بی بی سی نے ایسے پاکستانی اور ایرانی ملاحوں سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس دو ہی راستے ہیں: یا تو وہ اپنے خاندان کو بھوکا رکھیں یا صومالی قذاقوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کا خطرہ مول ہیں۔ بحر ہند میں بحری قذاقی کا خطرہ پھر سے ملاحوں اور مچھیروں کی زندگیاں کیسے مشکل بنا رہا ہے؟
مریم اور اُن کے شوہر گل محمد اپنے 20 سالہ بیٹے رسول بخش کی بحر ہند سے واپسی کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے لیکن یہ انتظار ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ مریم بتاتی ہیں کہ اس انتظار کے دوران ایک وقت ایسا آیا جب انھوں نے لوگوں سے سوال کرنا شروع کر دیا کہ ’ہمارا بیٹا واپس کیوں نہیں آ رہا؟‘
کسی کے پاس اُن کے سوالوں کا جواب نہیں تھا۔ کئی ہفتے یوں ہی گزر گئے اور پھر چند مچھیرے آخرکار رسول کے بارے میں خبر لے کر آئے۔ رسول بخش صومالی قذاقوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔
20 سالہ رسول بخش شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کے باپ ہیں۔
اس کے بعد کئی ماہ رسول بخش کی کوئی خبر نہ آئی۔ اور پھر ایک دن اچانک ایک فون کال آئی۔ سگنل ٹوٹ رہے تھے لیکن دوسری جانب آواز کے بارے میں شک کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ یہ رسول بخش کی ہی آواز تھی۔
مریم کو وہ لمحہ اب بھی یاد ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ (رسول) رو رہا تھا اور اس نے بتایا کہ اس کے پورے جسم پر زخم ہیں۔‘ اُس وقت مریم کو احساس ہوا کہ وہ کتنی بے یارومددگار ہیں۔ ’اُس نے ہماری منت کی کہ اس کو قذاقوں سے چھڑوایا جائے۔‘
مریم کہتی ہیں کہ ’کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس لمحے میں نے خود کو کتنا بے بس محسوس کیا۔ میں اپنے بیٹے کو صرف یہ بتا پائی کہ ہم کتنے غریب ہیں، یہ تو تم جانتے ہی ہو۔‘
بی بی سی نے ایسے پاکستانی اور ایرانی ملاحوں سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ اپنے خاندان کو بھوکا رکھیں یا پھر صومالی قذاقوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کا خطرہ مول لیں۔
بحر ہند میں بحری قذاقی کا خطرہ پھر سے ملاحوں اور مچھیروں کی زندگیاں مشکل بنا رہا ہے۔ تاہم اغوا برائے تاوان سمیت قتل کی وارداتوں اور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہونے کے باوجود روزگار کے سلسلے میں یہ ملاح سمندر لوٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
کشتیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ اب وہ سکیورٹی کی ضمانت دینے والے ایسے صومالی باشندوں کو ہزاروں ڈالر ادا کرتے ہیں جو اُن کے مطابق خود بھی قذاقی کے کام میں ملوث ہیں۔
تاوان
رسول بخش کو اغوا کرنے والے بحری قذاقوں نے رہائی کے عوض 12 ہزار ڈالر تاوان کا مطالبہ کیا۔ اتنی رقم کی ادائیگی رسول بخش کے بوڑھے اور غریب والدین کے لیے ناقابل تصور تھی جو ایران کے چابہار صوبے کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔
اس علاقے میں قحط کی وجہ سے بہت سے نوجوان روزگار کے لیے اب جان جوکھم میں ڈال کر بحر ہند کا رُخ کرتے ہیں۔
رسول کی والدہ، مریم، اپنے بیٹے کے تاوان کی رقم اکھٹا کرنے خود باہر نکلیں اور انھوں نے لوگوں سے پیسے مانگے۔ اُن کے لیے پیدل چلنا بھی مشکل تھا لیکن انھوں نے ایک کے بعد دوسرے قصبے کا رُخ کیا۔
اس سے قبل انھوں نے اپنے گھر کا سارا سامان اور مویشی بیچ ڈالے، حتیٰ کہ اپنا کھجور کا درخت بھی۔
