جس رات موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے بسیں روکنے کے بعد مسافروں کو شناختی کارڈ دیکھ کر ہلاک کیا، اس سے اگلے دن جب محمد سلیم بلوچستان سے اپنے شہر ڈیرہ غازی خان جا رہے تھے تو انھوں نے راستے میں نذرِ آتش کی گئی گاڑیاں دیکھیں۔ اب وہ کاروبار کے سلسلے میں ہر بار بلوچستان جاتے ہوتے یہ ضرور سوچتے ہیں کہ ’اگر میری بس کو بھی اس طرح روک لیا گیا تو کیا ہوگا؟‘
یہ وہی سڑک تھی جس پر آنا جانا ان کے لیے معمول کی بات تھی۔ مگر اب یہاں انھیں جان کا خطرہ ہے۔
رواں سال اگست کی ایک رات اسی راستے پر پنجاب سے بلوچستان آنے والے ٹرکوں اور بسوں کو گھات لگا کر بیٹھے اسلحہ بردار افراد نے روک لیا۔
اس کے بعد اس رات جو کچھ ہوا محمد سلیم نے وہ اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا لیکن اس کی ہولناک کہانیاں جلد ان تک پہنچ گئیں اور اب بات معمول کی نہیں رہی۔
وہ اس طرف سوچنا نہیں چاہتے کیونکہ انھیں سفر تو کرنا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کے ذہن سے یہ خیال گزرتا ضرور ہے۔ ’اگر میری بس کو بھی اس طرح روک لیا گیا اور مسلحہ افراد نے میرا شناختی کارڈ دیکھ کر مجھے بھی نیچے اترنے کا کہا تو کیا ہو گا؟‘
اس رات بلوچستان کے ضلع موسی خیل کے علاقے راڑہ شم میں مسلحہ افراد پہاڑوں سے اتر کر نیچے آئے اور ہائی وے پر انھوں نے درجنوں بسوں، ٹرکوں اور ویگنوں کو روکا، شناختی کارڈز کی مدد سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو الگ کر کے نیچے اتارا اور قریب بیابان میں لے جا کر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
اگلے روز صبح جب فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکار وہاں پہنچے تو ہائی وے کے ساتھ جنگل میں قریب قریب فاصلے پر مختلف مقامات سے تقریباً 23 لاشیں ملیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق پنجاب کے مختلف شہروں سے تھا۔
محمد سلیم خوش قسمتی سے اس روز سفر نہیں کر رہے تھے۔ وہ اس وقت پہلے ہی سے بلوچستان میں موجود تھے اور ایک روز بعد انھیں واپس اپنے شہر ڈیرہ غازی خان آنا تھا۔
لیکن اس واقعے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ فوری طور پر بند ہو گئی تھی۔ انھیں جان پہچان کے ایک شخص کے ساتھ ان کی پرائیویٹ گاڑی میں گھر واپسی کا سفر کرنا پڑا۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’اگلے روز جب ہم راڑہ شم میں اس مقام سے گزر رہے تھے تو ابھی یہاں کئی جلی ہوئی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ سکیورٹی کے بہت سے اہلکار موجود تھے اور بہت سے مرنے والوں کا خون ابھی بھی تازہ تھا۔‘
اس بار خیر و عافیت سے گھر پہنچنے کے بعد محمد سلیم ایک طویل عرصے تک دوبارہ واپس بلوچستان نہیں آئے۔ ان کا شناختی کارڈ بھی پنجاب کا ہے۔ وہ ڈی جی خان کے رہائشی ہیں اور ادویات سپلائی کرنے کا کام کرتے ہیں۔
ان کا زیادہ تر کام بلوچستان میں ہے۔ وہ پنجاب سے مختلف دوا ساز کمپنیوں کی ادویات ڈی جی خان سے بلوچستان کے مختلف شہروں میں میڈیکل سٹورز، ڈاکٹروں اور ڈیلرز تک پہنچاتے ہیں۔ موسٰی خیل میں ہونے والے واقعے سے قبل وہ ہفتے میں دو مرتبہ بھی بلوچستان کا چکر لگا لیتے تھے۔
