سیٹلائیٹ کی مدد سے حاصل شدہ تصاویر، جن کا بی بی سی ویریفائی نے تجزیہ کیا ہے، میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 26 اکتوبر کے دن ہونے والے اسرائیلی فضائی حملوں نے متعدد ایرانی عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہے۔

سیٹلائیٹ کی مدد سے حاصل شدہ تصاویر، جن کا بی بی سی ویریفائی نے تجزیہ کیا ہے، میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 26 اکتوبر کے دن ہونے والے اسرائیلی فضائی حملوں نے متعدد ایرانی عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہے۔
ماہرین کے مطابق ان میں وہ تنصیبات بھی شامل ہیں جنھیں میزائل تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ فضائی دفاع کی تنصیبات اور کم از کم ایک ایسا مقام بھی شامل ہے جو ماضی میں ایران کے جوہری پروگرام سے وابستہ تھا۔
سیٹلائیٹ تصاویر، جو اسرائیلی حملے کے بعد حاصل کی گئیں، ایسی عمارات کو پہنچنے والے نقصان کی جانب اشارہ کرتی ہیں جن کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ تہران سے 30 کلومیٹر مشرق میں موجود پارچین کی اہم اسلحہ ساز عسکری سائٹ ہے۔
پارچین

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کے ماہرین اس مقام کو راکٹ کی تیاری سے جوڑتے ہیں۔
بی بی سی ویریفائی نے نو ستمبر کو سیٹلائیٹ سے کھینچی جانے والی تصاویر کا موازنہ جب ستائیس اکتوبر کے دن کی تصاویر سے کیا تو واضح ہوا کہ اس جگہ پر کم از کم چار عمارات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ان میں سے ایک عمارت ماضی میں بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق جوہری پروگرام سے منسلک تھی۔ 2016 میں آئی اے ای اے نے اسی جگہ پر یورینیئم ذرات کے شواہد پائے تھے جس کے بعد یہاں پابندیوں کے باوجود جوہری سرگرمیوں سے متعلق سوالات اٹھے تھے۔
خجیر فوجی اڈہ

اسرائیلی حملوں میں نشانہ بننے والا ایک اور مقام پارچین سے شمال مغرب کی جانب 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع خجیر ہے۔
انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کے فابیان ہنز کہتے ہیں کہ خجیر کو ایران میں بیلسٹک میزائل کی سب سے زیادہ تعداد کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ 2020 میں اس جگہ پر ایک پراسرار دھماکہ ہوا تھا۔
سیٹلائیٹ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس مقام پر موجود کمپلیکس میں کم از کم دو عمارات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
شاھرود
تہران سے 350 کلومیٹر مشرق میں موجود شاھرود عسکری سائٹ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ سمنان صوبہ میں واقع شاھرود اس لیے اہم ہے کیوں کہ فابیان ہنز کے مطابق یہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے حصے بنانے میں شامل تھا۔

اس کے قریب ہی شاھرود خلائی مرکز بھی ہے جو ایرانی پاسداران انقلاب کے کنٹرول میں ہے۔ 2020 میں ایران نے اسی مقام سے ایک عسکری سیٹلائیٹ خلا میں بھیجا تھا۔
اسرائیل نے دعوی کیا ہے کہ 26 اکتوبر کو ہونے والے فضائی حملوں میں ایران کے فضائی دفاعی نظام کو متعدد مقامات پر نشانہ بنایا گیا تاہم اس دعوے کی تصدیق صرف دستیاب سیٹلائیٹ تصاویر کی مدد سے کرنا مشکل ہے۔
ریڈار
بی بی سی ویریفائی نے چند ایسی سیٹلائیٹ تصاویر بھی حاصل کی ہیں جن میں ماہرین کے مطابق ایک ریڈار کو پہنچنے والا نقصان دیکھا جس سکتا ہے۔
یہ ریڈار کوہ شاہ نکجر پہاڑ پر واقع ہے جو ایران کے مغربی ایلام شہر سے قریب ہے۔ دفاعی انٹیلیجنس کمپنی جینز میں مشرق وسطی امور کے ماہر جیریمی بنی کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ مقام ایک نیا ریڈار دفاعی نظام ہو۔
یہ جگہ ویسے تو کئی دہائیوں قبل سے موجود ہے لیکن جن سیٹلائیٹ تصاویر کا جائزہ لیا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں حالیہ برسوں میں مذید کام بھی ہوا ہے۔

آبادان آئل ریفائنری
اس کے علاوہ بی بی سی ویریفائی نے خزستان صوبے میں آبادان آئل ریفائنری کے ایک سٹوریج یونٹ کو پہنچنے والے نقصان کی بھی نشان دہی کی ہے۔
یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس نقصان کی وجہ کیا ہے اور عین ممکن ہے کہ ایران کے متعدد مقامات پر میزائلوں کے ٹکڑے گرنے سے یا پھر دفاعی نظام کی غلط فائرنگ سے بھی نقصانات ہوئے ہوں۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آبادان آئل ریفائنری کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد اتوار کے دن ایرانی حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ خزستان صوبہ اسرائیلی فضائی حملوں میں نشانہ بنا تھا۔

یاد رہے کہ آبادان آئل ریفائنری ایران میں سب سے بڑی ایسی فیکٹری ہے جہاں روزانہ 50 ہزار بیرل تیل تیار ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ سیٹلائیٹ تصاویر سے حاصل شواہد حتمی نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر ایک تصویر میں ہم نے حضرت امیر بریگیڈ کے فضائی دفاعی اڈے کی ایک تصویر میں دھواں اٹھتے دیکھا لیکن یہ تصویر اتوار کے دن کی تھی جس میں سایہ بہت زیادہ تھا اور اس بات کی تصدیق مشکل تھی کہ آیا واقعی یہاں کوئی نقصان پہنچا ہے۔
اکتوبر کے آغاز میں ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا تھا۔ اس سے قبل اپریل میں بھی ایران نے اسرائیل پر 300 سے زیادہ میزائل اور ڈرون داغے تھے۔
ٹام سپنسر اور ڈینیئیل پالمبو کی اضافہ رپورٹنگ کے ساتھ