اغوا یا بھوک
ہم نے جن ملاحوں اور مچھیروں سے بات چیت کی انھوں نے کہا کہ وہ خطرات جانتے ہیں لیکن اُن کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
پاکستان کے شہر کراچی کے 38 سالہ سلیم خان کہتے ہیں کہ ’اگر میں کہوں کہ مجھے ڈر نہیں لگتا تو یہ جھوٹ ہو گا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اپنی موت کی طرف خود چل کر جانا لیکن اگر ایسا نہ کریں تو فاقہ کشی ہمیں گھر پر ہی مار ڈالی گی۔‘
سلیم 2018 میں بحری قذاقوں کے ہاتھوں اغوا ہوئے تھے۔ حال ہی میں بحری قذاقوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے اُن کے پرانے زخم تازہ کر دیے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ قذاقوں نے پہلے ہماری کشتی چھینی اور پھر اس کی مدد سے بڑے بحری جہازوں کو نشانہ بنایا۔ چند ہفتے بعد سلیم نے خود کو ایک صحرا میں پایا جہاں بیس دن تک بنا پانی اور خوراک کے انھیں قید رکھا گیا۔
ہم رات کو اندھیرے میں روتے تھے تاکہ دوسرے ہمارے آنسو نہ دیکھ پائیں۔ سلیم اور اُن کے ساتھیوں کو بعد میں بحری قذاقوں سے ایک معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔
سلیم نے بہت کوشش کی لیکن انھیں کوئی اور کام نہیں مل سکا جس سے وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکتے۔ انھیں سمندر میں واپس جانے سے ڈر لگنے لگا تھا۔ ایسے میں جب گذشتہ سال اُن کے ایک دوست نے بتایا کہ اب سمندر میں واپسی محفوظ ہو چکی ہے تو اُن کی جان میں جان آئی۔
لیکن جلد ہی قذاقوں نے اُن کی کشتی پر دوبارہ حملہ کیا جس میں وہ مشکل سے بچنے میں کامیاب ہوئے۔ سلیم نے بتایا کہ میں نے انھیں سامنے کی جانب سے آتے ہوئے دیکھ لیا۔ ہم نے مچھلیاں پکڑنے کے لیے بچھائے جانے والے جال کاٹ دیے اور فرار ہو گئے۔
اس کے بعد قذاقوں نے اُن کے ایک دوست کی کشتی پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا۔
جونکیں
مچھیروں کی کشتیاں بحری قذاقوں کا اصل ہدف نہیں ہوتی ہیں بلکہ انھیں بڑے بحری جہازوں پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مچھیروں نے ہمیں بتایا کہ قذاق ’جونکوں‘ کی طرح کام کرتے ہیں۔ قذاق اُن کی کشتیوں پر قبضہ کرنے کے بعد اُن کے سامان اور رسد کو استعمال کرتے ہیں اور بحری جہازوں پر حملہ کرتے ہوئے ملاحوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
صومالیہ کے ساحلوں پر قذاقی سے نمٹنے والے یورپی یونین کے ادارے کا کہنا ہے کہ وہ بھی ایسے کیس دیکھ چکے ہیں۔
ادارے نے بی بی سی کو بتایا کہ علاقے میں قذاقوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں یہ نئی قسم کا رویہ دیکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ دنیا میں جہاز رانی کے لیے بحرہند مصروف راستہ ہے جو صومالیہ کے ساحل کے قریب سے ہوتا ہوا نہر سویز اور بحیرہ احمر سے گزرتا ہے۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان یہ سب سے مختصر سمندری راستہ ہے۔ بحیرہ احمر کے راستے سے عالمی رسد کا 12 فیصد سامان جاتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں یہ علاقہ تنازعات کی نذر ہوا ہے۔
یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں نے غزہ کی حمایت میں بحری جہازوں پر حملوں کا آغاز کیا۔ ان حملوں کی وجہ سے مغربی بحری فوجوں کا دھیان صومالی قذاقوں سے ہٹا ہے اور مچھیروں کا ماننا ہے کہ بحری قذاقی میں اضافے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔
منافع بخش کاروبار
