وائٹ ہاؤس کا اگلا مکین کون ہو گا؟ یہ وہ معاملہ ہے جس پر پوری دنیا کی نظریں ہیں۔ امریکہ میں عمومی طور پر رائے عامہ کے جائزوں کے ذریعے پیش گوئی کی جاتی ہے کہ کون سا صدارتی امیدوار عوامی مقبولیت کی کس سطح پر کھڑا ہے۔ مگر یہ جائزے کس حد تک درست ہوتے ہیں؟
امریکہ کی تمام سوئنگ ریاستوں میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ شروع ہو چکی ہے اور پولنگ ڈیٹا کے مطابق کملا ہیرس کو پینسلوینیا جیسی اہم ریاست میں معمولی برتری حاصل ہو چکی ہے۔
امریکی سیاسی پنڈتوں کے مطابق پینسلوینیا وہ سوئنگ ریاست ہے جو صدارتی انتخاب میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس دونوں نے ہی یہاں حالیہ ہفتوں میں سب سے زیادہ وقت گزارا ہے۔
ساتوں سوئنگ ریاستوں میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس دونوں کو ایک دوسرے پر معمولی برتری ہی حاصل ہے۔ اسی سبب ابھی یہ کہنا تقریباً ناممکن ہے کہ اگلا امریکی صدر کون ہوگا۔
پولنگ ڈیٹا کے مطابق نیواڈا، جارجیا، شمالی کیرولینا اور ایریزونا میں ٹرمپ، جبکہ مشی گن اور وسکونسن میں کملا ہیرس آگے ہیں۔
رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اہلیہ میلانیا ٹرمپ کے ہمراہ پام سپرنگز، فلوریڈا میں ووٹ ڈالنے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں بہت پُراعتماد ہوں اور ایسا لگتا ہے کہ رپبلکن اپنی طاقت دکھا چکے ہیں۔‘ دوسری جانب کملا ہیرس نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ انھوں نے اپنا ووٹ میل کے ذریعے ارسال کیا ہے۔
ابتدائی طور پر تو یہ انتخاب 2020 کے صدارتی انتخاب کا ’ری میچ‘ لگ رہے تھے تاہم جولائی میں صورتحال نے پلٹا اُس وقت کھایا جب صدر جو بائیڈن نے اس دوڑ سے دستبردار ہوتے ہوئے نائب صدر کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس انتخاب کا نتیجہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری بار صدر بنائے گا یا امریکی تاریخ میں پہلی بار کوئی خاتون صدر بنیں گی؟
ہم انتخابی جائزوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ وائٹ ہاؤس تک رسائی کی دوڑ میں انتخابی مہم کے اثرات کیا ہیں۔
قومی سطح پر رائے عامہ کے جائزوں میں کسے برتری حاصل ہے؟
صدر جو بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کے فیصلے کے روز تک رائے عامہ کے تمام جائزوں میں ڈونلڈ ٹرمپ برتری حاصل کیے ہوئے نظر آ رہے تھے اور جو بائیڈن کی دستبرداری کے بعد کے جائزوں میں بھی کہا گیا کہ کملا ہیرس کے آنے سے بھی نتائج میں زیادہ بہتری کی توقع نہیں ہو گی۔
لیکن کملا ہیرس کی انتخابی مہم کے آغاز کے بعد امریکہ کی صدرات کی دوڑ سخت ہو گئی اور انھوں نے قومی سطح کے رائے عامہ کے جائزوں میں اپنے حریف پر معمولی برتری بھی حاصل کی جسے وہ تاحال برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔
نیچے امریکہ بھر میں رائے عامہ کے جائزوں کی بنیاد پر انتخاب سے ایک دن قبل تک دونوں امیدواروں کی مقبولیت کی شرح دی گئی ہے۔
10 ستمبر کو کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی مباحثے میں سامنے آئے جسے چھ کروڑ 70 لاکھ افراد نے دیکھا۔
اس مباحثے کے بعد بھی کملا اپنی برتری کا فرق برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں لیکن گذشتہ چند دنوں کے دوران اس فرق میں کمی آئی ہے جو کہ نیچے دیے گئے پول ٹریکر چارٹ میں واضح ہے۔
اس چارٹ کی ٹرینڈ لائنزظاہر کرتی ہیں کہ کملا ہیرس کے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ہونے کے بعد امیدواروں کی مقبولیت کی شرح میں کیسے تبدیلی آئی۔
اگرچہ یہ رائے عامہ کے جائزے اور پولز اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ کون سا صدارتی امیدوار ملک بھر میں کتنا مقبول ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ انتخابات کے نتائج کی پیشن گوئی کرنے کا یہ ایک درست طریقہ ہو۔
اس کی وجہ امریکی میں الیکٹورل کالج کے نظام کا استعمال ہے جس میں ہر ریاست کو اس کی آبادی کے تناسب سے ووٹ دیے جاتے ہیں۔ ان الیکٹورل ووٹوں کی کل تعداد 538 ہے اور فتح کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔
