برکس سربراہی اجلاس کی میزبانی: کیا پوتن یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ روس کو تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں؟

روس کے صدر قازان کے خوبصورت شہر میں برکس سربراہی اجلاس میں 20 سے زائد سربراہان مملکت کی میزبانی کر رہے ہیں۔ کریملن نے اس سربراہی اجلاس کو روس میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے منعقد ہونے والے اب تک کے سب سے بڑے ایونٹس میں سے ایک قرار دیا لیکن ولادیمیر پوتن اس اجلاس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
روسی صدر والادیمیر پوتن
Reuters
روسی صدر والادیمیر پوتن

تھوڑی دیر کے لیے تصور کریں کہ آپ ولادیمیر پوتن ہیں۔

مغرب نے یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے آپ پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں جن کا مقصد آپ کے ملک کی معیشت کا رشتہ عالمی منڈیوں سے منقطع کرنا ہے اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) نے آپ کے لیے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا۔

اس پس منظر میں آپ یہ کیسے دیکھا سکتے ہیں کہ آپ کے خلاف دنیا بھر کا دباؤ کام نہیں کر رہا؟ اس کے لیے ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے کی کوشش کیسی رہے گی اور پوتن نے بھی ایسا ہی کیا۔

صدر پوتن قازان کے خوبصورت شہر میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کے برکس سربراہی اجلاس میں 20 سے زائد سربراہان مملکت کی میزبانی کر رہے ہیں۔

اس اجلاس کے لیے جن رہنماؤں کو مدعو کیا گیا، ان میں چین کے صدر شی جن پنگ، انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور ایرانی صدر مسعود پیزشکیان شامل ہیں۔

کریملن نے اس سربراہی اجلاس کو روس میں خارجہ پالیسی کے ’حوالے سے منعقد ہونے والے اب تک کے سب سے بڑے ایونٹس‘ میں سے ایک قرار دیا۔

کنسلٹنسی کمپنی میکرو ایڈوائزری کے شریک بانی کرس ویفر کا کہنا ہے کہ اس کا ’واضح پیغام یہ ہے کہ روس کو تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ کریملن کی جانب سے بڑا پیغام ہے کہ روس پابندیوں کے سامنے ڈٹا ہوا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ سطح کے نیچے شدید دراڑیں ہیں لیکن جیو پولیٹیکل سطح پر روس کے یہ تمام (ممالک) دوست ہیں اور یہ سب روس کے شراکت دار بننے جا رہے ہیں۔'

انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ
Getty Images
انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ

تو روس کے دوست کون کون سے ملک ہیں؟

2006 میں برازیل، روس، انڈیا اور چین نے ترقی پذیر ممالک کی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس کا مخفف ’برک‘ تھا۔ سنہ 2010 میں جنوبی افریقہ اس اتحاد میں شامل ہوا، تو یہ نام ’برکس‘ ہو گیا۔

اس تنظیم کا مقصد دنیا کے سب سے اہم ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کی سیاسی اور معاشی طاقت کو چیلنج کرنا تھا تاہم حالیہ برسوں کے دوران اس اتحاد کو وسعت ملی اور ایران، مصر، ایتھوپیا سمیت متحدہ عرب امارات بھی اس کا حصہ بن گئے۔

سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ بھی برکس کا حصہ بننے پر غور کر رہا ہے جبکہ آزربائیجان کی جانب سے شمولیت کے لیے باضابطہ درخواست دی جا چکی ہے۔

برکس کے اراکین ممالک کی مجموعی معیشت کی مالیت 28.5 کھرب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے جو عالمی معیشت کا تقریباً 28 فیصد ہے۔

روسی حکام نے اشارہ دیا ہے کہ مزید 30 ممالک برکس میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا اس گروپ کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ممالک سربراہی اجلاس میں حصہ لیں گے۔

قازان میں اس ہفتے ’عالمی اکثریت‘ کی نمائندگی کرنے والے اجلاس میں بہت سے موضوعات پر مذاکرات کی توقع ہے لیکن ولادیمیر پوتن کو جیو پولیٹیکل سٹیج پر اپنی قوت دکھانے کے علاوہ اس اجلاس سے مزید کیا حاصل ہونے کی امید ہے؟