اب یہ چکر بہت مختصر اور مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ہی لگتا ہے۔ اس مرتبہ جب وہ بلوچستان کے علاقے موسٰی خیل کی طرف جا رہے تھے تو ہم بھی ڈٰی جی خان سے بس میں ان کے ساتھ سوار ہو گئے۔
ایک بس، دو سفر
یہ بس پنجاب کے ضلع تونسہ سے نکلتی ہے اور بلوچستان میں کوئٹہ تک جاتی ہے۔ راستے میں ڈیرہ غازی خان رُکتی ہے جہاں سے مزید لوگ اس میں سوار ہوتے ہیں۔ اس طرح کی لوکل ایئر کنڈیشنڈ بس ایک صبح کے وقت اور ایک رات کے وقت نکلتی ہے۔
اس میں زیادہ تر وہ لوگ سفر کرتے ہیں جو کام کاج کے سلسلے میں بلوچستان کے شہروں سے پنجاب کی طرف آئے ہوتے ہیں اور واپس جا رہے ہوتے ہیں۔ یا پھر پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو بلوچستان میں کام کاج، مزدوری یا کاروبار کرنے جا رہے ہوتے ہیں۔
ہم جس بس میں سوار ہیں وہ ڈیرہ غازی خان سے بھی پوری طرح بھر نہیں پائی۔ لگ بھگ آدھی بس خالی ہے۔ زیادہ تر اس میں وہ مرد اور خواتین سوار ہیں جو واپس بلوچستان اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔
ایک بزرگ اپنی فیملی کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ ان کا تعلق لورالائی سے ہے۔ ایک ٹوکری میں ان کے پاس کچھ چوزے ہیں جو وہ گھر لے کر جا رہے ہیں۔ انھوں نے سرائیکی میں مجھے بتایا کہ ’ان کو پال کر بڑا کریں گے اور بچے بھی کھیلیں گے ان کے ساتھ۔‘
یہاں لوگ زیادہ تر آپ سے بات چیت کر کے آپ کی زبان سے اندازہ لگاتے ہیں کہ آپ کا تعلق کس علاقے سے ہے۔ آپ پنجابی، سرائیکی یا پشتو بولتے ہیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہو گا۔
مجھ سے پوچھنے کے بعد کہ میرا تعلق کہاں سے ہے، ان بزرگ نے خود کلامی کے انداز میں کہا ’تعلق کہیں سے بھی ہو، سب لوگ ایک ہی جیسے ہیں۔‘
محمد سلیم ڈرائیور کے عقب میں میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھے ہیں۔ پنجاب کے قبائلی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے بس جس پکی سڑک پر سفر کر رہی ہے وہ زیادہ کشادہ نہیں ہے۔ ڈرائیور کو بار بار ہارن بجا کر سامنے جانے والے موٹر سائیکوں اور چھوٹی ٹریفک کو خبردار کرنا پڑتا ہے۔
جب بھی بس کی رفتار کم ہوتی ہے یا وہ رکتی ہے تو محمد سلیم کی نظریں سامنے شیشے کے دوسری طرف جاتی ہیں، اور وہیں ٹکی رہتی ہیں۔
محمد سلیم نے مجھے بتایا کہ پنجاب سے بلوچستان جانے والے اس راستے پر اس سے قبل کبھی اتنی بڑی نوعیت کا اسطرح کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ ’لیکن اب ایک بار ہو چکا ہے تو دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں اس طرح سفر کرتے ہوئے انھیں خوف محسوس ہوتا ہے۔ ’کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میرے گھر والے اب مجھے منع کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں بلوچستان مت جایا کرو، حالات خراب ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ بلوچستان کے اندر بھی کئی مقامات پر ایسے واقعات ہو چکے ہیں جہاں پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ’مجھے بھی خوف محسوس ہوتا ہے کہ پنجابی سمجھ کر کوئی نشانہ نہ بنا دے۔‘
