جولیا اچانک کسی اجنبی کی توجہ کا مرکز بننے پر حیران ہوئی۔ جولیا کے والد محمد اس سے پوچھتے ہیں: ’آپ کا نام کیا ہے‘ تو اس نے جواب میں اپنا نام لمبا کر کے بتاتے ہوئے کہا ’جووولیا۔‘
اسے مردوں کے ہجوم میں دیکھنا مشکل ہے۔ وہ چھوٹی سے بچی ہجوم کی پچھلی صف میں ہے۔
فوجیوں نے ان لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام کپڑے اتار دیں سوائے انڈر ویئر کے۔ کچھ عمر رسیدہ افراد کو بھی یہی ہدایات دی گئی ہیں۔ تمام افراد کیمرہ مین کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ یہ یقینی طور پر ایک اسرائیلی فوجی ہے۔
سب سے پہلے یہ تصویر ایک ایسے صحافی کے ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر شائع کی گئی تھی جس کے اسرائیلی ڈیفنس فورسز میں اہم اہلکاروں سے تعلقات ہیں۔
تصویر میں موجود افراد خوفزدہ، مایوس اور تھکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ چھوٹی سی لڑکی، جسے بی بی سی کے ایک پروڈیوسر نے تصویر میں دیکھا تھا کہیں دور دیکھ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کیمرے کی نظروں سے اوجھل کسی چیز نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ہو۔ یا شاید وہ فوجیوں اور ان کی بندوقوں کو نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔
اسرائیلی فوج نے لوگوں کو یہاں روکا ہوا ہے۔ ان کی پیچھے دور تک تباہ شدہ عمارتیں نظرآ رہی ہیں۔ فوجی ان کی تلاشی لے رہے ہیں، ان کی دستاویزات دیکھ رہے ہیں کہ کہیں ان کا تعلق حماس سے تو نہیں۔
اس جنگ کے اثرات لوگوں کی انفرادی زندگیوں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس بچی کی مردوں کے اس گروہ میں موجودگی، اس کے چہرے کے تاثرات اور اس کے کیمرے سے دوسرے طرف دیکھنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے؟ اس کے ساتھ کیا ہوا؟
یہ تصویر ایک ہفتہ قبل لی گئی تھی۔ ایک ہفتے میں سینکڑوں افراد مارے گئے، متعدد زخمی ہوئے اور ہزاروں بے گھر ہو گئے۔ بچے عمارتوں پر فضائی حملوں میں ملبے تلے دب کر مر گئے۔ کچھ علاج کے لیے ادویات یا طبی عملہ نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے۔
ہم نے بی بی سی عربی غزہ ٹوڈے پروگرام کے ساتھ کام کرتے ہوئے بچی کی تلاش شروع کی۔ اسرائیل بی بی سی یا دوسرے بین الاقوامی میڈیا کوغزہ میں آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
بی بی سی غزہ کی کوریج کے لیے قابل اعتماد فری لانس صحافیوں کے نیٹ ورک پر انحصار کرتا ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے امدادی ایجنسیوں میں لوگوں سے رابطہ کیا اور انھیں تصویر دکھائی۔
گھنٹوں کے اندر ہمیں جواب آ گیا۔ فون پر ٹیکسٹ میسج میں لکھا تھا: ’ہم نے اسے ڈھونڈ لیا ہے۔ یہ تین سالہ جولیا ابو وردہ ہے، اور ابھی زندہ ہے۔‘
جب یہ صحافی غزہ شہر میں اس خاندان کے پاس پہنچے جو جبالیہ سے یہاں آئے تھے تو جولیا اپنے والد، والدہ اور دادا کے ساتھ تھیں۔
وہ اینمیٹیڈ کارٹون دیکھ رہی تھیں۔ اوپر اڑنے والے اسرائیلی ڈرون کی آواز کے باعث سننا مشکل تھا کہ یہ کون سے کارٹون ہیں۔
جولیا اچانک کسی اجنبی کی توجہ کا مرکز بننے پر حیران ہوئی۔ جولیا کے والد محمد اس سے پوچھتے ہیں: ’آپ کا نام کیا ہے‘ تو اس نے جواب میں اپنا نام لمبا کر کے بتاتے ہوئے کہا ’جووولیا۔‘
جولیا کو جسمانی طور پر کوئی زخم نہیں آئے۔
جمپر اور جینز میں ملبوس جولیا کے بال نیلے بینڈ سے ترتیب سے بندھے ہوئے ہیں لیکن جولیا کے تاثرات سے پریشانی نظر آتی ہے۔
جولیا کے والد محمد ہمیں اس تصویر کی کہانی سناتے ہیں۔ یہ خاندان دربدر ہو چکا ہے۔ تین ہفتوں میں اسے پانچ بار اپنے ٹھکانے تبدیل کرنے پڑے ہیں۔ وہ ہر بار فضائی حملوں سے بھاگے ہیں۔
جس روز جولیا کی یہ تصویر لی گئی اس روز اسرائیلی ڈرون پر لوگوں کو علاقے سے نکل جانے کا اعلان کیا گیا۔
