سدھو کی دوبارہ کپل شرما شو میں انٹری کو ’نیٹ فلکس نے ممکن بنایا‘

انڈین کامیڈین کپل شرما کے نئے شو پر یہ جملہ سننے کو ملا ہے کہ ’موٹر سائکل نہیں، کار چاہیے۔ آڈیئنس کہہ رہی ہیں اب سردار چاہیے۔‘
نوجوت سنگھ سدھو
Getty Images

’موٹر سائکل نہیں، کار چاہیے ۔۔۔۔ آڈیئنس کہہ رہی ہیں اب سردار چاہیے۔‘

یہ جملہ مقبول انڈین کامیڈین کپل شرما کے نئے شو پر سننے کو ملا جب انڈیا کے سابق کرکٹر اور سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو کئی سال بعد ان کے شو پر آئے۔ ان کی شو پر اس واپسی پر مداح بھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ کیا وہ شو پر لوٹ آئے ہیں؟

’دی گریٹ انڈین کپل شو‘ کے چند پرومو مناظر سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر شئیر کیے گئے ہیں۔ ان میں نوجوت سنگھ سدھو کو شو میں ان کی پرانی کرسی پر بیٹھا دکھایا گیا ہے۔

یہ دیکھ کر شو اور خاص طور پر سدھو کے مداح کافی پر جوش ہو گئے ہیں۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ سدھو کی شو میں مستقل واپسی ہوئی ہے یا وہ محض ایک مہمان کی حیثیت سے ایک شو میں شامل ہوئے ہیں۔ تاہم ویڈیو کے کمنٹس سیکشن میں لوگ انھیں کُھل کر خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔

یاد رہے کہ کپل شرما کے اس شو میں نوجوت سنگھ سدھو آغاز سے شریک میزبان کے طور پر شامل ہوئے تھے جہاں وہ مہمانوں سے شرارت بھری گپ شپ کرنے اور فی البدی شاعری سنانے کے لیے کافی مشہور تھے۔

انڈیا کے مختلف چینلز پر آن ایئر ہونے والے اس شو میں سابق انڈین کرکٹر اور سیاستدان پاکستان کے ساتھ میچ میں صفر پر آؤٹ ہونے کا بار بار ذکر کیے جانے پر جو ردِ عمل دیتے شائقین اس پر بہت محظوظ ہوتے رہتے رہے۔

اب یہ شو ایک نئے رنگ کے ساتھ نیٹ فلیکس پر آن ایئر ہوتا ہے جہاں اس کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

نوجوت سنگھ سدھو
Getty Images

سدھو شو سے گئے کیوں تھے؟

کئی سال شو کا حصہ رہنے کے بعد وہ ایک تنازع کے بعد شو سے الگ ہو گئے تھے۔

سنہ 2019 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ایک حملے میں 40 سے زیادہ انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ایک بیان کی وجہ سے انھیں شو سے ہٹا دیا گیا۔

سدھو نے شو کے دوران کہا تھا کہ ’کچھ افراد کی غلطیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینا درست نہیں ہے۔ اُن کے ان کلمات پر بہت تنقید ہوئی اور انھیں حب الوطنی کے خلاف قرار دیا گیا۔‘

تاہم بعد ازاں ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ اس کی کچھ سیاسی وجوہات بھی تھیں جن پر میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ تاہم انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ’اس شو میں شامل لوگوں سے بنا گلدستہ دوبارہ ضرور سجے۔‘

دی گرین ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’شو کے بکھرے ہوئے ستارے واپس لوٹنے لگے ہیں۔ یہ ایک کامبینیشن ہے، انفرادی چیز نہیں۔‘

نوجوت سنگھ سدھو
Getty Images

نئی پرومو ویڈیوز پر شائقین کا ردِ عمل

اس شو کے پروموز میں نوجوت سنگھ سدھو اور انڈین کرکٹر ہربھجن سنگھ کو اپنی بیگمات کے ساتھ شرکت کرتے دکھایا گیا ہے۔ شیئر کیے جانے والے مناظر مداح اور قہقہوں سے بھرپور ہیں اور شاید انھی کا اثر ہے کہ شائقین کی خوشی ان کے ردِعمل میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔

اس شو کے دوران پیش کیے جانے والے ایکٹ میں بھی سدھو کی متبادل میزبان ارچنا پورن سنگھ سے ان کی کرسی چھیننے کے مذاق کو دکھایا گیا ہے۔

کچھ مناظر سے شائقین کو یہ تاثر ملتا ہے جیسے اب شو میں سدھو پھر سے دکھائی دیں گے۔ خود نوجوت سنگھ سدھو نے جب یہ کپلس ایکس پر شیئر کیے تو ان کے مداحوں نے ردِعمل میں انھی کا مشہور مکالمہ ’ٹھوکو تالی‘ کہہ کر انھیں خوش آمدید کہا۔