ڈالر
BBC

ڈالر کا متبادل

مغربی پابندیوں کے دباؤ کو کم کرنے کے خواہشمند کریملن رہنما برکس کے اراکین کو عالمی ادائیگیوں کے لیے ڈالر کا متبادل اختیار کرنے پر راضی کرنے کی امید کریں گے۔

مسٹر ویفر کہتے ہیں کہ ’روس کی معیشت کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے بہت سے سرحد پار تجارت اور ادائیگیوں سے منسلک ہیں اور ان میں سے زیادہ تر امریکی ڈالر (میں کی جانے والی روایتی ادائیگی) سے منسلک ہیں۔

’امریکی ٹریژری کا عالمی تجارت پر بہت زیادہ اثر و رسوخ صرف اس وجہ سے ہے کہ امریکی ڈالر دنیا بھر میں ادائیگیوں کے لیے اہم کرنسی ہے۔ روس کی بنیادی دلچسپی امریکی ڈالر کے تسلط کو توڑنا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ برکس ممالک ایک متبادل تجارتی میکانزم بنائیں اور کراس بارڈر سسٹم تیار کریں جس میں ڈالر، یورو یا جی سیون کی کرنسیوں میں سے کوئی بھی شامل نہ ہو تاکہ پابندیوں سے کوئی زیادہ فرق نہ پڑے۔‘

لیکن ناقدین برکس کے اندر اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’لائیک مائنڈ‘ یا ’ہم خیال‘ ایسا لفظ نہیں، جسے آپ برکس میں رکنیت کی وضاحت کے لیے استعمال کریں گے۔

گولڈمین سیکس کے سابق چیف اکنامسٹ جم او نیل کہتے ہیں کہ کچھ طریقوں سے یہ مغرب کے لیے ایک اچھا کام ہے کیونکہ چین اور انڈیا کبھی بھی کسی چیز پر متفق نہیں ہو سکتے اور اگر یہ دونوں واقعی سنجیدہ ہوتے تو برکس کا اثر بہت زیادہ بڑھ گیا ہوتا۔

’چین اور انڈیا ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے بچنے کے لیے ہمہ وقت اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اقتصادی چیزوں کے متعلق ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی کوشش کرنا ان کے لیے ایک کبھی نہ ختم ہونے والا چیلنج ہے۔‘

قازان
EPA
قازان میں برکس کا سربراہی اجلاس ہو رہا ہے

پوتن کا کام اختلافات ختم کرنا اور اتحاد کی تصویر کشی کرنا

یہ او نیل ہی تھے جنھوں نے چار ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے ’برِکس‘ کا خواب دیکھا تھا۔ ان کے خیال میں ان چاروں ممالک برازیل، روس، انڈیا اور چین کو ’عالمی پالیسی سازی کے مرکز میں لایا جانا چاہیے۔‘

لیکن ان چار ممالک نے جب ابتدا کی تو چیزیں بے قابو ہونے لگیں۔

اس گروپ کا خیال تھا کہ وہ جی سیون کے تسلط کو چیلنج کرنے کی کوشش کریں گے۔ جی سیون میں دنیا کی سات سب سے بڑی ’ترقی یافتہ‘ معیشتیں (کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ) شامل ہیں۔

برکس میں صرف انڈیا اور چین ہی نہیں، جن کے آپسی اختلافات ہیں۔ برکس کے دو نئے ارکان مصر اور ایتھوپیا کے درمیان بھی کشیدگی پائی جاتی ہے اور کشیدگی کم کرنے کی بات کے باوجود ایران اور سعودی عرب طویل عرصے سے علاقائی حریف رہے ہیں۔

او نیل کا کہنا ہے کہ ’ان سب کا بنیادی طور پر کسی بڑے موضوع پر متفق ہونے کا خیال حقیقتاً بے معنی ہے۔‘

اور جہاں روس مغرب مخالف جذبات کی وجہ سے ایک ’نیا ورلڈ آرڈر‘ بنانے کی بات کر رہا ہے تو انڈیا جیسے دوسرے برکس ممبران مغرب کے ساتھ اچھے سیاسی اور اقتصادی تعلقات برقرار رکھنے کے خواہشمند ہیں۔

قازان میں ولادیمیر پوتن کا کام اختلافات کو ختم کرنا اور اتحاد کی تصویر کشی کرنا ہے جس سے روسی عوام اور بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ان کا ملک تنہا کیے جانے سے بہت دور ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts