مشیگن میں کل ووٹرز کی تعداد 60 لاکھ کے قریب ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عرب ووٹرز کی تعداد اتنی نہیں لگتی لیکن پچھلے دو الیکشن پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے یہاں چند ہزار ووٹ بھی کسی امیدوار کے مقدر کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب کی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے، متعدد سروے اور پولز کے مطابق ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے دکھائی دیتی ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کا امکان نہیں۔
دراصل امریکی الیکشن کا طریقہ کار کافی منفرد ہے۔ امریکی انتخابی نظام یا الیکٹورل سسٹم مجموعی ووٹوں کی تعداد کی بجائے الیکٹورل کالج سسٹم پر منحصر ہے جس میں کل 538 ووٹ ہیں جنھیں تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے بانٹا گیا ہے۔
امریکی ریاست مشیگن کے الیکٹورل کالج میں 15 ووٹ ہیں اور یہاں عرب نژاد امریکیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
بی بی سی کی ٹیم نے مشیگن کا رخ کیا تاکہ یہ جان سکیں کہ عرب نژاد امریکی شہری کس امیدوار کو ووٹ دینے کا سوچ رہے ہیں۔ مشیگن میں مقیم عربوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گی لیکن ان کے رجحانات کی شناختکرنا آسان نہیں۔
نیشنل عرب امریکن فریم ورک کی ڈائریکٹر ریما مروہ بتاتی ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی مردم شماری کے نظام میں عربوں کو دوسری قوموں کی طرح الگ نسل کے طور پر نہیں گنا جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اندازوں کے مطابق عرب ووٹرز کی تعداد تین لاکھ سے کم نہیں۔
مشیگن میں کل ووٹرز کی تعداد 60 لاکھ کے قریب ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عرب ووٹرز کی تعداد اتنی نہیں لگتی لیکن پچھلے دو الیکشن پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے یہاں چند ہزار ووٹ بھی کسی امیدوار کے مقدر کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
2016 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مشیگن میں 10 ہزار ووٹوں کے فرق سے ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی جبکہ 2020 میں جو بائیڈن یہاں تقریباً ایک لاکھ ووٹ کے فرق سے ڈونلڈ ٹرمپ سے جیتے تھے۔
ماضی میں عرب ووٹرز کسی ایک مسئلے کی بنیاد پر امیدوار کو ووٹ نہیں دیا کرتے تھے مگر غزہ جنگ کے بعد سے ان کا رویہ بدلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
عرب نژاد امریکی اس بات پر تو متفق ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ ہے لیکن کسے ووٹ دینا ہے اس پر وہ منقسم دکھائی دیتے ہیں۔
کچھ کا خیال ہے کہ ٹرمپ اس جنگ کو ختم کر پائیں گے جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ ہیرس یہ کام کر سکیں گی۔
عرب نژاد امریکیوں کی ایک بڑی تعداد گرین پارٹی کے جل سٹین کی بھی حامی ہے جو ترقی پسند خیالات اور رجحانات رکھتی ہیں۔
جل سٹین ڈیمورکریٹ اور ریپبلیکن پارٹیوں کی اسرائیل نواز روایتی امریکی پالیسی پر سخت تنقید کرتی آئی ہیں۔
کملا ہیرس کی مہم اس بات پر مرکوز ہے کہ وہ اور بائیڈن انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ فلسطینیوں کے تحفظ اور حقِ خود ارادیت کے بارے میں بھی بات کرتی آئی ہیں۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ بھی مشیگن سمیت دیگر ریاستوں میں عرب ووٹرز کو قائل کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، اس بات سے قطعِ نظر کہ انھوں نے اپنے دورِ صدارت میں عرب اور مسلمان مخالف امیگریشن پالیسی اپنائی تھی اور ان کے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو سے قریبی مراسم ہیں۔