امریکہ میں 50 ریاستیں ہیں لیکن چونکہ ان میں سے بیشتر ہر مرتبہ ایک ہی جماعت کو ووٹ دیتی رہی ہیں، ایسی چند ہی ریاستیں ہیں جہاں صدارتی امیدواروں کی جانب سے اپ سیٹ کی امید کی جاتی ہے۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جو ملک کے صدر بننے کے خواہشمند امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہیں اور انھیں ’بیٹل گراؤنڈ سٹیٹس‘ یا کانٹے کے مقابلے والی ریاستیں کہا جاتا ہے۔
’سوئنگ سٹیٹس‘ میں کسے برتری حاصل ہے؟
امریکہ میں سات ریاستیں ایسی ہیں جنھیں ’سوئنگ سٹیٹس‘ کہا جاتا ہے یعنی ہہاں صدارتی انتخاب میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے اور یہاں سے سامنے آنے والے جائزوں اور پولز کے نتائج کافی مسابقانہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جاننا مشکل ہے کہ ان سات ریاستوں میں کون آگے ہے اور کسے برتری حاصل ہے۔
قومی جائزوں کے مقابلے میں ریاستی سطح پر کم پولز ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کم ڈیٹا ہوتا ہے کہ کون آگے ہے، کیونکہ ہر پول میں غلطی کے امکانات ہوتے ہیں جسے ’مارجن اف ایرر‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تعداد زیادہ یا کم ہو سکتی ہے۔
ابھی جو صورتحال ہے اور حالیہ سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان سات ریاستوں میں چند ریاستیں ایسی ہیں جہاں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان مقبولیت کا فرق انتہائی حد تک کم ہے (یعنی کوئی واضح طور پر آگے نہیں ہے)۔
اس میں کلیدی اہمیت کی حامل ریاست پینسلوینیا بھی شامل ہے کیونکہ یہاں سب سے زیادہ انتخابی ووٹ ہیں اور اس ریاست میں کامیابی کے ذریعے فتح کے لیے درکار 270 ووٹوں تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
ایریزونا، جارجیا، نیواڈا اور شمالی کیرولائنا میں اگست کے آغاز سے لے کر اب تک کئی بار برتری لینے والا امیدوار بدلا ہے لیکن ٹرمپ کو اب یہاں معمولی برتری حاصل ہے۔
تین دیگر ریاستوں - مشی گن، پنسلوینیا اور وسکونسن میں - ہیرس اگست کے آغاز سے، دو یا تین پوائنٹس کی برتری حاصل کیے ہوئے تھیں، لیکن حالیہ دنوں میں انتخابی جائزوں میں مقابلہ سخت ہو گیا ہے اور اب ٹرمپ کو پنسلوینیا میں معمولی برتری حاصل ہے۔
یہ تینوں ریاستیں روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ رہی ہیں لیکن ٹرمپ نے سنہ 2016 میں انھیں سرخ رنگ میں رنگ دیا تھا یعنی یہاں سے ریپبلکنز کو فتح ملی تھی۔ بائیڈن نے انھیں 2020 میں دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔ اس مرتبہ کملا کو مشی گن اور وسکونسن میں تو برتری حاصل ہے لیکن پینسلوینیا میں ٹرمپ آگے ہیں۔
کملا اگر ان تینوں ریاستوں کو اپنے پاس رکھنے میں کامیاب رہتی ہیں تو ان کے جیتنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
یہ اوسط کیسے نکالی جاتی ہے؟
ہم نے اوپر گرافکس میں جو اعداد و شمار استعمال کیے ہیں وہ پولنگ تجزیہ ویب سائٹ 538 کے ذریعے تیار کی گئی اوسط پر مبنی ہے۔ یہ ویب سائٹ امریکی نیوز نیٹ ورک اے بی سی نیوز کا حصہ ہے۔ اس اوسط کو قومی سطح پر ہونے والے انفرادی پولز اور کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں میں ہونے والے جائزوں کی بنیاد پر نکالا جاتا ہے۔ یہ جائزے اور پولز پولنگ کمپنیوں کے ذریعے کروائے جاتے ہیں۔
معیار کو برقرار رکھنے کے لیے صرف اُن کمپنیوں کے پولز کو دیکھا جاتا ہے جو ایک مخصوص معیار پر پورا اُترتی ہیں۔ اس معیار میں شفافیت، سیمپل سائز وغیرہ سمیت اس بات کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ آیا پول یا جائزہ ٹیلی فون کالز کے ذریعے کیا گیا، ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے یا آن لائن۔
کیا ہم اِن پولز پر اعتماد کر سکتے ہیں؟
اس وقت قومی جائزے اور پولز یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے سے چند پوائنٹس کے فرق پر موجود ہیں اور جب فرق اتنا کم ہو تو فاتح کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔
اس سے قبل 2016 اور 2020 کے پولز میں ٹرمپ کی حمایت کو کم سمجھا گیا تھا تاہم جب نتائج سامنے آئے تو ایک انتخاب میں انھیں جیت ہوئی تھی جبکہ دوسرے میں شکست۔ ایسے میں پول کروانے والی کمپنیاں اس مسئلے کو متعدد طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس ضمن میں ایڈجسٹمنٹس کو درست کرنا مشکل ہے اور پول کروانے والی کمپنیاں اِس بابت عالمانہ اندازہ لگاتی ہیں کہ جائزے میں حصہ لینے والے افراد میں سے کون پانچ نومبر کو حقیقتاً ووٹ دینے نکلیں گے۔