسا انتظام کرنے کی کوشش ہے کہ سپریم کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ کا ایک ایسا آئینی بینچ ہو جس کو بلانے اور رکھنے کے اختیارات جوڈیشل کمیشن کے پاس ہوں۔

’حکومت کی کوشش ہے کہ اگر آئینی عدالت کا قیام ممکن نہیں ہو پاتا تو کم از کم ایک آئینی بینچ کے ذریعے ایک ایسا نظام بنایا جائے جو آئینی معاملات کو دیکھے اور اس کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات سے کسی حد تک باہر نکال دیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس وقت یہ خوف ہے کہ نئے بننے والے متوقع چیف جسٹس کوئی ایسا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں جس سے یہ حکومت کا قائم رہنا مشکل ہو جائے اور حکومت اس وقت یہ عدم استحکام نہیں چاہتی اس لیے یہ تمام انتظام کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس انتظام سے عدلیہ کی آزادی پر اتنا فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جوڈیشل کمیشن میں حکومت و اپوزیشن کے ارکان کے ساتھ ساتھ دیگر رکن اور سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز بھی شامل ہوں گے اور وہاں مشترکہ فیصلہ سازی ہو گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور پارلیمنٹ یہ محسوس کرتی ہے کہ ماضی میں عدلیہ نے اپنی مرضی کے ایسے فیصلے دیے ہیں جب کی توجیح کرنا مشکل تھی اس لیے اب عدلیہ کو فری ہینڈ نہیں دیا جا سکتا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.