ابھینو کمار نامی سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ ’آپ کب کپل شرما شو پر واپس آ رہے ہیں تاکہ بالی وڈ کے ’نیپوکڈز‘ کی وجہ کم ہونے ناظرین کو واپس متوجہ کیا جا سکے۔‘

ارپن دیپ سنگھ کا کہنا تھاکہ ’چاہے کچھ بھی ہو، لیکن سدھو کا کرسی پر بیٹھنا ہی شو کو خاص بناتا ہے۔‘

ابھیشیک مینا اس بات پر خوش ہیں کہ کپل شرما کے کامیڈی شو کی پرانی ٹیم پھر سے ساتھ اکٹھی ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’نیٹ فلکس ہر ناممکن کام ممکن بنا رہا ہے، سنیل واپس آگئے۔ اب سدھو پاجی۔ اب ایک بار گووندا کے ساتھ کرشنا کو پرفارم کرواڈو سیم مزہ آئے گا۔‘

یاد رہے کہ بالی وڈ اداکار گووندا اور ان کے کامیڈین بھانجے کرشنا جو اس شو کا حصہ ہے ناراضی چل رہی ہے۔

گگنگوبشر شیٹی نے اسے ’کپل شرما کی تاریخ کا بہترین شو‘ قرار دے دیا۔

ایک بنگلہ دیشی مداح نے کہا ’سدھو جی شو کی شان تھے، ان کو مستقل واپس لایا جائے۔‘

شائقین کا کہنا ہے کہ یہ شو نشر ہونے پر سب سے زیادہ دیکھا جانا والا شو بنے گا۔

ڈاکٹر سدرتھ نے تو نیٹ فلیکس کو رشوت کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ’پلیز نیٹ فلیکس سدھو کو مستقل واپس لاؤ، میں پورے ایک سال کی سبسکرپشن لوں گا۔‘

نوجوت سنگھ سدھو
Getty Images

نوجوت سنگھ سدھو کون ہیں؟

نوجوت سنگھ سدھو 1983 سے 1999 تک انڈیا کی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہے اور ان کا شمار جارحانہ بلے بازوں میں کیا جاتا تھا۔

انھوں نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف 1999 میں کھیلا جس میں وہ صرف ایک ہی رن بنا پائے تھے۔

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد سدھو نے بطور کمینٹیٹر نام کمایا اور انڈین ٹی وی شوز میں بھی ایک مخصوص سٹائل کے ساتھ نظر آئے۔

سدھو نے سیاست میں بھی قدم رکھا اور پہلے بی جے پی اور بعد میں انڈین کانگریس پارٹی میں شامل ہوئے۔ انھوں نے امرتسر سے الیکشن جیتا اور کانگریس پنجاب کے صدر بھی رہے۔

2018 میں نوجوت سنگھ سدھو انڈیا میں اس وقت ایک تنازعے کی زد میں آئے جب پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں وہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بغل گیر ہوئے۔

سدھو جو ایک بے باک اور جوشیلے انسان ہیں ہمیشہ ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور کسی نہ کسی تنازعے میں گھرے رہتے ہیں۔

نوجوت سنگھ سدھو نے سنہ 1996 میں اس وقت ایک طوفان برپا کر دیا تھا جب وہ انگلینڈ کا دورہ کرنے والی انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہر الدین سے جھگڑے کے بعد دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس انڈیا چلے گئے تھے۔

انھوں نے انڈیا کی طرف سے سنہ 1983 اور 1999 تک اکاون ٹیسٹ میچ کھیلے اور 42 اعشاریہ 13 کی اوسط سے رنز سکور کیے۔

کرکٹ تبصرہ نگار ایاز میمن کا کہنا ہے کہ سدھو بحیثیت کرکٹر اور کمنٹیٹر اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست میں آئے تاکہ اس کی بدولت ووٹ حاصل کیے جائیں۔

سنہ 2004 میں انھوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی اور امرتسر کی نشست سے کامیابی حاصل کی تھی۔ سنہ 2016 میں انھوں نے ٹکٹ نہ دیے جانے پر پارٹی چھوڑ دی۔ اس کے بعد الیکشن سے پہلے انھوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی۔

کانگریس لیڈر اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھونے تین دہائیوں پرانے روڈ ریج کیس میں 10 ماہ کی قید کی سزابھی کاٹیگ پٹیالہ جیل سے باہر آنے کے بعد سدھو نے کہا تھا کہ ’حکومتوں کے پاس سچ سننے کی طاقت نہیں ہے۔ ایک خوف ہے کہ وہ سچ کی آواز نہیں سننا چاہتی تھیں۔‘

یاد رہے سدھو کو سپریم کورٹ نے سنہ 1988 کے روڈ ریج کیس میں ایک سال کی سزا سنائی تھی۔ اس کے بعد سدھو نے خود کو عدالت کے حوالے کر دیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.