کینیڈا میں غیر ملکی طلبہ کی حالت زار: ’نو ماہ تک کام نہیں ملتا، اب مفت کھانے کی سہولت بھی ختم‘

کینیڈا میں خوراک کی بڑھتی ہوئی مانگ نئے خدشات کو جنم دے رہی ہے اور اب وینکوور کے ایک مقامی فوڈ بینک نے حال ہی میں فرسٹ ایئر کے غیر ملکی طلبہ کو کھانا دینے سے منع کر دیا ہے۔
کینیڈا
Getty Images
فوڈ بینک سے ہر سال لاکھوں لوگوں کو مفت راشن فراہم کیا جاتا ہے

کینیڈا میں خوراک کی بڑھتی ہوئی مانگ نئے خدشات کو جنم دے رہی ہے اور اب وینکوور کے ایک مقامی فوڈ بینک نے حال ہی میں فرسٹ ایئر کے غیر ملکی طلبہ کو کھانا دینے سے منع کر دیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گریٹر وینکوور فوڈ بینک نے کھانے کے طلبگاروں کی تعداد میں روز بروز اضافے کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق چند برسوں میں ان پر بوجھ بڑھا ہے۔

گریٹر وینکوور فوڈ بینک کی کمیونیکیشن منیجر ایما نیلسن نے ای میل کے ذریعے میڈیا کو بتایا کہ موجودہ حکومتی پالیسی کے مطابق غیر ملکی طلبہ کو کینیڈا آنے سے پہلے اپنے ساتھ ’کافی پیسے‘ لانے کی ضرورت ہے۔

وفاقی ضوابط کے مطابق غیر ملکی طلبہ کے پاس کینیڈا میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ٹیوشن اور سفری اخراجات کے علاوہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں 20,635 ڈالر ہونا ضروری ہے۔

کینیڈا میں بین الاقوامی طالب علموں کے لیے کام کرنے والے ایک طلبہ کارکن جسکرن بنیپال کہتے ہیں: ’یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ گریٹر وینکوور فوڈ بینک طلبہ کو ان کے 'جی آئی سی' کی وجہ سے کھانا دینے سے انکار کر رہا ہے۔'

جی آئی سی کا مطلب گائرنٹیڈ انویسٹمنٹ سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے۔ یعنی آپ کے اکاؤنٹ میں ایک خاص رقم ہونی چاہیے۔

اس فیصلے کے بعد گریٹر وینکوور فوڈ بینک کو بھی تنقید کا سامنا ہے۔

بی بی سی پنجابی نے گریٹر وینکوور فوڈ بینک سے رابطہ کیا، لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

مقامی فوڈ بینک کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب کینیڈا میں گروسری کی قیمتیں اور بے روزگاری ریکارڈ بلندیوں پر ہے۔

مہنگائی اور بے روزگاری نے وہاں کے عوام کی زندگی کو بُری طرح متاثر کر رکھا ہے۔

کینیڈا پہنچنے والے غیر ملکی طلبہ کی بڑی تعداد کو روزگار کے ساتھ ساتھ اب خوراک کا بھی بڑا چیلنج درپیش ہے۔

گریٹر وینکوور فوڈ بینک کے مینیجرز کا کیا کہنا ہے؟

کینیڈا کے گریٹر وینکوور فوڈ بینک کی ویب سائٹ کے مطابق وہ ہر ماہ تقریباً 15,000 ضرورت مند لوگوں کو کھانا فراہم کرتے ہیں۔

گریٹر وینکوور فوڈ بینک کے مطابق ان کی تنظیم کو حکومت کی جانب سے کوئی فنڈنگ نہیں ہوتی ہے۔

انھیں صرف عوام اور صنعت کاروں کی حمایت حاصل ہے۔

گریٹر وینکوور فوڈ بینک کے سی ای او ڈیوڈ لانگ نے کینیڈا کے ٹی وی چینل سی ٹی وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چھ سال قبل ان کے پاس ساڑھے چھ ہزار رجسٹرڈ افراد تھے جن کی تعداد اب پندرہ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

انھوں نے کہا: 'ہم خوراک کے حجم کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ دیکھ رہے ہیں، اور یہ اعداد و شمار حیران کن ہیں۔'

ان کا کہنا ہے کہ ان کے گاہکوں میں نوجوانوں سے لے کر مقررہ آمدنی والے معمر افراد تک شامل ہیں جو اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہیں ہیں۔

'ہم خاص طور پر وینکوور میں بہت سارے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ان (میں ایسے بھی ہیں جن) کے پاس کل وقتی ملازمتیں ہیں اور وہ اپنی انشورنس خود ادا کرتے ہیں۔ ان کے پاس نوکری ہے لیکن وہ اپنا کرایہ، اپنی رہائش اور گاڑی (کی قسط) وقت پر ادا نہیں کر سکتے۔'

وینکوور سٹی کونسلر ایڈرین کار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گریٹر وینکوور فوڈ بینک کے لیے یہ مسئلہ نیا نہیں ہے کیونکہ اس سسٹم میں ہی مسائل ہیں۔

انھوں نے کہا: ’میں فوڈ بینک کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہی کیونکہ وہ ان کے پاس کام زیادہ ہے۔ بہت سے خاندان اور بزرگ ان تک پہنچ رہے ہیں۔

'میرے خیال میں حکومتوں کو مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔'