یہ الخلفا ڈسٹرکٹ تھا جہاں اسرائیلی فوجی حماس کا پیچھا کرتے ہوئے داخل ہو رہے تھے۔ محمد بتاتے ہیں کہ یہ عام فائرنگ تھی۔ ہم جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ کی طرف جا رہے تھے۔
خاندان کے پاس کچھ کپڑے تھے، خوراک کے کچھ ٹن پیک اور کچھ ذاتی چیزیں۔ ابتد میں تو پورا خاندان اکٹھا تھا۔ جولیا کے والد، ان کی والدہ، ان کا پندرہ ماہ کا بھائی حمزہ، دادا اور دو چچا اور ایک کزن ساتھ تھے۔
لیکن اس بھیڑ میں جولیا اور اس کے والد خاندان سے بچھڑ گئے۔
محمد بتاتے ہیں کہ ’میں رش کی وجہ سے جولیا کی امی سے بچھڑ گیا۔ وہ چلی گئی اور میں اسی جگہ رہ گیا۔‘
آخر کار باپ اور بیٹی لوگوں کے ساتھ آگے بڑھے۔ سڑکوں پر ہر طرف موت تھی۔ محمد بتاتے ہیں: ’ہم نے ہر طرف تباہی اور لاشیں بکھری ہوئی دیکھیں۔‘
کوئی ایسا طریقہ نہیں تھا کہ جولیا کو اس تباہی کے خوفناک مناظر دیکھنے سے بچایا جا سکتا تھا۔ اس نے کچھ تو دیکھا ہو گا۔
ایک سال سے زائد عرصے کی جنگ کے دوران بچے پرتشدد ہلاکتوں کو دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
چلتے چلتے یہ گروپ ایک اسرائیلی چوکی پر پہنچ گیا۔
وہاں فوجی موجود تھے، کچھ ٹینکوں پر کچھ زمین پر۔ فوجی ان کے پاس پہنچے اور ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کے دوران لوگ ایک دوسرے کودھکیل رہے تھے۔
فوجیوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ انڈرویئر کے علاوہ تمام کپڑے اتار دیں۔ یہ آئی ڈی ایف کا معمول ہے۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے ہتھیار تو نہیں چھپا رکھے یا ان میں کوئی خود کش حملہ آور تو نہیں ہیں۔
محمد بتاتے ہیں کہ انھیں چھ سات گھنٹے چیک پوسٹ پر روکے رکھا گیا۔
تصویر میں تو جولیا پرسکون نظر آرہی ہے لیکن ان کے والد بتاتے ہیں کہ وہ بعد میں پریشان ہو گئی تھی۔ وہ رونے لگی کہ وہ اپنی امی کے پاس جانا چاہتی ہے۔
آخرکار خاندان اکٹھا ہو گیا۔ بے گھر ہونے والوں کو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں رکھا گیا ہے۔ خاندانوں کے آپس میں رشتے مضبوط ہیں۔ جب ان کے رشتہ دار جبالیہ سے آتے ہیں تو غزہ شہر میں یہ خبر تیزی سے پھیل جاتی ہے۔ جولیاسے محبت کرنے والوں نے اسے تسلی دی۔ اسے ٹافیاں اور آلو کے چپس دیے۔ یہ وہ ٹریٹ ہے جسے وہ سنبھال کر رکھتے ہیں۔
والد نے ہمارے ساتھی کو جولیا کو ملنے والے ذہنی صدمے کا بتایا۔ انھوں نے بتایا کہ جس روز وہ جبالیہ سے نکلے ہیں اسی روز جولیا کے کزن یحییٰ ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔ سات سالہ حمزہ جولیا کا بہت فیورٹ کزن تھا۔ دونوں اکٹھے گلی میں کھیلتے تھے۔
محمد نے بتایا کہ زندگی معمول کے مطابق ہوا کرتی تھی اور جولیا ہر طرف بھاگی پھرتی تھی۔
'لیکن اب جب بھی گولہ باری ہوتی ہے، وہ اوپر اشارہ کرتی ہیں اور کہتی ہے: ’ہوائی جہاز‘ جب ہم چیک پوسٹ پر پھنسے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے اوپر اڑنے والے ڈرون کی طرف اشارہ کرتی رہی۔
یونیسیف کے مطابق غزہ کی جنگ میں چودہ ہزار بچے مارے جا چکے ہیں۔
یونیسیف کے ترجمان جوناتھن کرککس کا کہنا ہے کہ 'آئے دن بچے اس جنگ کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو انھوں نے شروع نہیں کی تھی۔
’میں جن بچوں سےبھی ملا ہوں، ان میں سے زیادہ تر نے اکثر خوفناک حالات میں اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔‘
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں تمام بچوں یعنی تقریباً دس لاکھ بچوں کو ذہنی صحت کی مدد کی ضرورت ہے۔
جب آپ سوچتے ہیں کہ جولیا نے کیا دیکھا ہے اور وہ کہاں پھنسی ہوئی ہے تو جولیا جیسی بچی کو بھی ’خوش قسمت‘ کہنا مشکل ہے۔
کون جانتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ سب کچھاس کے خوابوں اور یادوں میں نہیں آئے گا۔ اب تک وہ یہ جان چکی ہے کہ زندگی کسی روز خوفناک اندازمیں ختم ہو سکتی ہے۔
ان کی خوش قسمتی صرف اس کا خاندان ہے جو فضائی حملوں، بھوک اور بیماری کے باوجود ان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