ٹرمپ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں کوئی جنگ نہیں ہوئی اور اگر وہ بر سرِ اقتدار ہوتے تو مشرقِ وسطی اور یوکرین کی جنگیں کبھی نہیں ہوتیں۔
کچھ عرب ووٹرز کا خیال ہے کہ ٹرمپ ڈیموکریٹک پارٹی سے کہیں بہتر معیشت کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مسلمان اور عرب نژاد امریکیوں کے ساتھ ٹرمپ کی رابطہ مہم ان کے عرب نژاد داماد مسعود بولوس چلا رہے ہیں۔
مسعود بولوس اور ٹرمپ کی بیٹی ٹفنی کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے۔ ٹرمپ نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ان کا ہونے والا پوتا آدھا عرب ہوگا۔
سام عباس کا ڈیئربورن میں اپنا ریستوران ہیں جہاں کافی عرب شہری آباد ہیں۔
ان کی نظر میں بھی عرب نژاد امریکیوں کا ووٹ متحد نہیں لیکن اس کے باوجود عباس کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو نہیں جانتے جو کملا ہیرس کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتا ہو۔
عباس بائیڈن ہیرس انتظامیہ کی پالیسیوں کو مشرق وسطیٰ میں قتل وغارت اور خونریزی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انھوں نے الیکشن سے قبل یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کسے ووٹ دیں گے۔
ان کے مطابق اس بار کے الیکشن میں عرب امریکیوں کو دیکھنا ہو گا کہ دونوں امیدواروں میں سے کم برا کون ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے وہ الیکشن کے دن تک کا انتظار کریں گے۔
تقریباً ایک سال سے کچھ عرب اور مسلمان گروہ بائیڈن مخالف مہم چلا رہے ہیں کیونکہ وہ بائیڈن کو غزہ جنگ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
یہ مہم جس میں متعدد مساجد کے امام بھی شامل ہیں، بہت تیزی سے ہیرس مخالف مہم میں تبدیل ہو گئی۔
حسن عبدالسلام اس مہم کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں امیدوار کے نام سے مطلب نہیں بلکہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کو مشرق وسطیٰ میں جنگ اور تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
ان کی مہم لوگوں کو جل سٹین کو ووٹ دینے کا کہتی ہے۔ اس کا مطلب ہو گا کہ ہیرس کو وہ ووٹ نہیں ملیں گے جو پچھلی مرتبہ جو بائیڈنکے حق میں ڈیموکریٹس کو ملے تھے۔
عبدالسلام کا کہنا ہے کہ ان کی حکمت عملی ڈیموکریٹک پارٹی پر دباؤ ڈالنا ہے چاہے اس کے نتیجے میں ٹرمپ ہی کیوں نہ جیت جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تب ہی ڈیموکریٹس کو احساس ہو گا کہ انھوں نے عرب اور مسلم امریکیوں کی آوازوں اور ترجیحات کو نظرانداز کر کے غلطی کی ہے۔
سمرا لقمان ڈیموکریٹس کو ’فلسطینیوں کی نسل کشی‘ کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ وہ عرب یمنی نژاد امریکی ہیں اور ریئل سٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
وہ ایک سیاسی کارکن ہیں جو مشیگن میں عرب نژاد اورر مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھںے والے امریکیوں کے علاوہ دیگر مسلم ممالک سے آنے والے تارکین وطن کے ساتھ بھی رابطے میں رہتی ہیں۔
سمرا کہتی ہیں کہ ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ٹرمپ کی انتخابی مہم کہیں زیادہ کوششیں کر رہی ہے۔ ان کے مطابق ان کے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق کے باوجود ٹرمپ مہم کے سینیئر عہدیداروں نے ان سے ذاتی طور پر رابطہ کیا اور ان کی ٹرمپ سے ملاقات کا اہتمام کروایا۔ سمرا کہتی ہیں کہ اس ملاقات کے بعد ٹرمپ کے بارے میں ان کے نقطہ نظر اور موقف میں کافی تبدیلی آئی۔