رضاکار تنظیم وی کیئر
BBC
رضاکار تنظیم وی کیئر طلبہ کو امداد فراہم کرتی ہے

طلبہ کا فوڈ بینک پر کس حد تک انحصار؟

جسکرن سنگھ کینیڈا میں بین الاقوامی طالب علم کارکن ہیں اور انھوں نے 'ٹیم وی کیئر کینیڈا' کے ساتھ کام کیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: 'وینکوور فوڈ بینک جس 20 ہزار ڈالر کی بات کر رہا ہے وہ طالب علموں کو سال بھر قسطوں میں ملتا ہے۔ بعض اوقات طلبہ کو کینیڈا میں 9-9 ماہ تک کام نہیں ملتا اور اوپر سے کرایہ اور دیگر اخراجات کا بار اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔'

جسکرن سنگھ کا کہنا ہے کہ بہت سے طلبہ جنھیں وقت پر کام نہیں ملتا وہ ان فوڈ بینکوں پر انحصار کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا: ’فوڈ بینک کے مطابق، ان کے پاس مدد کے لیے آنے والے 100 افراد میں سے 25 فیصد بین الاقوامی طلبہ ہیں، جنھیں اب اس امداد سے براہ راست خارج کر دیا گیا ہے۔'

جسکرن سنگھ کا کہنا ہے کہ انڈین طلبہ اور بطور خاص پنجابی کمیونٹی کے طلبہ، ان فوڈ بینکوں پر کم انحصار کرتے ہیں کیونکہ انھیں زیادہ تر گرودواروں یا یہاں قائم پنجابی کمیونٹی کی دیگر تنظیموں سے مدد مل جاتی ہے۔

کینیڈا غیر ملکی طلبہ زیادہ تر بے روزگار ہوتے ہیں اور اپنی خوراک کے لیے فوڈ بینکوں پر انحصار کرتے ہیں۔ کینیڈا کی ہنگر کاؤنٹ کی رپورٹ کے مطابق فوڈ بینک پر سنہ 2018 کے مارچ میں جہاں 10 لاکھ لوگ انحصار کر رہے تھے وہی رواں سال مارچ میں بڑھ کر 20 لاکھ سے زیادہ ہو گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ 20 لاکھ افراد نے کینیڈا کے فوڈ بینکوں پر انحصار کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوڈ بینکوں میں بڑھتی ہوئی تعداد خوراک کی بلند قیمتوں اور معاشی مشکلات کی عکاسی کرتی ہے۔

ہنگر کاؤنٹ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2019 کے مقابلے رواں سال فوڈ بینک استعمال کرنے والوں میں 90 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فوڈ بینکنگ سسٹم اپنی سب سے اعلی سطح پر ہے۔

فوڈ بینک کینیڈا کے ریسرچ ڈائریکٹر رچرڈ میٹرون نے سی ٹی وی نیوز کو بتایا: 'جو لوگ ملازمت کرتے ہیں وہ زندگی کی بڑھتی ہوئی لاگت کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ ان کی ضروریات زندگی ان کی آمدنی سے کم ہے۔‘

رچرڈ نے بڑھتی ہوئی مانگ کو 'بے مثال' قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے معاشرے میں گروسری اور رہائش کی بڑھتی ہوئی قیمت تقریباً ہر کینیڈین کو متاثر کر رہی ہے۔

کینیڈا میں مقیم سکھ برادریوں کے فوڈ بینک بھی وہاں امداد فراہم کر رہے ہیں
BBC
کینیڈا میں مقیم سکھ برادریوں کے فوڈ بینک بھی وہاں امداد فراہم کر رہے ہیں

کینیڈا میں فوڈ بینک کیسے کام کرتے ہیں؟

فوڈ بینک کینیڈا کی ویب سائٹ کے مطابق کینیڈا میں تقریباً 5,100 فوڈ بینک ہیں جو کینیڈا میں ضرورت مندوں کو کھانا فراہم کرتے ہیں۔

کیسر سنگھ سرے میں گرو نانک فوڈ بینک کے رضاکار ہیں۔ انھوں نے بی بی سی پنجابی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بڑی وجہ معاشی کساد بازاری کا رجحان اور مہنگائی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فوڈ بینکوں پر طلباء کا انحصار اور تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔

کیسر سنگھ بتاتے ہیں: 'فوڈ بینک میں آنے والے زیادہ تر لوگ ایسے طالب علم ہوتے ہیں جن کے پاس کام نہیں ہوتا ہے۔'

گرو نانک فوڈ بینک کو سنہ 2020 میں کووڈ کے دور میں سرے کے گردوارہ دکھ نیوارن صاحب کے چیئرمین نریندر سنگھ نے قائم کیا تھا۔

ان کے مطابق بہت سے طلبہ یا ضرورت مند خاندان ان کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں جنھیں ماہانہ راشن کا پیکٹ دیا جاتا ہے۔

کیسر سنگھ بتاتے ہیں: ’ہماری تنظیم کو حکومت سے فنڈ نہیں ملتا۔ یہ تنظیم صرف سکھ برادری کے تعاون سے چلائی جا رہی ہے۔ ہماری دو شاخیں چل رہی ہیں، جن کے ذریعے ضرورت مندوں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ دور دراز کے طلبہ بھی ان کے ادارے سے رجوع کرتے ہیں۔

’ہماری تنظیم صبح 11 بجے سے شام 6 بجے تک ضرورت مندوں کی مدد کرتی ہے، جب کہ سرکاری فوڈ بینک صرف دو گھنٹے کے لیے کھلتے ہیں۔ طلبہ بڑی تعداد میں مدد کے لیے آتے ہیں، اس لیے حکومتوں کو چاہیے کہ وہ فوڈ بینکوں کے کھلنے کے اوقات میں توسیع کریں اور فوڈ بینکوں کو مالی مدد فراہم کریں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.