کینیڈا نے منگل کو الزام لگایا کہ انڈیا کے وزیر داخلہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے اہم ساتھی امت شاہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کو نشانہ بنانے کی سازش کے پیچھے ہیں۔ انڈین وزارت خارجہ یا حکومت کی جانب سے تازہ الزامات پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا ہے جبکہ انڈیا پہلے تمام الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
سکھ علحیدگی پسند تحریک ’خالصتان‘ سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے کینیڈا کی سرزمین پر قتل کے معاملے پر کینیڈا اور انڈیا کے درمیان تعلقات میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
کینیڈا نے منگل کو الزام لگایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اہم ساتھی اور انڈین وزیر داخلہ امت شاہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کو نشانہ بنانے کی سازش کے پیچھے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق انڈین وزیر داخلہ پر یہ الزام کینیڈا کی جانب سے اس ماہ چھ انڈین سفارت کاروں کو نکالے جانے کے بعد عائد کیا گیا۔
انڈین سفارت کاروں کو کینیڈا سے نکالنے کا تعلق وہاں ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل سے ہے۔
اس سے قبل امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی ان کارروائیوں کے پیچھے مبینہ طور پر امت شاہ کا ہاتھ ہونے کے بارے میں رپورٹ کیا تھا۔
کینیڈا میں انڈین ہائی کمیشن اور انڈین وزارت خارجہ نے ابھی تک اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تاہم انڈین حکومت نے اس معاملے میں کینیڈا کی جانب سے پہلے لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا تھا۔
کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ موریسن نے ملک کی شہری دفاع اور قومی سلامتی کمیٹی کو بتایا ہے کہ انڈین حکومت کے ایک سینئر وزیر نے کینیڈین شہریوں کو دھمکیاں دینے یا قتل کرنے کی سازش کی منظوری دی تھی۔
منگل کو کینیڈا میں شہری دفاع اور قومی سلامتی کمیٹی کی سماعت کے دوران کمیٹی کی نائب سربراہ اور کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ راکیل ڈانچو کینیڈا میں شہری اور قومی سلامتی پر سوالات کر رہی تھیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال جون میں سکھ علحیدگی پسند تحریک خالصتان سے منسلک 45 سالہ ہردیپ سنگھ نجر کو وینکوور کے قریب مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم ٹروڈو نے اس قتل کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا تھا۔
راکیل ڈانچو نے کمیٹی کی سماعت کے دوران کینیڈا کی قومی سلامتی کی مشیر ناتھالی ڈروئن سے پوچھا کہ کس نے کینیڈا میں ہونے والے جرائم میں انڈین وزیر داخلہ کے ملوث ہونے کے بارے میں کینیڈا کی حکومت کی جانب سے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا؟
اس پر نتھالی ڈروئن نے کہا کہ حکومت نے صحافیوں کے ساتھ ایسی معلومات شیئر نہیں کیں۔
راکیل ڈانچو 14 اکتوبر کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے بارے میں سوالات پوچھ رہی تھیں۔ اس رپورٹ میں اخبار نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ انڈیا کے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا حکم دیا تھا۔
کمیٹی کی سماعت میں کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ موریسن بھی موجود تھے۔
ڈانچو پھر ڈیوڈ موریسن کی طرف متوجہ ہوئیں اور پوچھا کہ ’کیا آپ تبصرہ کر سکتے ہیں؟ کیا آپ نے یہ معلومات فراہم کی ہیں؟‘
اس کے جواب میں ڈیوڈ موریسن نے کمیٹی کو بتایا کہ ’صحافی نے مجھے فون کیا اور اس بارے میں پوچھا۔ میں نے انھیں اس شخص کے بارے میں آگاہ کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ وہی صحافی تھے جنھوں نے اس بارے میں بہت کچھ لکھا تھا۔ صحافی بہت سے ذرائع سے معلومات لیتے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے اس شخص کے بارے میں تصدیق کرنے کو کہا۔ میں نے تصدیق کی۔‘
لیکن ڈیوڈ موریسن نے انڈین وزیر داخلہ امت شاہ کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی۔
کینیڈا میں خالصتانی رنگ کتنا گہرا؟
انڈیا اور کینیڈا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران کینیڈا میں خالصتان کے حامیوں کا احتجاج موضوع بحث بن گیا ہے۔
درحقیقت دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے دوران سب سے زیادہ زیر بحث موضوع کینیڈا کی خالصتان تحریک اور اس کے انتہا پسند خالصتانی رہنما تھے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دلی نے کینیڈا میں سرگرم خالصتان نواز تنظیموں پر انڈیا میں پرتشدد واقعات کروانے کا الزام لگایا۔
بی بی سی نے اس تحریک سے وابستہ بہت سے لوگوں، سینئر صحافیوں اور سب سے زیادہ سکھ آبادی والے کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں سماجی کارکنوں سے بات کی۔
اس گفتگو میں ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کینیڈا کے خالصتانی رہنماؤں کی جو تصویر انڈین حکومت اور میڈیا پیش کر رہی ہے اس کی حقیقت کیا ہے، خالصتانی رہنماؤں کی تعداد کتنی ہے، اور کینیڈا کی سیاست پر اس کے اثرات کیا ہیں؟
کیا ان کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ جسٹن ٹروڈو جیسا لیڈر ان کی حمایت کے لیے انڈیا جیسے بڑے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات خطرے میں ڈال سکتا ہے؟
اکتوبر کے تیسرے ہفتے کے دوران جب دونوں ممالک کے درمیان تناؤ عروج پر تھا، بی بی سی پنجابی کے نامہ نگار خوشحال لالی نے صوبہ اونٹاریو میں درجنوں لوگوں سے بات کی، لیکن ان میں سے زیادہ تر کیمرے پر بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔
جن لوگوں سے بی بی سی نے بات کی ان میں سے کوئی بھی خالصتانی کارکن کے طور پر کسی بھی سرگرمی میں باقاعدگی سے ملوث نہیں تھا۔
ہاں، وہ سب گرودواروں میں جاتے ہیں، تقریبات میں شرکت کرتے ہیں، اور علیحدگی پسند لیڈروں کی تقریریں بھی سنتے ہیں۔
کینیڈا میں برامپٹن سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ ٹیکسی ڈرائیور گرجیت سنگھ جو گزشتہ چار سال سے یہاں مقیم ہیں کا کہنا تھا کہ ’ہمیں شفٹوں سے فرصت نہیں ملتی، ہم کب خالصتان کی بات کریں گے۔‘
گرجیت سنگھ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن سے بی بی سی نے برامپٹن میں خالصتان تحریک کی زمینی صورتحال جاننے کے لیے بات کی تھی جس پر انڈیا اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تنازع کے بعد بحث ہو رہی ہے۔
خالصتان تحریک میں عام لوگوں کی شرکت کے بارے میں گرجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جسے ’ویک اینڈ سوسائٹی‘ کہا جاتا ہے۔ ہماری سالگرہ اور دیگر تقریبات بھی صرف ویک اینڈ پر ہی منعقد کی جاتی ہیں۔‘
تاہم کینیڈا میں خالصتان کا رنگ نظر آتا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار خوشحال لالی نے ذاتی طور پر کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا جس طرح کینیڈا میں خالصتانی تحریک کو انڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے۔
کئی گرودواروں کے باہر لٹکے خالصتانی جھنڈوں یا 1980 کی دہائی کی پنجاب کی مسلح تحریک کے عسکریت پسندوں کی تصویروں کے علاوہ لنگر خانوں میں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ انڈین پنجاب میں بھی ایسی تصویریں اور نعرے عموماً دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔
کینیڈا کے گوردواروں میں منعقد ہونے والے پروگراموں کے دوران 1984 میں سکھوں کے قتل عام کے مجرموں کو سزا نہ ملنے، 1984 میں اکال تخت صاحب پر انڈین فوج کی کارروائی اور جیلوں میں بند سکھ قیدیوں کی رہائی جیسے معاملات زیر بحث آتے رہے ہیں جہاں خالصتان کے حامی رہنما گرما گرم تقریریں کرتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں، لیکن انھیں اتنی ہی حمایت ملتی ہے جتنی پنجاب میں دیکھی جاتی ہے۔
ایک پہلو یہ ہے کہ جس طرح خالصتان تحریک کو زیادہ پذیرائی نہیں ملتی، اسی طرح اس کی مخالفت بھی نہیں۔
گوردواروں کی بڑی تقریبات میں صرف خالصتان کے حامی لوگ نظر آتے ہیں اور یہی لوگ سیاسی جلسوں میں بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔
خالصتان کی حامی تنظیم سکھس فار جسٹس، جسے انڈیا میں دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے، گوردواروں کے ذریعے مہم چلانے میں پیش پیش ہے۔
تنظیم کے رہنماؤں اور امریکا نے بھی انڈیا پر سکھ علیحدگی پسند رہنما گروپتونت سنگھ پنو کے قتل کی سازش کا الزام لگایا ہے جس کے لیے امریکی محکمہ انصاف نے انڈین شہری وکاس یادیو کے خلاف مقدمہ بھی درج کرایا ہے۔
انڈین پنجاب میں سابق ایم پی سمرن جیت سنگھ مان اور موجودہ ایم پی امرت پال سنگھ کا اس سے زیادہ اثر و رسوخ ہے جو کھل کر خالصتان کی حمایت کرتے ہیں۔
کینیڈا میں خالصتان کے حامیوں کا اثرورسوخ
کینیڈا میں علیحدگی پسند سکھ تحریک کی بات کی جائے تو اس کے بارے میں مختلف آراء سامنے آتی ہیں۔ اونٹاریو گردوارہ کمیٹی یہاں کے 19 بڑے گردواروں کی کمیٹیوں کی مشترکہ تنظیم ہے۔
ہم نے اس کے ترجمان امرجیت سنگھ مان سے پوچھا کہ خالصتانی تحریک کا کینیڈا میں مرکزی دھارے کی سیاست پر کتنا اثر ہے۔
امرجیت سنگھ مان کہتے ہیں کہ ’اگر انڈین حکومت یا میڈیا کہتا ہے کہ خالصتانی صرف مٹھی بھر لوگ ہیں اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹروڈو حکومت خالصتانی ووٹوں کے لیے انڈیا سے دشمنی کر رہی ہے، تو ان کا پہلا بیان خود غلط ہے۔‘
امرجیت سنگھ مان کا کہنا ہے کہ ’اگر خالصتانی کینیڈا میں تعداد میں بہت کم ہیں تو پھر ٹروڈو کو اتنی کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ الزام اسی وقت درست ہوگا جب ہماری تعداد زیادہ ہو گی۔‘
کینیڈین ووٹروں کی سیاست پر خالصتانیوں کے اثر و رسوخ کے بارے میں انھوں نے دعوی کیا کہ ’ہمارا اثر بہت زیادہ ہے، اور ہماری تعداد پہلے سے بڑھ چکی ہے۔‘
’لیکن ہم کسی ایک پارٹی کے ساتھ نہیں ہیں۔ جگمیت سنگھ کی این ڈی پی کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں، اور ہم پولیوار کی کنزرویٹو پارٹی کے ساتھ بھی ملتے ہیں۔‘
دوسرا رخ
کیا کینیڈا میں خالصتانی اتنے مضبوط ہیں کہ ٹروڈو اپنے سیاسی فائدے کے لیے انھیں خوش کرنے کے لیے انڈیا پر سنگین الزامات لگا رہے ہیں؟
اس سوال پر خالصتانی تحریک سے وابستہ ایک اور رہنما بھگت سنگھ برار اعداد و شمار کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔
بھگت سنگھ برار جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کے بڑے بھائی جاگیر سنگھ کے پوتے اور خالصتانی رہنما لکھبیر سنگھ روڈے کے بیٹے ہیں۔ جاگیر سنگھ آپریشن بلیو سٹار میں مارے گئے تھے۔
بھگت سنگھ برار، جو برامپٹن میں کار سروس ایجنسی چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’کینیڈا میں سکھوں کی آبادی 7.71 لاکھ ہے، جو کہ کل آبادی کا 2 فیصد ہے۔ اگر انڈیا یہ مانتا ہے کہ ان میں سے صرف 1 فیصد خالصتانی ہوں گے، تو پھر کیا ٹروڈو اتنی کم تعداد کی وجہ سے دنیا کی تیسری بڑی طاقت کے ساتھ تعلق خراب کریں گے؟‘