وہ کہتی ہیں کہ جب ان کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی تو ٹرمپ نے ان کے جذبات کا اندازہ لگا لیا اور ان کا استقبال یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’ہمیں مشرق وسطیٰ میں جنگ کو روکنا ہوگا۔‘
سمرا کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹ ہونے کے باوجود بغیر کسی ہچکچاہٹ کے وہ ٹرمپ کو ووٹ دیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا ان کا اور ان جیسے بہت سے عرب امریکیوں کا ٹرمپ کے لیے ووٹ ڈیموکریٹس کے لیے سزا ہو گی۔
تاہم ان سب کے باوجود ڈیموکریٹک پارٹی ایک بڑی اور بااثر پارٹی ہے جس کی نائن الیون حملوں کے بعد سے عرب اور مسلمان امریکیوں میں مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
مشیگن ڈیموکریٹک کلب کے صدر سمیع خالدی کے خیال میں اس معاملے پر ابھی تک ٹرمپ اور رپبلکنز کے حق میں فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
خالدی جس کلب کے سربراہ ہیں وہ ملک کی سب سے زیادہ فعال اور جمہوریت نواز تنظیموں میں سے ایک ہے۔
میں ان کے ساتھ وین کاؤنٹی کے ایک پارک میں بیٹھا۔ خالدی کاخیال ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو عرب امریکیوں کو وہ مقام دیتی ہے جس کی انھیں ضرورت ہے اور وہ اس کے مستحق ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مشی گن کے ہزاروں ووٹرز نے پارٹی کے پرائمری انتخاب میں ووٹ دیا جس میں صدر جو بائیڈن نے’نو کمٹمنٹ‘ کے تحت کامیابی حاصل کی۔ اس کا مطلب ہے کہ ووٹرز صدارتی انتخاب میں جسے چاہیں ووٹ دے سکتے ہیں۔
خالدی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی نے ڈیٹرائٹ پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ کملا ہیرس مشرق وسطیٰ میں اپنے رجحانات کے لحاظ سے بائیڈن سے مختلف ہیں اور یہ عرب امریکیوں کے مفاد میں ہے لیکن وہ ان کی پوزیشن سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی ان ووٹرزسے بات چیت اور رابطوں کے حوالے سے ابھی کام ہو رہا ہے۔
خالدی اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ ہیرس عربوں کو اپنے اور اپنی پارٹی کے لیے یقینی ووٹ سمجھتی ہیں، یا یہ کہ انھیں ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان کے کہنا ہے کہ ہیرس ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کر رہی ہیں۔
تاہم وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی رپبلکن پارٹی اس بار مشیگن میں انتخابی مہم چلانے کی بے مثال کوشش کر رہی ہے۔
جہاں تک جنین یاسین کا تعلق ہے تو وہ ایک فلسطینی نژاد امریکی ہیں جو ڈیئربورن میں ایک ایسے گھر میں رہتی ہیں جو عملی طور پر ایک ایسی جگہ بن گیا ہے جہاں ان کی ڈرائنگز کی نمائش ہوتی ہے جن میں وہ فلسطینیوں کی کہانی بیان کرتی ہیں۔
جنین کا کہنا ہے کہ جب مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کی بات آتی ہے تو ٹرمپ اور ہیرس میں کوئی فرق نہیں ہے،یہ پالیسی اسرائیل کی حامی ہے اور بقول ان کے فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کرتی ہے۔
لہٰذا انھوں نے پختہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس الیکشن میں کسی کو ووٹ نہیں دیں گی۔
جنین کے خیال میں غزہ کی جنگ امریکی انتخابات میں ایک واحد مسئلہ نہیں یہاں تو کوئی اسقاط حمل کے بارے میں بھی نہیں سوچ سکتا۔
وہ سمجھتی ہیں کہ کسی بھی مسئلے کا کسی دوسرے مسئلے سے تقابل کرنا انسانیت کے نہیں ہے اور ان انتخابات سے کچھ بدلے گا بھی نہیں۔
لیکن جنین نوجوان امریکیوں کے رویّوں میں بڑھتی ہوئی تبدیلی کی وجہ سے کافی پر امید ہیں جو اسرائیلکے لیے امریکی پالیسی کے خلاف ہیں۔