کراچی کی بندرگاہ پر کپتان محمد اشرف اپنی کشتی کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے 18 ماہ اور ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر اس کی تیاری میں صرف کیے ہیں اور یہ جلد ہی سفر کے لیے تیار ہو گی۔
لیکن انھیں بھی ایک خوف لاحق ہے۔ ’میں خوفزدہ ہوں کیونکہ قذاق ہمیں پکڑ سکتے ہیں اور اگر اُن کا حکم نہ مانیں تو وہ گولی مار دیتے ہیں۔‘
40 سالہ قیوم کا تعلق ایرانی بلوچستان سے ہے۔ وہ کافی عرصے سے ان پانیوں میں مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔
لیکن اِن دنوں وہ اور اشرف جیسے لوگ صومالی سکیورٹی گارڈز کو ہزاروں ڈالر کی ادائیگی کرتے ہیں تاکہ انھیں قذاقوں سے بچایا جائے۔
انھوں نے بتایا کہ اس قسم کی سکیورٹی میں اضافے کی وجہ سے ریٹ بھی بڑھ گیا ہے اور اب 40 دن کے لیے فی باڈی گارڈ 18 ہزار ڈالر تک فیس مانگی جاتی ہے۔
قیوم بتاتے ہیں کہ اِن پیسوں کے عوض اُن کو سکیورٹی گارڈز کے ساتھ ساتھ صومالیہ کے سمندری پانیوں میں مچھلیاں پکڑنے کا اجازت نامہ بھی ملتا ہے جس کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ یہ سب جعلی ہوتا ہے۔‘
انھیں بتایا جاتا ہے کہ اگر اُن کا سامنا حکام سے ہو تو یہ اجازت نامہ نہ دکھایا جائے بلکہ فراہم کردہ فون نمبر پر اطلاع دی جائے تاکہ مسئلہ حل کیا جا سکے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ سکیورٹی فراہم کرنے والے صومالی کون ہیں۔ مچھیروں اور ملاحوں کا کہنا ہے کہ انھیں یہ اجازت نامہ اُس وقت ملتا ہے جب وہ صومالیہ کے ساحل کے قریب پہنچتے ہیں اور پھر ایک چھوٹی کشتی کا انتظار کرنا پڑتا ہے جس کے ذریعے گارڈ اور اجازت نامہ آتا ہے۔
40 دن بعد کشتی اور اس کا عملہ انتظار کرتا ہے جبکہ ایک کمپنی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ پیسہ اُن تک پہنچ چکا ہے۔
پاکستانی اور ایرانی مچھیروں کا کہنا ہے کہ وہ ایران میں منی ایکسچیج کرنے والوں کو رقم دیتے ہیں جو دبئی میں مڈل مین کے ذریعے یا پھر براہ راست صومالیہ یہ رقم ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ تاوان کی رقم کی ادائیگی کے لیے بھی صومالی قذاق یہی راستہ اسعمال کرتے ہیں۔
بے چین راتیں
کراچی کی بندرگاہ ایسی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ 43 سالہ کپتان غلام رشید نے بتایا کہ اُن کے دوست کی کشتی پر گذشتہ سال قذاقوں نے حملہ کیا تھا اور فرار ہونے کی کوشش کرنے پر عملے پر فائرنگ کر دی گئی۔
’عملے کا ایک رکن زخمی ہوا اور قذاقوں نے اسے زندہ سمندر میں پھینک دیا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’سمندر میں ایسے مناظر رات کی نیند اڑا دیتے ہیں۔ ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں لیکن ہمارا دل کبھی نہیں سوتا۔‘
ایک سال قید کاٹنے کے بعد رسول بخش کو آخرکار رہا کر دیا گیا اور وہ اپنے والدین سے مل پائے۔ وہ اس علاقے کے اُن ملاحوں میں سے ایک ہیں جن کے خاندانوں نے تاوان دے کر رہائی دلوائی۔
کراچی کے سلیم خان اپنی بیٹی نمرہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے۔ چند ہی ہفتوں میں انھیں دوبارہ سمندر واپس جانا ہے۔
اُن کا خاندان جانتا ہے کہ وہ یہ خطرہ اُن کے لیے ہی مول لے رہے ہیں لیکن پھر بھی سفر پر روانہ کرتے ہوئے خداحافظ کہنا آسان نہیں ہوتا۔
ہر وقت قذاقوں کے حملے کی فکر اُن کو بھی رات کو سونے نہیں دیتی۔
’میں آنکھیں بند کرنے سے پہلے فون کھولتا ہوں اور اپنی ماں کی تصویر دیکھتا ہوں، پھر اپنی بیوی اور بچیوں کی تصویر دیکھ کر روتا ہوں، اور فون سینے پر رکھ کر سو جاتا ہوں۔‘