ان کے لیے بس کا یہ وہی پرانا سفر اب بہت مختلف ہے۔ بس کے مسافروں پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ ہر ایک کے لیے یہ سفر پہلے سے مختلف ہے۔
جائیں یا نہ جائیں؟
پنجاب کے قبائلی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے ایک پولیس چیک پوسٹ پر بس کر روک لیا گیا ہے جہاں سکیورٹی اہلکار بس میں سوار ہو جاتا ہے اور ہر ایک مسافر کا شناختی کارڈ لے کر چیک کرتا ہے۔
محمد سلیم نے بتایا کہ اس طرف سفر کرتے ہوئے آپ کو اپنا شناختی کارڈ ساتھ رکھنا لازم ہوتا ہے۔ اگر ایک بھی مسافر کے پاس کارڈ نہ ہو تو تصدیق وغیرہ میں کئی دفعہ گھنٹوں کی تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہر ایک کے پاس شناختی کارڈ ضرور ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 25 اگست کی رات کو راڑہ شم میں جب مسلح افراد نے ہائی وے پر بسوں اور ٹرکوں کو روکا تو کلاشنکوف اٹھائے کچھ لوگ بسوں میں داخل ہوتے تھے اور بول کر کہتے تھے کہ ’پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ نیچے اتر جائیں۔‘
’کچھ لوگ خود سے اتر گئے، کچھ کے انھوں نے شناختی کارڈ چیک کر کے نیچے اتارا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کا تعلق فوج یا سکیورٹی اداروں سے ہے، وہ بھی اتر جائیں۔‘
محمد سلیم کہتے ہیں کہ کچھ لوگ یہ سمجھ کر بھی اتر گئے کہ یہ لوگ شاید ڈاکو وغیرہ ہیں جو فوج یا سکیورٹی اہلکار وغیرہ کو چھوڑ دیں گے اور باقیوں کو لوٹ لیں گے۔ لیکن انھوں نے نیچے اتارے جانے والوں پر نیچے جا کر گولیاں برسا دیں۔ وہ سارے موقع پر ہلاک ہو گئے۔
محمد سلیم اس طرح کے خیالات کو ذہن میں لانا نہیں چاہتے کیونکہ وہ بلوچستان جانا ترک نہیں کر سکتے۔ یہ سفر انھیں کرنا تو ضرور ہے۔
راڑہ شم کے واقعے کے بعد اور اب بھی کبھی ان کے ذہن میں یہ سوال آتا ضرور ہے کہ ’جائیں یا نہ جائیں۔‘
’خوف ضرور محسوس ہوتا ہے، ڈر بھی لگتا ہے۔ لیکن میں بلوچستان جانا چھوڑ نہیں سکتا۔ کیا کریں بچوں کے لیے روزی بھی تو کمانی ہے۔ ہر جگہ اتنی آسانی سے کام تو نہیں مل جاتا۔‘
وہ گذشتہ 15 برسوں سے مسلسل کاروبار اور کام کے سلسلے میں اس طرح آتے جاتے ہیں۔ وہ خود پہلے جا کر ادویات کے آرڈرز لیتے ہیں اور پھر مختلف لوگوں کے ذریعے ادویات بلوچستان کے علاقوں میں سپلائی کرتے ہیں۔
محمد سلیم اکیلے نہیں جنھیں اس صورتحال کا سامنا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پنجاب کے جنوبی علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں لوگ پنجاب یا ملک کے دوسرے حصوں میں جانے کے بجائے بلوچستان کی طرف جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
’یہ نزدیک بھی پڑتا ہے اور پھر وہاں مواقع بھی زیادہ مل جاتے ہیں۔ اب ہمارے وہاں لوگوں کے ساتھ تعلقات بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہم سے ہی سامان لیتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ’لوگوں کا تو آپس میں اختلاف نہیں، یہ تنظیموں کی وجہ سے مسئلہ ہوتا ہے۔‘
محمد سلیم کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعے کے بعد اب پنجاب سے بلوچستان جانے والے افراد کی تعداد ’آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔‘
اب اس سفر میں انھیں جان کا خطرہ تو ہے، اس کے ساتھ ان کو مالی طور پر بھی بہت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ پہلے وہ رات میں سفر کرتے اور دن میٍں کام کرتے تھے۔ اب دن میں سفر کرنے کی وجہ سے ان کا دن ضائع ہو جاتا ہے۔
’اب وقت بھی زیادہ لگتا ہے، خرچ بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ ہمارا تو کام ہی زیادہ کمیشن پر چلتا ہے۔ کام کم ہو گا تو کمیشن بھی کم ہو جائے گا۔‘
بہت سے لوگ جو پنجاب سے مزدوری کے لیے بلوچستان کی طرف آتے تھے، ان کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ یہاں لوگوں کو لیبر تلاش کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
’خوف کے سائے کو ڈھلتے وقت لگے گا‘
بلوچستان کی حدود میں داخل ہونے پر ایک مرتبہ پھر سکیورٹی چیک پوسٹ پر شناختی کارڈ وغیرہ چیک کیے جاتے ہیں۔ لگ بھگ تین گھنٹے سے زیادہ سفر کرنے کے بعد ہم راڑہ شم سے کچھ کلو میٹر پہلے بس کو چھوڑ کر نیچے اتر چکے ہیں۔ یہاں محمد سلیم کو ایک مقامی شخص سے ملنا ہے جو انھیں کام میں بھی مدد کرتے ہیں۔
حاجی انیس حسنی ایک بااثر مقامی شخصیت ہیں۔ راڑہ شم پر وہ مقام جہاں جہاں دہشت گردی کا حالیہ واقع پیش آیا، وہاں جانے کے لیے ہم نے انھی کی گاڑی میں سفر کیا۔
حاجی انیس حسنی نے بتایا کہ رات کے لگ بھگ دس بجے کے قریب ہائی وے پر مسلح افراد نے گاڑیوں کو روکنا شروع کیا۔ صبح کے دو تین بجے تک اس جگہ پر گولیوں کے چلنے کی آوازیں آتی رہیں۔
’وہ بہت بھاری ہتھیار استعمال کر رہے تھے۔ فائرنگ کی آواز بہت دور تک جا رہی تھی۔ جاتے ہوئے وہ تقریبا 20 سے 25 گاڑیوں کو آگ بھی لگا کر گئے۔‘
چند منٹ ڈرائیو کرنے کے بعد ہم اس جگہ پہنچ گئے۔ راستے میں ہمیں لیویز کا ایک تھانہ اور چیک پوسٹس بھی نظر آئی۔ لیویز پولیس کی طرز کی ایک مقامی فورس ہے جو امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا، وہاں ایک طرف پہاڑ ہیں جبکہ دوسری طرف جنگل۔
حاجی انیس حسنی نے بتایا کہ مسلح افراد اسی پہاڑی کی طرف سے آئے۔ ان کی تعداد 50 کے لگ بھگ تھی۔ ان میں سے کچھ پہاڑی کے اوپر بیٹھے رہے جو دونوں اطراف نظر رکھے ہوئے تھے۔
باقی اسلحہ بردار ہائی وے پر گشت کرتے رہے تھے اور گاڑیوں کو روکتے رہے۔ حسنی نے بتایا کہ یہاں لیویز کی چیک پوسٹس کے علاوہ سکیورٹی کا کوئی اور بندوبست نہیں ہوتا۔
’لیویز کے پاس بھی بہت تھوڑی سے نفری ہوتی ہے۔ وہ بھی اپنے تھانے سے نہیں نکلے۔ ایف سی کی چیک پوسٹیں بھی کچھ فاصلے پر واقع ہیں۔ وہ بھی تقریباً تین، چار بجے کے قریب یہاں پہنچے۔ اس وقت تک مسلح افراد جا چکے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اب پنجاب سے اس طرف آنے والے لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے۔ پہلے لوگ محنت مزدوری وغیرہ کرنے کے لیے بھی اس طرف کا رُخ کرتے تھے۔ لیکن اب پہلے کی نسبت ’آدھے سے کم لوگ اس طرف آتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں پہلے کبھی یہاں ایسا واقع نہیں ہوا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے کی طرح پنجاب سے لوگوں کی آمد و رفت کو بحال ہوتے کافی وقت لگے گا۔