برار کا مزید کہنا ہے کہ ’کینیڈا میں تمام خالصتانی حامی ٹروڈو کے ساتھ نہیں ہیں۔ تین پارٹیاں ہیں، این ڈی پی، کنزرویٹو اور لبرل، اور بہت سے سکھ دوسرے راستوں پر بھی چلتے ہیں۔ یہاں تک کہ لبرلز میں بھی، سبھی ٹروڈو کے حامی نہیں ہیں۔‘
بھگت سنگھ برار کہتے ہیں کہ ’انڈیا یہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ کینیڈا ایک جمہوری ملک ہے، جہاں قانون کی حکمرانی ہے، اور جہاں ہردیپ سنگھ نجر جیسے شہری کو اپنی ہی سرزمین پر قتل کر دیا گیا ہے۔ کینیڈا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرے، اور وہ یہی کر رہا ہے۔‘
برار کا کہنا ہے کہ ’ٹروڈو حکومت خالصتان کی حمایت نہیں کر رہی ہے۔ ٹروڈو نے حال ہی میں کہا ہے کہ انھیں متحدہ انڈیا پر یقین ہے۔ میں ٹروڈو کا دفاع نہیں کر رہا ہوں، مجھے ان پر بہت سے اعتراضات ہو سکتے ہیں، لیکن انھوں نے یہ قدم صرف اس لیے اٹھایا ہے۔ کینیڈا کے شہریوں کے تحفظ کے لیے۔‘
کیا سیاسی اثر و رسوخ تعداد سے زیادہ اہم ہے؟
بلراج دیول پنجابی نژاد کینیڈین صحافی ہیں اور خالصتانی تحریک کے ناقد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
بلراج کہتے ہیں کہ ’خالصتانی تحریک نے کینیڈا میں اپنے لیے ایک مضبوط جگہ بنا لی ہے، چاہے وہ مقامی حکومت ہو، صوبائی، وفاقی سیاست ہو، یا انٹیلی جنس، سول سروس اور امیگریشن ایجنسیاں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’گزشتہ برسوں میں خالصتانی حامیوں نے نظام میں جگہ حاصل کر لی ہے، جس کی وجہ سے اب دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی آ رہی ہے۔‘
بلراج دیول خالصتانیوں کے سیاسی اثر و رسوخ کو اس دلیل سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں کہ وہ ’مٹھی بھر‘ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’خالصتان حامی سکھ برادری میں لابنگ کر کے ووٹ کی سیاست میں نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’لبرل پارٹی میں 1990 کی دہائی سے جان کرسچن سے لے کر جسٹن ٹروڈو تک، خالصتانیوں نے سکھ برادری کے نمائندوں کو پارٹی لیڈر کے طور پر آگے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘
’اسی طرح خالصتانیوں نے جگمیت سنگھ کو این ڈی پی میں پارٹی صدر بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جگمیت سنگھ خالصتان لابی کی مدد سے پارٹی صدر بنے، تب بہت شور ہوا کہ انھیں صرف وہاں زیادہ ووٹ ملے جہاں سکھوں کی آبادی زیادہ ہے، برامپٹن، مالٹن اور سرے جیسے علاقوں سے۔‘
ایک سوال کے جواب میں بلراج دیول کہتے ہیں کہ ’ووٹوں کی منطق غلط ہے۔ جمہوریت میں ووٹ دینے کے لیے صرف ووٹر ہی نکلتا ہے، چاہے وہ سیاسی سرگرمی ہو یا سماجی خدمت، خالصتانی سب سے آگے ہیں، صرف یہی نظر آتے ہیں۔‘
بلراج دیول نے یہ بھی کہا کہ ’سکھ برادری کے بڑے ادارے، جیسے گوردوارے، خالصتانیوں کے کنٹرول میں ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جب کینیڈا کے مرکزی دھارے کے رہنما بیساکھی جیسے بڑے پروگراموں میں آتے ہیں، تو وہ خالصتان کے حامیوں کو پوری سکھ برادری کے چہرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب وہ لیڈر بن کر سامنے آتے ہیں تو ان کا اثر و رسوخ بھی ہوتا ہے۔ پروگرام کے اندر بیٹھے لوگوں سے کون پوچھے گا؟‘
بلراج نے واضح کیا کہ ’میں یہ نہیں کہتا کہ خالصتانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن وہ بااثر ہیں۔ ایسا سکھ کم ہی ملتا ہے جو خالصتان کی کھل کر مخالفت کرتا ہو، اور جو خالصتان کے حامی نہیں ہیں، خاموش رہتے ہیں۔‘
الزامات پر خالصتان کے حامیوں کا کیا کہنا ہے؟
جب امرجیت سنگھ مان سے کینیڈین خالصتانی تنظیموں پر انڈیا میں تشدد بھڑکانے کے حکومت کے الزامات پر سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ہم نے ان تنظیموں کے بارے میں کبھی نہیں سنا جن کے نام لیے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ جمہوری طریقے سے کینیڈا کے قانون کے تحت خالصتان کے لیے لڑتے ہیں۔
خالصتانی انتہا پسندوں کی تصویروں کے ذریعے جذبات بھڑکانے اور اندرا گاندھی کے قتل جیسے واقعات کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک طویل عرصے سے ہوتا آرہا ہے، اس سے قبل امریکہ میں بھی ایسا دیکھا گیا ہے۔‘
مان نے کہا کہ ’ہم کوئی خیالی چیز نہیں دکھاتے، ہم دکھاتے ہیں جو ہوا، یہ ہماری تاریخ ہے، اور عسکریت پسند ہمارے ہیرو ہیں۔‘
بھگت سنگھ برار نے بھی ایسے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر انڈین حکومت کے پاس ثبوت ہیں تو وہ اسے کینیڈین حکومت کے حوالے کرے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
حال ہی میں کینیڈا سے انڈیا واپس آنے والے ہائی کمشنر سنجے ورما نے کینیڈین چینل سی ٹی وی پر بتایا تھا کہ انڈیا نے 26 افراد کے ڈوزیئر کینیڈا کے حوالے کر دیے ہیں، لیکن کینیڈا اس پر غور نہیں کر رہا ہے۔
بلراج دیول کا کہنا ہے کہ ’کینیڈا میں بیٹھ کر انڈیا میں تشدد کی سب سے بڑی مثال پاپ سٹار سدھو موسے والا کا قتل ہے، جس کے لیے لارنس بشنوئی گینگ لیڈر گولڈی برار کینیڈا میں بیٹھا ہوا ہے۔‘
بلراج دیول سوال کرتے ہیں کہ ’ایک طرف کینیڈا کہہ رہا ہے کہ لارنس بشنوئی گینگ یہاں جرائم کر رہا ہے تو دوسری طرف جب انڈیا گولڈی برار اور دیگر کی تحویل کا مطالبہ کرتا ہے تو انھیں دلی کے حوالے کیوں نہیں کیا جاتا؟‘
خالصتانی تنظیموں سے متعلق جرائم پر بلراج دیول کہتے ہیں ’جب کوئی تحریک چلتی ہے تو اکثر ایسے لوگ اپنے مفادات کے لیے گھس جاتے ہیں۔‘
ان کا ماننا ہے کہ ایسے بہت سے گروہ اب بھی خالصتانی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔
خالصتان پر کینیڈا کا سرکاری موقف
کینیڈا میں سکھ انتہا پسندی کے بارے میں انڈیا کی تشویش کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی کینیڈا کا ردعمل نیا ہے۔
سی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، جب اس وقت کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر نے 2012 میں انڈیا کا دورہ کیا تھا، تو انڈین وزیر خارجہ نے ’کینیڈا میں بڑھتی ہوئی انڈیا مخالف بیان بازی‘ کا مسئلہ اٹھایا تھا۔
ہارپر نے متحدہ انڈیا کی حمایت کی، لیکن جمہوری خالصتانی تحریکوں پر کوئی اقدام کرنے سے انکار کر دیا۔
G-20 سمٹ 2023 میں جب جسٹن ٹروڈو سے کینیڈا میں سکھ انتہا پسندی پر سوال کیا گیا تو انھوں نے بھی ہارپر کے موقف کو دہرایا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’ہم تشدد کو روکنے اور نفرت کے ایجنڈے کے خلاف کام کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’کچھ لوگوں کے اعمال کو پوری سکھ برادری سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔‘
ماہرین کا خیال ہے کہ کینیڈا میں سکھوں کی آبادی امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے زیادہ ہے لیکن خالصتان کے معاملے پر کمیونٹی متفق نہیں ہے۔
مشہور پنجابی وکیل ہرمندر ڈھلون، جو گزشتہ تین دہائیوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں، کہتے ہیں کہ ’انڈیا میں بیٹھے ہوئے لوگ شاید اس وہم میں ہوں کہ وہ نہیں جانتے کہ یہاں کتنی بڑی لابی ہوگی۔ برامپٹن کی 2-4 سیٹوں پر خالصتانی لیڈروں کا اثر ہو سکتا ہے، لیکن کینیڈا جیسے بڑے ملک میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ٹروڈو خالصتانی حامیوں کو خوش کر کے انتخابات میں اپنی شکست کو جیت میں بدل دیں۔‘